ساجدتاج
محفلین


ذات کے نام پر جھگڑا کیسا

اللہ تعالی نے انسان کو جب پیدا کیا تب وہ ہر چیز سے انجان تھا ہر بُرائی سے پاک تھا۔مسلمان کی پہچان اُس کے مسلم ہونے سے ہی ہوتی ہے۔مگر مسلمان نے اپنی پہچان بنانے کے لیے فرقوں اور ذاتوںکا سہارا لے رکھا ہے۔بات اگر پہچان تک ہوتی تو ٹھیک تھا مگر لوگوں نے اِسے اپنے اُوپر حاوی کر کے لڑائی جھگڑا اور قتل و غارت شروع کر دیا۔جب اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کیا تو وہ کس فرقے سے تھا؟کسی فرقے سے نہیں،کس ذات کا تھا؟کسی ذات کا نہیں ماسوائے ایک مسلمان ہونے کے۔
اگر کسی سے پوچھا جائے کہ بھائی آپ کون ہیں تو جواب یہ نہیں ملتا کہ ہم مسلمان ہیں بلکہ اپنا فرقہ بتانے لگ جاتے ہیں۔کوئی کہتا ہے کہ ہم اہلِ حدیث ہیں کوئی اہلِ سُنی کہتا ہے تو کوئی برئیلوی بتاتا ہے۔ان فرقے والوں نے تو اللہ تعالی کے گھر کا بھی مذاق بنا رکھا ہے۔انسان سکون پانے کے لیے اللہ کے گھر جاتا ہے نماز ادا کرنے کے لیے۔مگر کچھ لوگ ایسے ہیں جو یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہاں نا جاؤ یہ اہل سُنت کی مسجد ہے کوئی کہتا ہے کہ اہلِ حدیث والوں کی مسجد ہے تو کوئی کچھ۔کیا ہے یہ سب؟کیوں ہے یہ سب؟کیا ہم مسلمان ہیں؟ہم کیوں اہنا مذاق بنا رہے ہیں دُنیا کے آگے؟فرقے تو لوگوںنے بنائے ہی بنائے مزید اپنی پہچان کو بنانے کے لیے ذاتوںکا سہارا لینا شروع کر دیتے ہیں۔کوئی بٹ ہے کویہ شیخ ہے کوئی مغل ہے کویہ ملک ہے تو کوئی راجپوت ہے۔اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے تو یہ لوگ اس انداز اور فخر سے بتاتے ہیںکہ جیسے یہ کسی مُلک کے بادشاہ ہوں۔اللہ نے ہمیں مسلمان پیدا کیا تو پھر ہم مسلمان ہونے پر فخر کیوں نہیںکرتے۔ہم سے اگر کوئی پوچھے کہ آپ کون ہیں تو پم اپنے فرقوں اور ذات کو چھوذ کر یہ کہہ دیں کہ ہم مسلمان ہیں تو کیا ہماری شان میں کمی آجائے گی یا ہماری عزت کم ہوجائے گی۔ہم اپنی اپنی ذات پر فخر کرتے ہیں ہم مسلمان ہونے پر کیوں فخر نہیں کرتے۔
شاید اس لیے ساجد،مسلمان تنکوں کی طرح بِکھرا ہوا ہے۔
میں اپنے ایک دوست کے آفس میں بیٹھا ہوا تھا کسی کام کے سلسلے میں۔وہاں کچھ مختلف ذات کے لوگ بیٹھے تھے۔جن میں ایک چیمہ۔بسرا اور تاڑر فیلمی سے تعلق رکھتے تھے۔وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ یار ہماری ذات میں ایسا ہوتا ہے ویسا ہوتا وغیرہ وغیرہ پھر اچانک وہ مجھ سے مخاطب ہوئے کہ ساجد یار تمھاری ذات کیا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ مسلمان۔تو اُنہوںنے میرا مذاق آڑایا اور پھر ہنستے ہوئے بولے کہ یار بتا کہ تم کون ہو میںنے پھر وہی جواب دیا کہ میں مسلمان ہوںتو اُنہوں نے آگے سے کہا کہ یار ہم بھی مسلمان ہیں ہم کوئی کافر تو نہیںلیکن تمھاری کوئی پہچان تو ہو گی جیسے کہ ہماری ایک ذات ہے۔میں نے کہا کہ نہیں مسلمان کی کوئی ذات نہیںہے مسلمان صرف مسلمان ہے بس۔بس وہ مجھ پر ہنسنا شروع ہو گئے بہرحال میںوہاںسے اُٹھ گیا۔سُنا آپ نے میں نے مسلمان کا کہا تو کہا کہ نہیں اپنی ذات بتاؤ۔یااللہ ہمیںہدایت دے آمین۔
مسلمان ہونا شاید آج کے دور میںکافی نہیںہے ساجد۔
آج کل کے ترقی یافتہ دور میں بھی انسان کم عقل ہی رہا۔ذاتوں کو لے کر بڑے بڑے مسلے کھڑے کر دیئے جاتے ہیں۔ذات میں سب سے بڑا مسئلہ شادی کا ہے جو کہ ایک عرصہ سے چلا آرہا ہے۔جو لوگ اپنی ذات کو بہت اہمیت دیتے ہیں اُن کا کہنا یہی ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں کی شادیاں ذات میں ہی ہونی چاہیے اسی کے چکر میں وہ لڑکیوں کی عمر بڑھا دیتے ہیں لیکن کچھ بھی پو لیکن شادی ذات والوں میں ہی کریں گے۔اگر کوئی اچھا رشتہ آ بھی جائے تو یہ کہہ کر ٹھکرا دیتے ہیں کہ یہ ہماری برادری کا نہیں ہے۔بچوں کی خواہش کو سامنے نہیںرکھا جاتا کبھی بس ذات کے نام کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔میں ایک سوال پوچھتا ہوں کہ اگر کوئی اُن کی ذات والا ہی اُن کی بیٹی سے شادی کرے اور شادی کے بعد اُسے پریشان کرے دُکھ دے تنگ کرے اور کچھ مہینوں بعد طلاق دے کر گھر بھیج دے تو کیا کہیںگےیہ ذات والے؟
یہ رسم ایک عرصے سے چلتی آرہی ہے اور شاید ایسے ہی چلتی رہے ساجد۔
ذات کے نام پر ایک دوسرے سے لڑنا جھگڑنا ایک دوسرے کا خون بہانا یہ کہاں کی انسانیت ہے۔یہ کیسے مسلمان ہیں جو آپس میں لڑتے جا رہے ہیں؟کیا ہم مسلمان ہیں؟ایک دوسرے سے حسد کرنا کیا ہم مسلمان ہیں؟اپنے سے چھوٹوں کو نیچا دِکھانے کی کوشش کرنا۔کیا ہم مسلمان ہیں؟اللہ کی بات کو نا ماننا کیا ہم مسلمان ہیں؟
بے شک انسان خسارے میں ہے ساجد

وہی ہے مالک دو جہانوں کا

کیوں چل پڑے ہو تم اس راہ میں گُمراہ ہونے کو۔
جب پڑھتے ہو سب تم ایک ہی قُرآن کو۔
نہیں ملے گا کچھ تمہیں ان دُنیاوی رسموں کو نبھا کر،
آخر کیوں ترجیح دیتے ہو تم اپنی اپنی ذات کو۔
کرتے ہو تم چوری،قتل، زنا جیسے گُناہ سرِعام،
کیا چُن لیا ہے تم نے اپنا ٹھکانہ دوزخ کو۔
کیوں بہاتے ہو خون ذات کے نام پر اپنوں کا،
بولو کیا جواب دو گے قیامت کے روز اُس پروردگار کو۔
مت سوچو کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط،
کیا جس نے پیدا تمہیں کرو سجدہ بس اُسی ذات کو۔
گر اُلجھ گئے ہو تم زندگی کے آغازِ سفر میں،
تو رکھو مثال اپنے نبی کی سامنے اپنی آخرت سنوارنے کو۔
بنائی جس نے دُنیا وہی مالک ہے دو جہانوں کا ساجد،
گر ہونا ہے کامیاب دُنیا میں تو مان لو اس بات کو۔
