کاشفی
محفلین
ذاکر(1) سے خطاب
(جوش ملیح آبادی)
ہوشیار اے ذاکر افسردہ فطرت! ہوشیار
مردِ حق اندیشہ، اور باطل سے ہو زار و نزار
ضعف کا احساس، اور مومن کو، یہ کیا خلفشار
لافتیٰ اِلاَّ علی علیہ السلام، لاسیف اِلاّ ذوالفقار
جو حُسینی ہے، کسی قوت سے ڈر سکتا نہیں
موت سے ٹکرا کے بھی ساونت مرسکتا نہیں
تو نہیں رُوحِ شہیدِ کربلا سے بہرہ مند
تیرے شانوں پر تو زلفِ بُزدلی کی ہے کمند
سخت استعجاب ہے اے پیشہ ور ماتم پسند
پیروضیغم کے سینے میں ہو قلبِ گوسفند
ننگ کا موجب ہے یہ اہلِ دغا کے واسطے
یوں نہ ماتم کر شہیدِ کربلا کے واسطے
(جاری ہے۔۔۔)
ذاکر(1)
" ذاکر" بدبخت اور غلام ہندوستان کا، جو خود اپنی وسعت سے برباد اور اپنے ہی بوجھ کے نیچے کُچلا ہوا ہے۔ ایک ایسا سُست فطرت فرد ہے، جو1 - واقعاتِ کربلا کو، صحت و عدمِ صحت سے بے نیاز ہوکر اور رُوح شہادتِ امام سے بیگانہ رہتے ہوئے ، ماہ محرم کی مجلسوں میں محض اس لئے بیان کرتا ہے کہ سامعین روتے روتے بے ہوش ہوجائیں۔
2 - اس شدّت کے ساتھ رُلانے کی، اچھی طرح مول تول کر کے، فیس بھی لیتا ہے۔
3 - فیس کے ساتھ ساتھ "انعام" و "تحائف" کے واسطے بھی غیر ملفوظ طور سے مُصر رہتا ہے۔
4 - اس ناجائز فیس اور ان ناروا تحائف کو شرمناک جمود اور عبرت انگیز بے حسی کے ساتھ اپنے ہی نفس کی خاطر دوسرے محرم تک صرف کرتا رہتا ہے۔
5 - ملّت کو بیدار کرنے کے عوض تھپکتا اور لوریاں دیتا ہے، اور فاتح و جنگجو بنانے کے بدلے بُزدل و مظلوم بنانے کی سعی میں سرگرم رہتا ے۔
6 - شہیدِ اعظم کی قربانی کے مغز اور روح کو خلقت کی نظروں سے بصد ہزار اہتمام مخفی رہتا ہے۔
7 - حق کی طرف ملتفت نہیں ہوتا اور باطل سے بیحد ڈرتا ہے۔
8 - اور اپنے ان خدمات کا صلہ پانے کے لئے آستانِ حکومت پر بھی ناصیہ فرسائی کرتا ہوا دیکھا جاتا ہے۔
(جوش ملیح آبادی)