دین سے محبت ، قانون اور ہمارے رویے

۔

اپنے دین سے محبت کا تقاضہ اور اسکا اظہار اپنی جگہ مگر انداز اور رویے سے قانون ، دوسرے انسانوں کے حقوق کی پاسداری ، ریاست اور اداروں کی زمہ داریوں کی راہ میں حائل ہونے کا عمل کسی طرح سے بھی قابل جواز نہیں کہا جاسکتا۔

پاکستان میں ’’ توہیں رسالت کی سزا موت ‘‘ پر کوئی دوسری رائے نہیں ، پاکستان کاقانون بھی بہت واضح ہے اور سزا کا طریقہ کار بھی موجود ہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب دوسرے کے خدا ، پیغمبر یا عقائد کی توہین کی اجازت نہیں دیتا

کسی بھی جرم کی سزا اس ریاست کے قوانین اور طریقہ کار کے مطابق ہی دی جاتی ہے اور کسی بھی فرد یا گروہ کو قانون کو ہاتھ میں لینے کی قطعاً اجازت نہیں ہوتی۔ بلکہ حال ہی میں یورپ کی عدالت نے بھی کرار دیا ہے کہ توہین رسالت کو آزادی رائے کا اظہار نہیں کہا جاسکتا۔

اگر کسی کو اس کاروائی میں اعتراضات یا تحفظات ہوں تو اس کے ریلیف کا طریقہ کار بھی موجود ہے حتیٰ کہ فیصلہ کو بھی چیلنج کیا جاسکتا ہے اس پر اپنی رائے کا اظہار بھی کیا جاسکتا ہے۔

حالیہ آسیہ بی بی والے فیصلے پر بھی علماء یا قانونی ماہرین کا اظہار رائے ، اپیل یا عوامی سطح پر اپنا احتجاجی بیان دینا ان کا قانونی اور جمھوری حق ہے مگر ان کے الفاظ اور انداز بھی علمی ، اخلاقی ، جمھوری اور قانونی ہی ہونے چاہیں۔

ان احتجاجات کی آڑ میں غیر مہذب ، غیر آئینی یا غیر قانونی الفاظ اور انداز استعمال کرنے یا قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی نہ تو شریعہ اور اسلامی اقدار اجازت دیتے ہیں اور نہ ہی ملکی قانون۔

اس کیس میں تقریباً نو دس سال کے عرصہ کے دوران ہونے والی ، تفتیش سے لے کر ضلعی عدالت سے سزائے موت اور ہائیکورٹ سے اس کو قائم رکھنے کی قانونی کاروائی اور کئی اور واقعات جن میں گورنر سلمان تاثیر کا قتل اور ممتاز قادری کی سزائے موت اس فیصلے پر اٹھنے والے سوالوں اور عوامی رد عمل کو جواز مہیا کرنے کا موجب بنے ہیں۔

ہمارےمعاشرے ، عدل کے نظام اور انتظامی امور پر سوالات کا اٹھنا تو یقینی امر ہے کیونکہ اگر کیس اتنا ہی کمزور تھا تو کیوں اس کو سزا ہوئی ، اس کی زندگی کے نو سال کیوں سلاخوں کے پیچھے گزرے ؟ کیوں اس کے خاندان کو یہ سارا عذاب سہنا پڑا؟

اگر ہم اپنےمعاشرے کا پچھلے سالوں کی تاریخ کا گہرا مطالعہ کریں تو ، کرشن نگر ، اسلام آباد ، مشعال خان ، گورنر سلمان تاثیر کے علاوہ کئی اور ایسے واقعات ہیں جو اس بات کے گواہ ہیں کہ ہمارے معاشرے میں انتہاء پسندی ، جہالت اور اقلیتوں کے خلاف تعصبانہ اور غیر منصفانہ رویئے پائے جاتے ہیں۔

اسی طرح کچھ مذہبی اور سیاسی طبقوں میں بھی عدم برداشت ، انتہاء پسندی ، جنونیت اور سیاسی جماعتوں کی شمولیت اور ملکی اداروں کی پشت پناہی یا جانبدارانہ کردار کی مثالیں بھی موجود ہیں۔

تو اس پس پردہ صورتحال کے پیش نظر موجودہ ماحول کوئی عجب بات نہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ، فرض کریں ، اگر عدالت عظمیٰ نے فیصلہ غلط بھی کیا ہے تو اس کے ذمہ داران وہ خود ہی ہیں اور قیامت کے دن اس کی جوابدہی بھی انہیں سے ہوگی نہ کہ میرے یا آپ سے اور قومی اور عوامی املاک یا جانوں کے نقصان کے ذمہ دار بھی وہی ہوں گے جو اس ساری صورتحال کا موجب بنے یا مرتکب ٹھہرے۔ یہ کہاں کی عقلمندی یا شرعی بات ہے کہ دوسرے کے گناہوں کے خلاف احتجاج کے دوران خود شرعی اور قانونی احکامات کو نظرانداز کرتے ہوئے خود گناہ اور جرم کو سرزد کرتے رہیں۔

یہ ہم پاکستان اور اسلام کا دنیا کو کیا تاثر دے رہے ہیں؟

ملزم کا وکیل اپنے آپ کو غیر محفوظ کہہ کر ملک سے باہر چلا گیا ہے۔

ججوں اور اداروں کے سربراہوں پر کفر اور واجب القتل ہونے کے فتوے لگائے گئے ، شر پسند سوچ کے خلاف بات کرتے ہوئے جان جانے کا ڈر لگتا ہے۔

کیا ہے یہ سب کچھ ، حکومت ، قانون ،آئین اور اداروں کی کوئی عزت و تکریم ہی نہیں۔

خدا کے لئے کچھ تو خیال کرو
 
ججوں کے غلط فیصلے پر احتجاج کا طریقہ کار یقینا غلط تھا اور کوئی اصول اسے درست قرار نہیں دے سکتا البتہ سوال یہ بھی ہے کہ قوم کو ہم نے اس کے علاوہ کونسا دوسرا ایسا طریقہ ہے جو سکھایا ہو۔ ہمارے ارباب اختیار بھی تب ہی حرکت کرتے ہیں جب کوئی غریب اپنی ہی ریڑھی کو آگ لگاتا ہے اور خبر بنتی ہے دوسری صورت میں پر امن احتجاج کرنے والوں کو تو میڈیا کوریج تک نہیں ملتی مسئلہ کا حل نکلنا ایک طرف۔ اور دور مت جائیے آپ کی اعلی ترین عدالت کے چیف جسٹس تک جب کسی انتظامی فیصلے سے ناخوش تھے تو کون سا بینر لے کر پریس کلب کے باہر کھڑے ہوئے تھے انہوں نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا تھا۔ اسی طرح ہماری ستر سال کی حالیہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حکومتی سطح پر بے حسی کا یہ عالم ہے کہ کسی بھی معاملے پر تب تک حکومتی مشینری حرکت میں نہیں آتی جب تک یا حکومت خود نہ چاہے یا پھر توڑ پھوڑ نہ ہو ۔ یہ بدقسمتی ہے کہ پرامن راستے کے انتخاب پر نہ ماڈل ٹاؤن والوں کو انصاف مل سکا اور نہ ہی ہزاروں مسنگ پرسنز کے لواحقین میں سے کوئی مطمئن ہو پایا۔ سبب اور کوئی نہیں بلکہ عوام کو یہ احساس مسلسل دلایا جانا ہے کہ آپ ہو کیڑے مکوڑے آپ کی بات نہ ہم سنیں گے نہ آپ کی کسی کو کوئی پروا ہے۔ نتیجہ فرسٹریشن اور نکلے گی کب یا مظاہروں میں یا خوشی کے موقعے پر یا پھر دم لگا کر ۔ جو راستہ دیا جائے گا وہی استعمال ہوگا ۔
 
Top