د وطن پہ گلدرو کے"تقریب رونمائی

Dilkash

محفلین
د وطن پہ گلدرو کے"کی تقریب رونمائی
فیروز آفریدی
پشاور کو پہلے پھولوں کا شہر کہا جاتا تھا مگر پھولوں کے اس شہر کو آج کل بارود کے دھووں نے اپنے لپیٹ میں لے رکھا ہے ، اور اب اگر کوئی اسےوحشت زدہ دھماکوں او خودکش حملہ اوروں کا دہشت زدہ شہر کہے تو بعید از حقیقت نہ ہوگا۔

اس شہرمیں آئے روز درجنوں کی تعداد میں لوگ مختلف قسم کی دھشت گردی کے واقعات میں لرزہ خیز موت کا نوالہ بن جاتے ہیں ۔اس بستی میں دہماکے روزانہ کا معمول ہیں۔

بارود کی بو سے اٹکی خوف اور دہشت کی فضا میں کاروبار اور روزگار تو کجا کہیں ادمی اپنے ّعزیزوں سے ملنے سے بھی کتراتا ہے۔

بیرون ملک سے ائے ہوئے میری طرح کے مسافر اپنے بزرگوں کی قبروں پر دعا مانگنے اور رشتہ داروں کی موت پر اظہار افسوس او فاتحہ خوانی کے لئے جانے سے قبل سو بار سوچتا ہے۔

سالوں پر محیط مسلسل سفر میں رہتے ہوئے ، سال کے اختتام پر سالانہ رخصتی پر وطن عزیز لوٹ آنا،میرا کئی برسوںسے معمول بن چکا ہے۔

اس سال دو دفعہ انا نصیب ہوا ،مارچ 2009 میں جب آیا تھا تو متاثرین سوات دیر اور بونیر کے ساتھ 25 دن گزار کر جولائی میں واپسی ہوئی ۔
اس دفعہ پشاور دوبارہ آمد 28 اکتوبر 2009 کو ہوئی ۔وطن انے کی وجہ یہ رہی کہ جب اپنے کام پر واپس چلا گیا،تو دل کام کرنے کو نھیں چا ہ رہا تھا ۔
کمپنی کے پاکستانی مینجنگ ڈائریکٹر جو میرے انتہائی عزیز دوستوں میں سے ایک ہے ،اور جس کی رفاقت 22 سال سے مجھے حاصل ہے، سے درخواست کی کہ مجھے ریٹائرمنٹ دی جائے۔ایک تو صحت ٹھیک نہیں رہتی دوسری فیملی کو بھی وقت نہیں دے سکتا ، اور تیسری او ر اہم وجہ اپنی ذاتی چھوٹی سی کنسٹرکشن کی کمپنی کو بھی ٹائم دینا ضروری تھا۔

لہذا کمپنی کی مشفق ڈائریکٹر نے ازراہ مہربانی میری درخواست منظور کی۔
چونکہ پاکستان میں نے لوڈ شیڈنگ او گرمی اور مچھروں سے تنگ اکر عین جولائی کے اختتام پر بیرون ملک راہ فرار اختیار کی تھی۔

لیکن اس دفعہ ارادہ انشاللہ سردیاں یہیں گذارنے کا ہے۔
مگر حالات اتنے خطرناک ہیں کہ نہ خود باہر جانے کا سوچ سکتے ہیں نہ دوستوں کو آنے کی اطلاع دے کر ازمائیش میں ڈال سکتے ہیں۔
کہ ائے روز کے دہماکوں میں اکثر بے گناہ راہ گیر ہی مارے جاتے ہیں۔
سوچتا ہوں کہ ملاقات کے لئے آنے والے دوست خود ہی سفر اخرت کے مسافر نہ بن جائیں۔

پھر بھی چند دوستوں کو پتہ چل ہی گیا اور سب سے پہلے جو ادبی دوست تشریف لے ائے، ان میں پشاور پشتو ادبی جرگہ کے روح روان دلاور خان وقار اور جناب نامور شاعر اور ادیب نسیم خان نسیم صاحبان تھے۔
اسی دن غوری خیل پشتو ادبی جرگہ کے صدر محترم اختر حسین ننگیال اور ظہیر پشتو ادبی ٹولنہ کے جنرل سیکریٹری محترم محمد زاہد خان شیدا بھی تشریف لے آئے۔

دوسرے دن محترم ننگیال صاحب نے میری کتاب" د وطن پہ گلدرو کے"
اردو ترجمہ وطن کے چمن زاروں میں "کی تقریب رونمائی اپنی تنظیم کے زیر اہتمام کرنے کی فرمائیش کی۔
ویسے تو گھر سے باہر نکلنے کا خوف وطن واپسی پر ہی لاحق ہوچکا تھا مگر ان مخلص دوستوں کی فرمائیش کا انکار نہیں کرسکا۔

میں ان دوستوں کا ممنوں ھون جنہوں نے اس پر اشوب دور میں بھی حق دوستی ادا کیا۔ حالانکہ بارود کی دھووں میں گھیرا ،اس شہر پشاور میں تقاریب کا اہتمام کرنا ایک قسم کی نادانی سے کم شمار نہیں ہوتی۔،
مگر اب اہل پشاور روز روز کی دھشت گرد انہ واقعات ، موت اور زندگی کے اس جاری کھیل کے عادی ہوتے جارہے ہیں ۔میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں پشاور کے اہل قلم حضرات کو جو دیانتداری سے اپنے فریضہ قلم و تحریر کو بغیر کسی خوف کے سر انجام دے رہے ہیں۔

میری کتاب جو جولائی 2009 کو میرے جانے کے بعد چھپ چکی تھی اور جس کی چند نسخے مجھے دیار غیر میں بھیجے گئے تھے۔
وہاں پر ہماری تنظیم پاک پشتو ادبی ٹولنہ سے وابستہ ادبی دوستوں نے تقریب رونمائی کا پروگرام بھی بنایا تھا،بینرز بھی لکھے جا چکے تھے مگر سے پہلے بوجہ وقت نہ ملنے ، اور پھر دوران رمضان کسی ادبی تقریب پبا کرنا بڑا مشکل کام ہوتاہے لہذا میں نے منع کیا اور اب جو رمضان کے بعد احباب کرنا چاہتے تھے میں پاکستان چلا آیا۔

وطن واپسی سے پہلے کسی عزیز کے ہاتھ پر گھر میں پڑے کتابوں سے چند کاپیاں ادبی دوستوں کے اور ادبی اور علمی ادراوں کے پاس بھیج دئیے تھے۔
چند کاپیاں وطن واپسی پر دے د ئے۔
لہذا کتاب سے متعلق ملی جلی زبانی تبصرے مل چکے تھے کئی ایک دوستوں نے میری کتاب کے رپورتاژوں کو سراہا ،کئی ایک نے کتاب کی تکنیکی خامیوں کا ذکر کیا۔
کتاب کے بارے میں ملی جلی زبانی تاثرات ملتی رہی۔
باقاعدہ تقریب رونمائی 8 نومبر 2009 کو النور پبلک سکول پلوسئ پشاور کے ایک چھوٹے سے ہال میں منعقد ہوئی۔

تقریب کے شرکاہ زیادہ تر شعرا اور ادبا تھے۔
اس تقریب کی صدارت خیبرایجنسی جمرود کے خیبری مکتبہ فکر و سخن کے مشہور شاعر،ادیب اور محقق مقدر شاہ مقدر نے کی، جبکہ مہمان خصوصی ،وطن عزیز سے پینتیس سالوں سے باہرمقیم پشتو کےبزرگ شاعر اور ادیب وزیر بادشاہ جانان تھے۔
مہمان اعزاز کی کرسی پر پشتو اکیڈمی کے ریسرچ سکالر ڈاکٹر احمد علی عاجز براجمان تھے۔

تقریب کا باقاعدہ آغاز دعایہ شعروں سے ناظم مشاعرہ جلال خلیل نے کیا۔اس کے بعد صدر جرگہ محترم اختر حسین ننگیال نے مہمانوں کو رسمی طور پر خوش امدید کہا۔
اور اپنی ایک نظم میں صاحب کتاب کو منظوم خراج عقیدت پیش کی۔

کتاب پر اولین مقالہ امان اللہ خلیل نے پڑھا۔ ان کے مقالے میں کتاب کے بارے میں خوبصورت جملے استعمال کئے گئے۔اور کتاب کو اسان زبان میں ایک خوبصورت کاوش اور اسے پشتو ادب کیلئے ایک قابل قدر اضافہ قرار دیا ،محمد زاہد خان شیدا نے پہلے شہاب عزیز ارمان کا مقالہ پڑھا کیونکہ وہ بذات خود تبلیغی اجتماع کے لئے لاہور تشریف لے کر گئے تھے۔ اس مقالے میں شہاب ارمان نے انتہائی باریک بینی سے رپورتاژ اور سفرنامے کا الگ الگ تعارف پیش کیا اور دونوں کے درمیان فرق کو واضح کیا ۔

شہاب ارمان نے مختلف اساتذہ ئے ادب کے حوالوں اور اصناف سخن کے حوالے سے متعین کردہ اصولوں پر کتاب ہذا کو پرکھ کر اسے نثری ادب کا خوشگوار اضافہ قرار پایا۔
محمد ذاہد خان شیدا نے اپنے مقالے میں املا اور پروف ریڈینگ میں کچھ غلطیوں کی طرف اشارہ کیا۔انہوں نے کتاب کے املا کی غلطیاں دور کرنے اور پروف ریڈینگ کے حوالے سے غلطیوں کیلئے کتاب کے ایک نام پر شدید تنقید کی کہ انہوں نے کتاب کو دیکھا ہی نہیں ،ورنہ انہوں نے ان غلطیوں کو دور کرنے کی کوشش کیوں نہ کی؟
حالانکہ رپورتاژ کے اکثر حصوں میں اس شخصیت کا زیادہ ذکر آتا ہے۔
میں نے اپنی تقریر میں ان صاحب پر لگائے گئےالزام کو اپنے سر لیا اور کہا کہ کچھ صفحوں کی املا بلا شبہ انہوں نے درست کی تھی لیکن پروف ریڈینگ انہوں نے نہیں کی اور نہ پوری کتاب کو انہوں نے پڑھا تھا۔
انکا نام میں نے از روئے اخلاص لکھا تھا کہ وہی شخصیت ہی تھی جس نے میرے ساتھ کتاب چھاپنے میں مدد کی تھی ۔ کسی اور شخص کو میں نے کتاب کے مسودے کو پرھنے نہیں دیا تھا۔

اب ان پر الزام کے بعد اور خود انکی طرف سے بے ضرر احتجاج کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ انکا نام لکھنا ادبی حلقوں میں ان کی ساکھ کے لئے کتنا غلط تھا۔


ڈاکٹر احمد علی عاجز، نے کتاب پر فی البدیہہ تقریر کی ۔ان کی تقریر کے مذاحیہ جملوں پر حاضرین محفل بار بار ہنس پڑے۔
مہمان اعزاز نے بھی سفرنامے اور رپورتاژ کے درمیان بنیادی فرق کو واضح کیا ۔اور اس کتاب کو اچھی کوشش قرار دیا۔

ڈاکٹر صاحب نے صاحب کتاب کے ادبی خدمات پر سیر حاصل گفتگو اور ان کے کام کو سرھتے ھوئے بڑھ چڑھ کر تعریف کی۔

مجموعی طور پر کتاب کو بہترین رپورتاژوں پر مبنی کتاب قرار دیا گیا اور اسے پشتو نثری ادب میں اضافہ گروانا گیا۔

محفل سے وزیر بادشاہ جانان،نسیم خان نسیم،قیس افریدی،دلاور خان وقار اور راقم الحروف نے بھی مختصر خطاب کیا۔
صدر محفل نے کتاب مذکورہ کو خیبر ایجنسی سے شائع شدہ کتابوں میں پہلی رپورتاژ پر مبنی کتاب قرار پایا۔انہوں نے کتاب کے اندر املا کی غلطیوں کو ماننے سے انکار کیا گو اس نے یہ اضافہ کیا کہ جو حصے میں نے پڑھے کم از کم ان حصوں میں مجھے کوئی غلطی نظر نہ ائی۔
ہوسکتا ہے کہ ان حصوں میں غلطیاں ہونگی جو ابھی تک میری نظر سے نہیں گزریں۔

انھوں نے کہا کہ ہمارے علاقے خیبر ایجنسی میں یہ کتاب رپورتاژ کے حوالے سے شایع ہونے والی پہلی کتاب کا اعزاز حاصل کر چکا ہے۔
صدر محفل نے اس کتاب کو مکمل رپورتاژ کے اصولوں پر اتری ہوئی کتاب گردانا اور صاحب کتاب کو مبارکباد پیش کی۔


تقریب کی دوسری نشت میں ایک ازاد مشاعرہ کا انعقاد بھی ہو ا جن میں مندرجہ ذیل شعرا کرام نے اپنا اپنا کلام سنایا۔
انکے اسمائی گرامی درج دیل ہیں۔
انجنئیر راجھان ہلال ،فضل عظیم عظیم،ظفر خان ظفر،ڈاکٹر احمد علی عاجز،اختر حسین ننگیال محمد زاھد خان شیدا۔جلال خلیل،امداد خلیل،منور شاہ اسیر،فدا مجبور،ذاکر شاہی وال،حاجی فرمان اللہ،امان اللہ خلیل،سراج الفت ،جبکہ اس محفل میں علاقے کے معززین نے بھی شرکت کی جن میں حاجی شیر اکبر، سفیر اللہ ناشاد،عزیزالرحمن بل،سمندر یوسفزئ،مجنون، وغیرہ کے نام قابل ذکر
http://i181.photobucket.com/albums/x182/ferozkhan_photos/watan1.jpg
 
Top