دیوار پہ دستک ۔ 2025 کے کچھ مناظر ۔منصور آفاق ۔ روزنامہ جنگ

منصور آفاق

محفلین
دیوار پہ دستک
2025 کے کچھ مناظر
منصور آفاق
جنوری ۔2025۔سپریم کورٹ میں ایک اہم فیصلہ سنایا جا رہا ہے۔بے شمارٹی وی کیمروں نے چیف جسٹس کا کلوز ا پ بنارکھا ہے ۔چیف جسٹس آف پاکستان اپنا مختصر فیصلہ پڑھنا شروع کرتے ہیں۔سٹل کیمروں کی بیم لائٹس کی تیز چمک آنکھوں کو چندھیانے لگتی ہیں۔
’’جنرل ضیا ئ الحق کو 1977میں مارشل ئ لگانے پر سزائے موت سنائی جاتی ہے اورسپریم کورٹ کے ان تمام جج صاحبان کو عمر قید کی سزا دی جاتی ہے جنہوں نے نظریہ ئ ضرورت کے تحت اسے قانونی تحفظ فراہم کیا تھا ۔کیونکہ پاکستان آئین میں نظریہ ئ ضرورت نام کی کوئی شق نہ کبھی پہلے موجود تھی اور نہ اب ہے ۔چونکہ تمام مجرمان مرچکے ہیں اس لئے سزائوں پر عمل در آمد نہیں ہوگااور یہی سزائیں 1999میں مارشل لائ لگانے والے جنرل پرویز مشرف اور ان ججوںکو بھی سنائی جارہی ہیں جنہوں نے اس کی حکومت قانونی جواز فراہم کیا ان میں سے جو لوگ زندہ ہیں ان کو سنائی جانے والی سزائوں پر عمل درآمد ہوگا۔‘‘
مارچ ۔2025۔سپریم کورٹ میں ایک اور مقدمہ کا فیصلہ سنایا جارہا ہے ۔اس مرتبہ پہلے سے کہیں زیادہ لوگ موجود ہیں ۔چیف جسٹس فیصلہ دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں
’’1977کے بعد سیاستدان ، سول بیورکرٹیس اور ملٹری بیورکریٹس کے خاندان جن کے پاس پانچ کروڑ روپے سے زیادہ سرمایہ ہے ان کی دولت کا نوے فیصدحصہ عدالت حکومت ِ پاکستان کی ملکیت قرار دیتی ہے ۔یہ بات اس مقدمہ میں طے پا گئی ہے کہ یہ تمام عہدہ دار یا ان کی اولادیں اپنے یا اپنے والدین کے حکومتی اثر و رسوخ کے بغیر اتنی دولت نہیں کما سکتے تھے ۔اِن میں سے جن لوگوں نے اپنی دولت ملک سے باہربنکوں میں رکھی ہوئی ہے انہیں دس دس سال قید با مشقت کی سزا سنائی جا رہی ہے اور حکومتِ پاکستان کو حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ ان ممالک سے وہ سرمایہ واپس وطن میں لانے کا بندوبست کرے۔
مئی۔2025۔وزیر اعظم سکریریٹ کے اندرپرائم منسٹر آف پاکستان کے آفس میں ان سے کچھ پولیس آفسران انٹرویو کر رہے ہیں ۔
’’سر آپ نے تین ایسی شخصیات کو سینیٹر بنایا ہے جنہوں نے آپ کی پارٹی کو کئی کروڑ روپے فنڈ فراہم کئے ہیں، قانونی طور پر یہ بات جرم ہے اورہمارے پاس اس بات کے تمام ثبوت موجود ہیں ﴿فائل وزیر اعظم سامنے رکھتے ہوئے ﴾یہ آپ دیکھ سکتے ہیں ‘‘وزیر اعظم کہتے ہیں ۔میں اپنے پارٹی کے لوگوں سے مشورے کے بعد آپ کے سوال جواب دوں گا۔﴿پولیس آفیسر بولتا ہے ﴾ سر اس سلسلے میں کل تک آپ کو اپنا بیان دینا ہوگا ‘‘
منظر بدلتا ہے ۔جیو ٹی وی پر خبر نشر ہورہی ہے
وزیر اعظم پاکستان نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ۔ استعفیٰ دینے سے پہلے انہوں نے اپنی پارٹی کی طرف بنائے تین سینیٹر کی سینیٹر شپ ختم کردی ہے اور قوم سے اس بات کی معافی مانگی ہے کہ ان تین سینیٹرنے پارٹی کوکئی کروڑ روپے فنڈ دیا تھا جو ان کے علم نہیں تھا مگرچونکہ وزیر اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ وہ پارٹی لیڈر بھی ہیں اس لئے اس یہ ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے کہ انہیں اس بات کا علم ہونا چاہئے تھا۔ انہوں نے وزیراعظم شپ کے ساتھ پارٹی کی لیڈر شپ سے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔نئے وزیر اعظم کا انتخاب کل ہوگا
اگست ۔2025۔صدر پاکستان اور ان کی اہلیہ اسلام آباد کے تھانہ سیکریٹریٹ میں جاتے ہیں جہاں ان کے بیٹے کو پولیس بغیر لائنس کے گاڑی چلانے کے جرم میں گرفتار کر کے لے گئی ہیں ۔صدر پاکستان تھانے کے ایس ایچ او سے کہتے ہیں
’’ہم میاں بیوی شرمندہ ہوں کہ اپنے بیٹے کی صحیح تربیت نہیں کر پارہے ہم پوری کوشش کریں گے کہ آئندہ وہ کوئی ایسی حرکت نہ کرے۔ ‘‘ ﴿ایس ایچ اوکہتا ہے ﴾ ’’سر آپ تحریری طور پر اپنا بیان لکھ دیں اس کے بعد آپ اپنے بیٹے کو ساتھ لے جا سکتے ہیں ‘‘اور صدرپاکستان تھانے میں ایس ایچ او کے سامنے کرسی پر بیٹھ کر اپنے بیان لکھنے لگتے ہیں
اکتوبر۔2025۔روز نامہ جنگ میں شائع شدہ ایک کالمی خبر
’’پاکستان کے وزیر داخلہ کی ڈرائیونگ لائنس کی بحالی کی اپیل ۔ وزیر داخلہ نے کورٹ میں اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اسے دفتر آنے جانے میں بہت تکلیف کا سامنا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی ڈیوٹی درست انداز میں سرانجام نہیں دے پارہے ۔ براہ ِ مہربانی ان کا درائیونگ لائنس بحالی کیا جائے ۔یاد رہے کہ وزیر داخلہ ڈرائیونگ لائنس آج سے تین مہینے پہلے تیز ڈرائیونگ کے جرم میں ایک سال کیلئے منسوخ کردیا گیا تھا۔‘‘
دسمبر۔2025۔روزنامہ جنگ کی ہیڈلائن
65سال کے تمام افراد کیلئے پینشن کا اعلان
خبر کی تفصیل ’’حکومت پاکستان نے پاکستان کے تمام65 سال سے زائد عمر کے افراد کیلئے پینشن کا اعلان کردیا ہے۔ چاہے وہ کام کرتے تھے یا نہیں کرتے تھے۔ یہ پینشن ماہانہ تیس ہزار روپے ہوگی ۔ حکومت سمجھتی ہے کہ اس ملک کا ہر بزرگ شہری تیس ہزار روپے میں مہینہ گزار سکتا ہے ۔اس کے علاوہ ان افراد پر بسوں اور ٹرینوں کا کرایہ ختم کردیا گیا ہے اور اس عمر کے جو ڈرائیو ہیں وہ کہیں بھی گاڑی پارک کرسکیں گے مگر اس کیلئے انہیں حکومت طرف دیا گیا کارڈ گاڑی کے ڈیش بورڈ پر آویزاں کرنا ضروری ہوگا لیکن حکومت بزرگ افراد سے توقع رکھتی ہے کہ وہ کسی ایسی جگہ گاڑی پارک نہیں کریں گے جس کی وجہ ٹریفک کے نظام میں کوئی خرابی پیدا ہو۔‘‘
ممکن ہے آپ ان مناظر کا تصور نہ کر سکتے ہوں لیکن میںبہت پُرامید ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ اگراس عرصہ میں کسی طالع آزما نے حکومت پر قبصہ نہ کیا اور اسی طرح جمہوریت چلتی رہی تو یہ خواب حقیقت میں بدل جائیں گے۔اب کوئی بھی اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کرے گا۔آرمی چیفس اپنی حدود میں رہتے ہوئے صرف یہی سوچی گے کہ وہ سیکریٹری دفاع کے ماتحت حکومت پاکستان کے بڑے آفسر ہیں۔ چیف جسٹس بھی اس بات کو ذہن میں رکھیں گے کہ وہ آئین سے ماوراً نہیں ۔وہ اس قانون میں کوئی ترمیم نہیں کر سکتے جو دوتہائی اکثریت کے ساتھ قومی اسمبلی سے پاس ہو جائے چاہے انسان کے بنیادی حقوق کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔مگر اس سلسلے میں وزیر اعظم پاکستان کا یہ بیان بہت افسوس ناک ہے کہ اداروں میں تصادم سے تباہی آئے گی کیونکہ یہ شخصیات کا تصادم تو ہوسکتاہے اداروں کا نہیں ۔یہ بات کہہ انہوں نے اداروں کے تقدس کو مجروح کیا ہے ۔اداروں کو آئین ِ پاکستان سے ماوراً قرار دیتے ہوئے اداروں کے سرابراہوں کی حیثیت کو متنازعہ بنایاہے ۔مجھے یہ بیان پاکستان کے وزیر اعظم کا نہیں گجرخان کے کسی بے اختیار کونسلر کا لگ رہا ہے ۔انہیں شاید ابھی تک یقین نہیں آرہا کہ وہ ملک کے وزیر اعظم ہے ایک وزیر اعظم کا تو کام ہی قانون پر عمل در آمد کرانا ہوتاہے اگر کچھ جنرلوں کو سپریم کورٹ نے مجرم قرار دیا ہے تو انہیں گرفتار کیا جائے سزا دی جائے ۔ اگرپیپلز پارٹی کی حکومت اپنے منتخب وزیراعظم کوسپریم کورٹ کے حکم پر گھربھیجا جا سکتی ہے ،صدر پاکستان اور پارٹی کے سربراہ کے خلاف سوئس عدالت کو خط لکھ سکتی ہے تو ریٹائرڈجنرلوں کا کیا مسئلہ ہے ۔انہیں دو تین سال قید کی سزا کیوں نہیں دی جا سکتی۔وہ آدم علیہ اسلام کی طرح آسمان سے نہیں اترے، اسی طرح پیدا ہوئے ہیں جیسے سب انسان پیدا ہوتے ہیں ۔
روزنامہ جنگ لندن ۔ اتوار۔ گیارہ نومبر دوہزار بارہ
 
جنوری -2026
عدالت میں جیو ٹی وی اور روزنامہ جنگ کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے نجی چینلز اور اخبارات کے مالکان کے خلاف دائر کی گئی مختلف پیٹیشنز کی سماعت شروع کر دی گئی ۔:)
 
Top