ذوالفقار - شمیم کرہانی

حسان خان

لائبریرین
باطل شکن، مجاہدِ ایماں تھی ذوالفقار
تدبیرِ چارہ سازئِ انساں تھی ذوالفقار
شیرِ خدا کی جنبشِ مژگاں تھی ذوالفقار
آئینۂ جلالتِ یزداں تھی ذوالفقار
روشن ہے کائنات پہ قیمت میں قدر میں
اتری تھی آسمان سے چمکی تھی بدر میں
تیغِ جمیل مردِ مجاہد کا زیب و زین
زہرا کی پاسبان محمد کے دل کا چین
خیبر شکن، رفیقِ شہنشاہِ مشرقین
غم خوارِ حق، معینِ علی، ناصرِ حسین
آلِ نبی کی ہمدم و ہمدرد بن گئی
ایسی کہ اہلِ بیت کی اک فرد بن گئی
کافر کی رہ گزار میں آندھی، شرر، بلا
مومن کی انجمن میں دھنک، پنکھڑی، صبا
ہر جنگ میں بلند، توانا، قوی، رسا
تلوار تھی کہ احمدِ مختار کی دعا
ٹپکا لہو جو ضرپ پڑی کارگر ہوئی
پھوٹی کرن دیارِ عرب میں سحر ہوئی
حسن و ضیا میں قوسِ قزح سے دوچند تھی
دائم ظفر نصیب سدا فتح مند تھی
رتبے میں گو ہلالِ فلک سے بلند تھی
لیکن عجیب تیغِ حقیقت پسند تھی
جلوہ فشاں تھی، مہرِ جہاں تاب کی طرح
گردن خمیدہ رکھتی تھی محراب کی طرح
خوش طرز و خوش صفات تھی شمشیرِ حیدری
آئینۂ ثبات تھی شمشیرِ حیدری
حلالِ مشکلات تھی شمشیرِ حیدری
حکمت کی ایک بات تھی شمشیرِ حیدری
ظلمت سے محوِ جنگ تھی تنویر کے لیے
تخریب کرتی پھرتی تھی تعمیر کے لیے
باطل کے سرکشوں کے لیے آہنی کمند
ایماں کے غمزدوں کے لیے قلبِ دردمند
اس کی نہ ایک ضرب نہ واعظ کے لاکھ پند
ہوتی تھی رزم گاہ میں اس طرح سربلند
سایہ فضا میں سیفِ اخئ رسول کا
جیسے دعا کو ہاتھ اٹھا ہو بتول کا
ہر جنگ میں نبی کی مددگار ہی رہی
ایماں کی دوست، دین کی غمخوار ہی رہی
مظلوم آدمی کی طرفدار ہی رہی
مالک کی طرح صاحبِ کردار ہی رہی
غصے میں سر حریف کا حاصل نہیں کیا
ذاتی غرض کو جنگ میں شامل نہیں کیا
تیغِ علی کی رفعتِ منزل نہ پوچھئے
کتنی تھی کارِ خیر میں کامل نہ پوچھئے
کیسی تھی اہلِ ظلم کی قاتل نہ پوچھئے
سارے مجاہدات کا حاصل نہ پوچھئے
خندق میں ایک ضرب تھی اس آن بان کی
طاعت نثار ہو گئی دونوں جہان کی
خسرو کی آرسی نہ سکندر کا آئینہ
تھی ذوالفقار سیرتِ حیدر کا آئینہ
بہرِ نجات، رحمتِ داور کا آئینہ
لطفِ خدا و خلقِ پیمبر کا آئینہ
امرت بھرا تھا تیغِ علی کی زبان میں
اسلام اس مٹھاس سے پھیلا جہان میں
لطفِ رسول، رحمتِ باری تھی ذوالفقار
صحرا میں بوئے بہاری تھی ذوالفقار (!!)
سارے عرب میں جاری و ساری تھی ذوالفقار
ذہنِ ستم پہ ضربتِ کاری تھی ذوالفقار
محوِ دوا تھی مائلِ پیکار تو نہ تھی
کفار کا علاج تھی تلوار تو نہ تھی
قہرِ خدا تھی، مہرِ مجسم تھی ذوالفقار
رعدِ غضب تھی، رحمتِ عالم تھی ذوالفقار
دشمن کا زخم، دوست کا مرہم تھی ذوالفقار
آئینہ دارِ شعلہ و شبنم تھی ذوالفقار
قتالِ اہلِ شر تھی، رفیقِ رسول تھی
کانٹا تھا دشمنی میں محبت میں پھول تھی
اعلیٰ تھی ذوالفقار، معلیٰ تھی ذوالفقار
تابش تھی ذوالفقار، تجلیٰ تھی ذوالفقار
جلوہ تھی ذوالفقار، مجلّا تھی ذوالفقار
منبر تھی ذوالفقار، مصلّا تھی ذوالفقار
زنجیر ڈالتی تھی ضلالت کے پاؤں میں
پڑھتے تھے حق پرست نماز اس کی چھاؤں میں
حق نے جسے زمیں پہ اتارا وہ ذوالفقار
برقِ غضب تھا جس کا اشارا وہ ذوالفقار
تھی قہرِ ذوالجلال کا دھارا وہ ذوالفقار
اترا تھا جس کے گھر میں ستارا وہ ذوالفقار
رن کی فضا میں دائرۂ نور بن گئی
چمکی تو برقِ خرمنِ صد طور بن گئی
جو مایہ دارِ خوش لقبی تھی وہ ذوالفقار
جو ناصرِ شہِ عربی تھی وہ ذوالفقار
جو ہاشمی تھی، مطلبی تھی وہ ذوالفقار
جو دوست دارِ آلِ نبی تھی وہ ذوالفقار
رعبِ غضب سے گورکنوں کو دبا لیا
بنتِ نبی کی قبر کو جس نے بچا لیا
لیتی تھی منکروں کے دلوں کی تلاشیاں
مقصد یہ تھا کہ دور کرے بدقماشیاں
دلداریاں بڑھیں تو مٹیں دل خراشیاں
کرتی تھی ریگ زار میں وہ تخم پاشیاں
دشت و جبل میں نخلِ محبت اگا دیا
پتھر کو ایسا نرم کیا دل بنا دیا
آئینۂ خرد تھی فروغِ شعور تھی
خوددار تھی، سخی تھی، جری تھی، غیور تھی
غمخوار تھی، جفا و تشدد سے دور تھی
ہاں دشمنِ رسول کی دشمن ضرور تھی
کس طرح شکل دیکھتی ظالم رقیب کی
عاشق جو تھی وہ اپنے خدا کے حبیب کی
ہمدردِ مصطفیٰ تھی، نگہبانِ مصطفیٰ
ہوتی تھی رزم گاہ میں قربانِ مصطفیٰ
ارمانِ ذوالفقار تھا ارمانِ مصطفیٰ
پہنچا رہی تھی دہر میں فرمانِ مصطفیٰ
رن میں رواں تھی تیغِ دودم بوتراب کی
یا نبض چل رہی تھی رسالت مآب کی
تیغِ علی سے کافرِ بد بیں ہلاک تھا
سینہ ستم گرانِ ضلالت کا چاک تھا
بدکیش غرقِ خوں تھا، عدو نذرِ خاک تھا
پھر بھی گنہ کے داغ سے تن اس کا پاک تھا
تقدیسِ ذوالفقار کی کیا گفتگو کریں
دامن نچوڑ دے تو فرشتے وضو کریں
ظلمت شکن چراغِ رہِ اہلِ اعتبار
ایماں پسند حُسنِ تیقن کی جلوہ زار
چلتی تھی ساتھ ساتھ لیے دین کی بہار
منشائے ذوالفقار تھا منشائے کردگار
حکمِ خدا سے جنگ میں مصروفِ کار تھی
تلوار تھی کہ کلکِ مشیت نگار تھی
محوِ خدا، عدوئے پرستارئ صنم
وحشت کے اک دیار میں تہذیب کا قدم
ایماں پرست مصلحِ قومِ جفا شیم
دینِ ہبل پہ رکھتی تھی اصلاح کا قلم
ہر ضرب سے عیاں تھی ادا فکر و غور کی
تاریخ لکھ رہی تھی تمدن کے دور کی
جس رخ چلی حیات کو بیدار کر گئی
باطل کے خرمنوں کو شرر زار کر گئی
قلعہ غرور و جہل کا مسمار کر گئی
نوری تھی اہلِ نار کو فی النار کر گئی
تن کو جلا کے کفر کا من ٹھیک کر دیا
ایسی چلی کہ سب کا چلن ٹھیک کر دیا
دنیا توہماتِ روایت لیے ہوئے
تیغِ علی یقینِ درایت لیے ہوئے
ہادی ہو جیسے شمعِ ہدایت لیے ہوئے
روح الامیں نجات کی آیت لیے ہوئے
تیغِ علی کو مانیے ایمان کی طرح
اتری تھی آسمان سے قرآن کی طرح
مسلک تھا ذوالفقار کا ایمان و اعتقاد
رکھتی تھی اپنے مالکِ صابر پہ اعتماد
دینا پڑی مورخِ عالم کو چپ کی داد
تھی سیفِ مرتضیٰ کی خموشی بھی اک جہاد
اسلام پر فساد کا در کھولتی نہ تھی
بعدِ رسول مصلحتاً بولتی نہ تھی
قنبر نواز، حامیِ آزادئِ غلام
رسمِ شہنشہی کی عدو، مخلصِ عوام
دنیا کو دے رہی تھی نیا مجلسی نظام
پہنچا رہی تھی دہر میں توحید کا پیام
تبلیغِ حق میں مائلِ صد انہماک تھی
تیغِ علی مفسرِ قرآنِ پاک تھی
ایماں فروز، دافعِ ہر ظلمت و محن
انجم نگاہ، مہر جبیں، برق پیرہن
یزداں پرست، دشمنِ اربابِ اہرمن
باطل شکن، غرور شکن، بت کدہ شکن
ضربِ یقیں تھی کثرتِ اوہام کے لیے
آوازِ لا الٰہ تھی اصنام کے لیے
سلطانِ دہر ہوں کہ فقیرانِ فاقہ مست
تھے عدل کی نگاہ میں یکساں بلند و پست
کرتی تھی انقلابِ تمدن کا بندوبست
رجعت پسند ذہن کو دیتی تھی وہ شکست
جمہور کی رفیق، عدو سامراج کی
ناظم معاشرت کی مدبر سماج کی
مطلب یہ تھا کہ قلب نہ کوئی تپاں رہے
مظلومیِ گدا نہ غرورِ شہاں رہے
نوعِ بشر نہ بھوک سے آشفتہ جاں رہے
دنیا سے دور کلفتِ سود و زیاں رہے
دے دے کے اہلِ ظلم کی دولت عوام کو
مضبوط کر رہی تھی معاشی نظام کو
پیغامِ انقلاب تھی شمشیرِ حیدری
پھیلا رہی تھی دہر میں آئینِ ہمسری
دیتی نہ تھی گدا پہ سلاطیں کو برتری
مطلق اُسے پسند نہ تھی نابرابری
بڑھتا تھا اہلِ زر جو کوئی گھات کے لیے
کرتی تھی اس کو قتل مساوات کے لیے
صحنِ چمن، جبینِ عرق آشنا کی ضو
عشرت، شبابِ تیشۂ محنت کی صبحِ نو
کھیتی چراغِ خونِ جفا کش کی سبز لو
لیکن جفا نصیب کے حصے میں نانِ جو
یہ ظلم بے سزا یہ شقاوت معاف تھی
تلوار اس طریقِ عمل کے خلاف تھی
سونا بغیرِ عزم اگلتی نہیں زمیں
کنکر لہو کے رنگ سے بنتا ہے اک نگیں
گلشن کھلے، جو خون سے تر ہو گئی جبیں
کمھلا گئی حیات تو دھرتی ہوئی حسیں
لیکن ملا نہ کوئی صلہ مردِ کار کو
غصہ اسی نظام پہ تھا ذوالفقار کو
انسان آفریدۂ پروردگار ہے
پھر کیوں کوئی دکھی کوئی سرمایہ دار ہے
کوئی زیاں نصیب، کوئی سود خوار ہے
اے انقلاب! آ، تجھے کیا انتظار ہے
تیغِ علی ہے درد کا درماں لیے ہوئے
صبحِ بہارِ عشرتِ انساں لیے ہوئے
ایماں کی سمت، کفر کا رخ موڑتی رہی
ناوک جہالتوں کی طرف چھوڑتی رہی
جہل و غرور و کبر کا سر پھوڑتی رہی
ذہنِ عرب کے سارے صنم توڑتی رہی
تکبیرِ حق بتوں کو سناتی چلی گئی
پتھر پہ اک لکیر بناتی چلی گئی
لا تُفسِدُوا کی شرح تھی ہر ضربِ ذوالفقار
یعنی زمینِ حق کو بناؤ نہ کارزار
کیوں پھر رہے ہو دہر میں تم صورتِ غبار
اسلام دے رہا ہے تمہیں زندگی کا پیار
کیسے رہیں زمیں پہ طریقہ سکھا گئی
جینے کا آدمی کو سلیقہ سکھا گئی
محکم تھی آرزو میں، ارادے میں تھی اٹل
ہر ضرب اس کی ٹھیک تھی، ہر زخم برمحل
حکمِ خدائے پاک سے تھی مائلِ جدل
قرآں تھا ایک علم، تو شمشیر اک عمل
خونی تھی ذوالفقار، نہ قاتل تھی ذوالفقار
علمِ کتابِ پاک پہ عامل تھی ذوالفقار
دل ہنس پڑے، جدا حسد و کینہ ہو گئے
سینوں سے دور غصۂ دیرینہ ہو گئے
قلبِ جہاں، خلوص کا گنجینہ ہو گئے
لات و منات قصۂ پارینہ ہو گئے
جھگڑا چکا کے کفر کا، انصاف کر گئی
میدان اہلِ حق کے لیے صاف کر گئی
مدِّ نظر تھی بے کس و مغموم کی مدد
تھی فرضِ عین، دیدۂ محروم کی مدد
اس کی مدد کو مانیے معصوم کی مدد
تیغِ علی تھی، کرتی تھی مظلوم کی مدد
اہلِ ستم کے واسطے بجلی فنا کی تھی
شمشیرِ حیدری تھی کہ لاٹھی خدا کی تھی
فاتح تھی جشنِ فتح مناتی چلی گئی
ہر معرکے میں دھوم مچاتی چلی گئی
باطل کے پرچموں کو جھکاتی چلی گئی
آذر کے بت کدوں کو گراتی چلی گئی
یوں بت پرست قوم کی چھاتی فگار کی
ہے آج تک دلوں میں چبھن ذوالفقار کی
آوازِ جاں گداز تھی اغیار کے لیے
پیغامِ دل نواز تھی دیں دار کے لیے
حرفِ ظفر تھی حیدرِ کرّار کے لیے
حصنِ حصیں تھی احمدِ مختار کے لیے
تیغِ دودم امینِ جلال و جمال تھی
تلوار تھی علی کی، محمد کی ڈھال تھی
کرتی تھی دفع دل سے نفاق و حسد کا زہر
شہرہ تھا اس کی روح نوازی کا شہر شہر
دوڑا رہی تھی ایک نئی زندگی کی لہر
جولاں تھا ارتقا کی طرف کاروانِ دہر
اورنگ کے لیے نہ زر و تاج کے لیے
کوشاں تھی اس زمین کی معراج کے لیے
دانا تھی، دور بیں تھی، حقیقت شعار تھی
اسرارِ رزم و بزم کی آئینہ دار تھی
عہدِ مصالحت ہو تو حرفِ قرار تھی
تلوار تھی کہ مصلحتِ کردگار تھی
خاموش رہ کے فاتحِ آلام ہو گئی
عہدِ حَسَن میں صلح کا پیغام ہو گئی
خندق میں حُسنِ جلوہ نمائی دکھا گئی
خیبر میں زورِ عقدہ کشائی دکھا گئی
صفین میں کمالِ صفائی دکھا گئی
تیغِ خدا تھی، شانِ خدائی دکھا گئی
ہر معرکے میں ناخنِ تدبیر ہو گئی
اور کربلا میں صبر کی تصویر ہو گئی
کب دشتِ نینوا میں برائے وغا چلی
ایفائے عہد کے لیے وہ باوفا چلی
منزل تھی امتحاں کی بہ صبر و رضا چلی
بہرِ وفائے جنگ سرِ کربلا چلی
برقِ الٰہ، موجۂ تسنیم ہو گئی
محرابِ عشق میں سرِ تسلیم ہو گئی
اہلِ عرب سے دادِ شجاعت لیے ہوئے
گُردانِ شام و رَے کو شکستیں دیے ہوئے
مولا علی کا جامِ تولّا پیے ہوئے
آلِ رسولِ پاک پہ سایہ کیے ہوئے
تھے اہلِ بیت، سیفِ مصفّا کی چھاؤں میں
یا قافلہ بہشت کا طوبیٰ کی چھاؤں میں
غم خوارِ اہلِ بیت تھی صحرا میں ذوالفقار
بے کس کی دستگیر، غریبوں کی چارہ کار
کنبے کی پاسبان، رفیقوں کی پاسدار
خیبر شکن کی تیغ تھی اللہ کا حصار
محفوظِ غم، ہر اہلِ یقیں تھا اسی جگہ
اسلام خود پناہ گزیں تھا اسی جگہ
قرآنِ حق، مؤیّدِ کارِ خدا رہی
سارے منافقانِ جہاں سے خفا رہی
اصنامِ دہر کے لیے برقِ بلا رہی
ہر دور کے یزید سے جنگ آزما رہی
شعلوں کو لالہ زار بناتی چلی گئی
ہر بولہب کی آگ بجھاتی چلی گئی
دنیائے شعلہ خو کے لیے نارِ جاں گُسل
آتش فشاں مدام، شرربار مستقل
لیکن جہانِ مہر و محبت میں نرم دل
آلِ خلیل کے لیے خنکئ معتدل
نمرودیت کی آگ کو ایسا بجھا دیا
امن و سلامتی کا گلستاں کھلا دیا
رکھتی تھی ربط آلِ محمد کے کام سے
تھا عشق اسے حسین علیہ السلام سے
اہلِ عرب سے ضد تھی نہ اربابِ شام سے
تھا اس کو اختلاف یزیدی نظام سے
نعرہ تھا لب پہ تیغ کے، ہل من مزید کا
بجلی تلاش کرتی تھی خرمن یزید کا
وہ چاہتی تھی، بند ہو رسم و رہِ ستم
صبحِ خوشی کا راج ہو، مٹ جائے شامِ غم
زر کے اجارہ دار اکیلے نہ تم نہ ہم
رکھیں بلند، وحدتِ اقوام کا علم
پرچھائیاں الگ نہ ہوں خورشید کے تلے
(اک) کارواں ہو پرچمِ توحید کے تلے
ہرچند اس نے حکم نہ پایا جہاد کا
لیکن وہ بند کر کے رہی در فساد کا
ٹھنڈا مزاج کر دیا ہر بدنہاد کا
پھر جل سکا چراغ نہ ابنِ زیاد کا
ضو تیغ کی یزیدِ بد انجام تک گئی
وہ صبح تھی کہ جس کی چمک شام تک گئی
کد تھی کہ حق کو خواب نہ سمجھے امیرِ شام
ظلمت کو آفتاب نہ سمجھے امیرِ شام
خونِ بشر کو آب نہ سمجھے امیرِ شام
مذہب کو شغلِ ناب نہ سمجھے امیرِ شام
آیاتِ حق کو گھول کے جامِ گلاب میں
قرآنِ پاک کو نہ ڈبو دے شراب میں
ضد تھی کہ دین کو نہ مٹا دے امیرِ شام
تہذیب کو نہ کھیل بنا دے امیرِ شام
ملت کو خاک میں نہ ملا دے امیرِ شام
اسلام کا دیا نہ بجھا دے امیرِ شام
کی سعی اس نگاہ سے ایمان کے لیے
اک روشنی تو چاہیے انسان کے لیے
کوشاں تھی بال و پر نہ کہیں چھین لے یزید
انسان کی سحر نہ کہیں چھین لے یزید
آزادئ بشر نہ کہیں چھین لے یزید
تمیزِ خیر و شر نہ کہیں چھین لے یزید
نقشِ یقیں کو نقشِ توہم بنا نہ دے
اس خطِ مستقیم کو ظالم مٹا نہ دے
جلدی اٹھائے اپنا بسیرا کہیں یزید
ڈالے نہ ذہنِ وقت پہ ڈیرا کہیں یزید
کر دے نہ زندگی میں اندھیرا کہیں یزید
ڈاکو ہے، لوٹ لے نہ سویرا کہیں یزید
اسلام کو نہ غرقِ تمنائے مُل کرے
یہ آخری چراغ ہے اس کو نہ گل کرے
کہتی تھی وہ رقیبِ تمدن یزید ہے
گلزارِ حق میں دشمنِ گلبن یزید ہے
جو نوچ لے جگر کو وہ ناخن یزید ہے
اسلام کی بِنا کے لیے گھن یزید ہے
جلدی مٹاؤ ایسے ظلوم و جہول کو
دیمک ہے چاٹ جائے نہ دینِ رسول کو
الحاد ہے، عناد ہے، انکار ہے یزید
ظلمت پسند، دشمنِ انوار ہے یزید
انسانیت کے واسطے آزار ہے یزید
عبد و خدا کے بیچ میں دیوار ہے یزید
دل توڑ کر حیات کو ویراں بنا نہ دے
خطرہ یہ ہے کہ خانۂ کعبہ کو ڈھا نہ دے
جہل و جفا و جور کا گہوارہ ہے یزید
مارِ سیاِہ عقربِ جرّارہ ہے یزید
طبعِ حریص و طینتِ امّارہ ہے ہے یزید
گردش ہے جس کی نحس وہ سیارہ ہے یزید
پھیلا ہوا ہے تیرگیِ شام کی طرح
محوِ ستم ہے گردشِ ایام کی طرح
کہتی تھی ذوالفقار کہ غدار ہے یزید
اک آمرانہ قصر کا معمار ہے یزید
اسلام کے نظام سے بیزار ہے یزید
طبعِ علیل و ذہنِ غلط کار ہے یزید
دو موت کا پیام ستم گار کے لیے
داروئے تلخ چاہیے بیمار کے لیے
برہم کہ ہے غریقِ خرابات میرِ شام
گڑھتا ہے تازہ تازہ روایات میرِ شام
پہچانتا نہیں ہے مقامات میرِ شام
کرتا ہے ردِ معنیِ آیات میرِ شام
ڈر ہے کہ رکھ کے نار کے پردے میں نور کو
ذہنِ یزید مسخ نہ کر دے شعور کو
غصہ کہ دینِ حق پہ ہے کیوں حکمراں یزید
علم و یقیں حُسین ہیں، وہم و گماں یزید
رکھتا نہیں لحاظِ لبِ تشنگاں یزید
انساں پہ بند کرتا ہے آبِ رواں یزید
تھا مال و زر سے کام نہ تختِ پلید سے
جینے کا حق وہ مانگ رہی تھی یزید سے
جسمِ جہاں کا عنصرِ بے کار ہے یزید
گمراہیوں کا قافلہ سالار ہے یزید
محوِ ظلام و بستۂ زنار ہے یزید
معصوم ہیں حُسین گنہ گار ہے یزید
سیراب علقمہ سے تو سارا عرب رہے
جو مالکِ فرات ہو وہ تشنہ لب رہے
غش میں پڑے ہیں عابدِ بیمار و ناتواں
چھایا ہوا ہے چہرۂ قاسم پہ اک دھواں
زینب کے دونوں پھول ہیں اور صرصرِ خزاں
سوکھی ہوئی ہے اصغرِ بے معصوم کی زباں
پیاسے ہیں تین روز سے آشفتہ حال ہیں
معلوم ہے؟ یہ ساقئ کوثر کے لال ہیں
دنیا میں بے نظیر ہیں عقبیٰ میں بے دلیل
جاری ہے ان کے فیض سے آفاق میں سبیل
حلّہ انہیں کے واسطے لائے تھے جبرئیل
یہ مالکِ بہشت ہیں، سلطانِ سلسبیل
محتاجِ آب آج ہیں پیارے رسول کے
پہچانتے ہو؟ پھول ہیں باغِ رسول کے
جو پھول ہے وہ غیرتِ صد ماہتاب ہے
عباس کا شباب علی کا شباب ہے
اکبر ہے یا بہشتِ بریں کا گلاب ہے
پانی تو ایسے پھولوں کو دینا ثواب ہے
یہ سب پلے رسول کے بستانِ پاک میں
اور تم ملا رہے ہو انہیں خون و خاک میں
تم آزماؤ دے کے انہیں درد جاں گسل
گل ہائے سرمدی ہیں نہ ہوں گے یہ مضمحل
خوش ہوں گے اور زخم جو کھائیں گے متصل
عزم و عمل کی جان ہیں، صبر و رضا کا دل
کیا غم، اگر پہاڑ گریں ان پہ جبر کے
فرزندِ فاطمہ ہیں یہ عادی ہیں صبر کے
افسوس! حکمِ جنگ نہیں ذوالفقار کو
ورنہ الٹ کے رکھ دے ابھی کارزار کو
پانی پلائے لا کے شہِ دل فگار کو
پر کیا کرے، وہ مصلحتِ کردگار کو
تیغِ ظفر ہے فاتحِ بدر و حنین کی
چپ چاپ تک رہی ہے جو صورت حسین کی
اک روز قلعہ گیر تھی شمشیرِ حیدری
اب اک عصائے پیر تھی شمشیرِ حیدری
مظلوم تھی، اسیر تھی شمشیرِ حیدری
اشکوں کی اک لکیر تھی شمشیرِ حیدری
شمشیرِ غم زدہ میں جھلک ابتلا کی تھی
یا ڈبڈبائی آنکھ شہِ لافتیٰ کی تھی
اصغر کی غم گسار ہے، اکبر کی غم گسار
بنتِ نبی کے چاند سے دلبر کی غم گسار
سارے عزیز و ہمدم و یاور کی غم گسار
صحرائے بے کسی میں بہتّر کی غم گسار
تلوار ہو گی، حیدرِ کرّار کے لے
تکیہ ہے آج عابدِ بیمار کے لیے
وہ دوپہر وہ چہرۂ شبیرِ پرغبار
وہ حرملہ کا تیر، وہ حلقومِ شیر خوار
جلتی ہوئی وہ ریت وہ بانو کا گلعذار
تھرا رہی تھی فاتحِ خیبر کی ذوالفقار
یہ بھی تھا کام تیغِ دو پیکر کے واسطے
تیار کی لحد علی اصغر کے واسطے
کٹتا ہوا حسین کا سر دیکھتی رہی
جلتا ہوا رسول کا گھر دیکھتی رہی
بنتِ علی کو برہنہ سر دیکھتی رہی
دیکھا نہ جا رہا تھا مگر دیکھتی رہی
ایسا پڑا نہ وقت کبھی ذوالفقار پر
کیا اعتراض، مرضیِ پروردگار پر
(شمیم کرہانی)
 
شاہِ مرداں،شیرِ یزداں،قوتَ پروردگار
لافتٰی الا علی لا سیف الا ذوالفقار
سبحان اللہ حسان جی کیا بات ہے تلوار کی تیزی و طراری کا مزہ آگیا تلوار کے عروج و زوال کی داستان کیا خوب رقم کی ہے اور کمال سے زوال کی حقیقت کو بھی کمال سخن سے آشکارا کیا ہے مدت کے بعد انیس و دبیر کا سا ذائقہ چکھا۔ لطف و کیف کی لذتوں سے محظوظ ہورہا ہوں۔ جیتے رہیں
 

حسان خان

لائبریرین
شاہِ مرداں،شیرِ یزداں،قوتَ پروردگار
لافتٰی الا علی لا سیف الا ذوالفقار
سبحان اللہ حسان جی کیا بات ہے تلوار کی تیزی و طراری کا مزہ آگیا تلوار کے عروج و زوال کی داستان کیا خوب رقم کی ہے اور کمال سے زوال کی حقیقت کو بھی کمال سخن سے آشکارا کیا ہے مدت کے بعد انیس و دبیر کا سا ذائقہ چکھا۔ لطف و کیف کی لذتوں سے محظوظ ہورہا ہوں۔ جیتے رہیں
زبردست حسان خان
آپ ہمیشہ ہی بڑے سرپرائز لے کر آتے ہیں :) جیتے رہیئے
ماشاءاللہ ۔۔کیسا خوبصورت کلام شریک محفل کیا ہے آپ نے ۔
جیتے رہیئے بیٹا ۔

بہت شکریہ آپ سب کا۔ :)
 
Top