دیکھتے ہیں عوام کب تک اپنے خلاف جاری معاشی استحصال پر صبر کرتی ہے؟

زیرک

محفلین
دیکھتے ہیں عوام کب تک اپنے خلاف جاری معاشی استحصال پر صبر کرتی ہے؟
موجودہ اور ماضی کے تمام محکمۂ زراعت کی پیداوار کانٹے دار جھاڑ جھنکار نما حکمرانوں، لیڈروں اور خود اصل وردی والی سرکار کی فاش غلطیوں کا نتیجہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ ملک میں جاری، اخلاقی معاشی اور اداراتی گراوٹ کے ذمہ دار کون ہیں؟ یہ اب کوئی معمہ نہیں رہا، ملک کو اس دلدل میں دھکیلنے میں اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر، پولیس وغیرہ سب برابر کے شریک ہیں۔ 72 سالوں میں آدھا عرصہ تو وردی پوش حکمران رہے، رہا سہا باقی عرصہ ان کے محکمۂ زراعت کے کاشت کردہ تھوہر نما لیڈر ہی ہمارے سر پر سوار رہے۔ ان سب گندی سرکاروں نے ملک کے ساتھ جو کھلواڑ کیا ہے اس کی وجہ سے ملک عملاً بنک کرپٹ ہو چکا ہے، معیشت کو ڈنگ ٹپاؤ طریقوں سے مصنوعی سانس پر زندہ رکھا جا رہا ہے۔ ہمارا یہ حال ہو گیا ہے کہ ہمیں قرض بھی ایسی سخت شرائط پر مل رہا ہے کہ جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں مل رہی۔ موجودہ اندھے وژن کے حکمران نے پہلے تو قرض نہ لینے کے دعوے کیے، پھر مجبور ہو کر قرض لیا تو آنکھیں بند کر کے آئی ایم ایف کی کرنسی کی ٪33 ویلیو کم کرنے کی ہوشربا شرط بھی مان لی گئی، یہی نہیں بلکہ ملک کے تمام مالیاتی اداروں کی باگ ڈور بھی انہیں کے ہاتھ تھما دی، اب ان قصائیوں کے ہاتھ میں چھری ٹوکا سب کچھ ہے اور وہ شرح سود اور مہنگائی بڑھا کر دے دھنا دھن غریب کا پیٹ کاٹتے جا رہے ہیں۔ بیرون ملک ایسے اداروں سے مہنگی شرح سود پر قرضے لیے گئے ہیں جب کے ڈانڈے حکمرانوں کے دوستوں یا ان کے بزنس سے منسلک کہانیاں زبانِ زدِ عام ہیں جو سچ نہ بھی ہوں تو ٪13.25 سے زائد شرحِ سود ہی ملک کا بھٹہ بٹھانے کے لیے کافی ہے، یاد رہے کہ یہ شرح سود صرف بیرونی قرض کے لیے ہے ملکی بنکوں میں جمع رقوم پر اس سے کم شرحِ سود دی جا رہی ہے۔ یہ کس کو نوازنے کی پالیسی ہے؟ اس کا جواب حکومت آپ کو نہیں دے گی۔ ایف بی آر کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے سوائے تنخواہ دار طبقے اور پہلے سے ٹیکس نیٹ کے لوگوں کے وہ مزید مالدار طبقے کو ٹیکس نیٹ پر لانے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوئے، جو لوگ نیٹ پر آئے بھی ہیں وہ رضاکارانہ طور پر آئے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ریونیو کا شارٹ فال آ رہا ہے اور سالانہ شرحِ نمو کا حدف دن بدن کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے، ریونیو شارٹ فال کو کم کرنے کے لیے مئی جون سے پہلے حکومت کو ایک بار پھر آئی ایم ایف کے پاس جانا ہو گا، جس کا مطلب یہ ہوا کہ مزید قرضہ، قرض کے سود کی قسطوں میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی سے بیٹھے بٹھائے پچھلے اگلے تما قرضوں میں اضافہ اور ان کی سود کی اقساط میں اضافہ قوم کا منتظر ہے۔ ہمارے معاشی فنکاروں کے پاس ایک ہی حل ہے کہ بس مہنگائی کرو، یوٹیلیٹی بلز ریٹس میں اضافہ کرو اور سب سے بڑا ظلم یہ کہ مقدس گائے نما مخلوق کے بل بھی ایڈجسٹمنٹ کے نام پر عوام سے ہتھیاؤ کیونکہ ان سے یہ مراعات واپس لیتے ہوئے حکومت کے پر جلتے ہیں۔ جب غریب عوام بجلی و گیس بلز پر ایڈجسٹمنٹ نامی ظالمانہ ٹیکس ادا کر تی ہے تو وہیں یہ مقدس مخلوق وہی بجلی اور گیس مفت استعمال کر کے اخلاقی و ملکی قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔غیر جانبدار ہو کر دیکھیں گے تو آپ کو ذہن اسے صریحاً نااہلی کہےگا جس کے ذمہ داروں میں اوپر دئیے گئے تمام مقتدر حلقے شامل ہیں۔ قصہ مختصر ایسے معاشی پلان جس میں سرے سے کوئی پلان ہی نہیں ہوتا، کوئی وژن نہیں ہوتا کا نشانہ صرف اور صرف عوام بنتی ہے، اور یہ معاشی بھیڑیے عوام کو اس وقت تک چچوڑتے رہیں گے جب تک کہ وہ مر نہیں جاتی یا بغاوت پر نہیں اتر آتی؟ اب دیکھتے ہیں عوام کب تک اپنے خلاف جاری معاشی استحصال/بلاتکار پر صبر کرتی ہے؟
 
Top