ص 105-109
"آپ انہیں دیکھئے۔" عمران نے فراگ سے کہا۔"میں اندر جا کر دیکھتا ہوں کوئی اور بھی تو موجود نہیں ہے۔"
"تت۔۔۔۔تم تو کمال کے آدمی نکلے۔۔۔۔جاؤ دیکھو۔"
اندر کوئی بھی نہیں تھا۔ عمارت میں صرف یہی دو آدمی تھے، عمران پھر اسی کمرے میں واپس آ گیا۔
"غالباً ہمیں بیہوش کر کے یہ کہیں لے جانا چاہتے تھے، اسپینی میں اس نے اسے ہدایت دی تھی کہ کافی میں خواب آور دوا ملائی جائے۔" عمران نے بیہوش آدمیوں کو پُرتشویش نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"پرواہ مت کرو۔۔۔۔اب یہ ہمارے ساتھ جائیں گے۔" فراگ نے اس کا شانہ تھپک کر کہا۔
وہ انہیں اٹھا کر گاڑی تک لائے تھے اور پچھلی نشست پر بٹھا کر ان کے ہاتھ پیر باندی دیئے تھے۔
واپسی کے سفر کے دوران فراگ خاموش ہی رہا۔۔۔۔لیکن واپسی اس عمارت میں نہیں ہوئی تھی جہاں فراگ مقیم تھا۔۔۔۔بلکہ یہ عمارت وہی عمارت تھی جہاں ظفر، جیمسن اور لوئیسا کو لے جایا گیا تھا۔
"میرے ساتھ آؤ۔" فراگ گاڑی سے اترتا ہوا بولا۔ "میرے آدمی انہیں سنبھال لیں گے۔"
عمران اس کے پیچھے چل پڑا۔ وہ ایک کمرے میں آئے جہاں ان دونوں کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔
فراگ نے فون کا ریسیور اٹھا کر ایک نمبر ڈائیل کیا اور پھر کسی کو ان بیہوش آدمیوں سے متعلق ہدایات دینے لگا۔
عمران اس کے پیچھے مؤدب کھڑا ہوا تھا۔ دفعتاً فراگ ریسیور رکھ کر اس کی طرف مڑا۔
"بیٹھ جاؤ۔" اس نے نرم لہجے میں کہا اور عمران اس کا شکریہ ادا کر کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ فراگ خاموشی سے اسے گھورے جا رہا تھا، عمران کے چہرے پر اس وقت بلا کی حماقت طاری تھی۔۔۔۔!
"تم میری توقعات سے بڑھ کر نکلے۔۔۔۔بلا کی قوتِ فیصلہ رکھتے ہو۔ کوئی دوسرا ہوتا تو مجھے موقع کی نزاکت سے آگاہ کرتا اور اس کے بعد میرے مشورے کا انتطار کرتا۔"
"کک کیا مجھ سے حماقت سر زد ہوئی ہے جنابِ عالی۔۔۔۔!" عمران خوفزدہ انداز میں ہکلایا۔
"ہر گز نہیں! تم نے وہی کیا ہے جو ایسے حالات میں خود میں بھی کرتا۔"
"شکریہ جناب۔"
"پھر دوسری خصوصیت یہ ظاہر ہوتی ہے کہ تم نے ابھی مجھ سے اس معاملے کے متعلق کچھ بھی نہیں پوچھا۔"
"میں صرف اپنے کام سے کام رکھتا ہوں جناب، آپ نے مجھ سے جس کے بارے میں کہا تھا میں نے صرف اسی پر نظر رکھی تھی۔"
"انمول چیز ہو، اگر میرے ساتھ رہنا منظور کرو تو تمہیں تاہیتی کا شہزادہ بنا دوں گا۔۔۔۔!"
"مجھے تو منظور ہے جناب! لیکن میں پرنسز ٹالابوآ کا زرخرید بھی ہوں۔۔۔۔"
"جتنے میں اس نے تمہیں خریدا تھا اس کی دس گنا رقم میں اسے ادا کر سکتا ہوں۔۔۔۔!"
"بس تو پھر آپ ہی طے کر لیجئے! مجھے تو تاہیتی پسند آیا ہے! بنکاٹا میں بڑی گھٹن تھی۔۔۔۔!"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے دس بجے ظفر اور جیمسن جوزف کی خوابگاہ میں رمی کھیل رہے تھے خود جوزف کو تاش کے کھیلوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی لہٰذا وہ دور بیٹھا ایک ایک گھونٹ کر کے بوتل ہی سے پی رہا تھا۔
ٹالابوآ کی وجہ سے وہ دوسروں کے سامنے گلاس یا جام استعمال کر لیتا تھا۔ اس جیسے بلانوش کے لیے تو بیرل ہی سے منہ لگا دینا بھی پوری آسودگی کا باعث نہ بن سکتا۔
"تم لوگ زندگی میں یکسانیت کا رونا رویا کرتے تھے۔" دفعتاً جوزف بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
"ہاں! یورہائی نس۔۔۔۔!" جیمسن نے پتوں پر سے نظر ہٹائے بغیر کہا۔
"اب بتاؤ! کیسی رہی۔۔۔۔؟"
"ٹھیک ہی رہی سوائے اس کے کہ چاروں طرف آپ ہی کی شکل کی عورتیں دکھائی دیتی ہیں۔۔۔۔!"
جوزف کچھ کہنے ہی والا تھا کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔
"آجاؤ۔" جوزف غرایا۔ وہ جانتا تھا کہ ٹالابوآ کے علاوہ اور کوئی دروازہ بجانے کی جرات نہیں کر سکتا۔
اندازہ غلط نہیں تھا۔ دوسرے ہی لمحے ٹالابوآ اندر داخل ہوئی اور دروازے کے قریب ہی رک کر جیمسن اور ظفر کو گھورنے لگی جو تاش کے پتے ہاتھوں سے رکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
"تم دونوں اس وقت یہاں کیا کر رہے ہو۔۔۔۔؟" وہ بالآخر ناخوشگوار لہجے میں بولی۔
"ہز ہائی نس کا اصرار ہے کہ اسی کمرے میں رات بسر کریں۔"
"کیا یہ مناسب ہو گا۔۔۔۔؟" ٹالابوآ جوزف سے مخاطب ہوئی۔
"اس سے زیادہ مناسب اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔" جوزف نے لاپرواہی سے کہا۔ "دیکھو مجھے بہت زیادہ پریشان مت کرو میری یادداشت واپس آ گئی ہے اور مجھے سب کچھ جانا پہچانا لگ رہا ہے۔!"
"اوہ۔۔۔۔نہیں۔!" ٹالابوآ خوش ہو کر بولی۔
"یقین کرو۔ اگر تم لوگ مجھے زیادہ پریشان کرو گے تو میں اپنے ماموں کے پاس چلا جاؤں گا۔"
"نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔!"
"میں نے تہیہ کر لیا ہے۔ اگر مجھے باپ سے معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا تو میں موکارہ چلا جاؤں گا۔"
"تم بالکل نہیں بدلے ہربنڈا۔۔۔!"
"بس جاؤ۔ اگر بنکاٹا کا تاج و تخت سلامت رکھنا چاہتی ہو تو مجھ سے مت الجھو۔"
ٹالابوآ نے بے بسی سے ظفر اور جیمسن کی طرف دیکھا۔
"ہم بھی سمجھاتے ہیں یورہائی نس!" ظفر جلدی سے بولا۔
"دیکھو ہربنڈا ڈیئر!" وہ بے حد نرم لہجے میں بولی۔ "میرا خیال ہے کہ تم تکالیف سے بھرپور اتنا طویل عرصہ گزارنے کے باوجود بھی نہیں بدلے۔"
"اب تو میں اور بھی زیادہ سخت ہو گیا ہوں۔۔۔۔!"
"ایسی صورت میں تمہارا ماموں بھی تمہیں برداشت نہ کر سکے گا۔۔۔۔!"
"میں اسے بھی دیکھ لوں گا۔"
"تو پھر ہم نے اتنی مصیبت خومخواہ جھیلی ہے۔" ٹالابوآ نے پرتفکر لہجے میں کہا۔ پھر چونک کر بولی۔"ہاں! وہ کہاں گیا جسے تم اپنا باس کہتے ہو۔۔۔۔؟"
"میں نہیں جانتا! مرضی کے مالک ہیں جہاں جی چاہے گا جائیں گے۔۔۔۔!"
"یہ نہیں ہو سکتا۔ اسے ہمیں اپنی نقل و حرکت سے آگاہ رکھنا پڑے گا۔"
"اگر اب کبھی تمہارے ہاتھ لگ سکے تو ضرور آگاہ رکھیں گے۔" جوزف خشک لہجے میں بولا۔
"اسی میں اس کی عافیت ہے اور تم دونوں بھی سن لو۔" ٹالابوآ نے ظفر اور جیمسن کی طرف دیکھ کر کہا۔ "میرے علم میں لائے بغیر تم بھی محلات کی حدود سے باہر قدم نہیں رکھو گے۔ یہ جزائر اجنبیوں کے لیے بسااوقات جہنم بن جاتے ہیں۔"
"ایسا ہی ہو گا۔۔۔۔یورہائی نس۔۔۔۔ہم آپ کی اجازت حاصل کئے بغیر کچھ نہ کریں گے۔"
"اچھا اب تم جا کر آرام کرو۔" جوزف ٹالابوآ کو مخاطب کر کے ہاتھ ہلاتا ہوا بولا۔ "تمہیں بھی آرام کی ضرورت ہے، بہت تھک گئی ہو۔"
"میں جا رہی ہوں۔" ٹالابوآ نے ناخوشگوار لہجے میں کہا اور پھر ظفر سے بولی۔" تم میرے ساتھ آؤ۔۔۔۔!"
ظفر احتراماً جھکا اور اس کے پیچھے چلنے لگا۔ خوابگاہ سے باہر نکل کر وہ اس کی طرف مڑی، ظفر رک گیا۔
"اب میں تمہیں اپنے اعتماد میں لینا چاہتی ہوں۔"
"عزت افزائی کا شکریہ! یورہائی نس۔۔۔۔!"
"آؤ۔۔۔۔" کہتی ہوئی وہ پھر آگے بڑھ گئی۔
کچھ دیر بعد وہ محل کے ایک دورافتادہ کمرے میں بیٹھے گفتگو کر رہے تھے۔
"تم لوگوں کے ساتھ پرنس کا رویہ کیسا ہے۔۔۔۔؟" ٹالابوآ نے ظفر سے پوچھا۔
"بہت اچھا ہے یورہائی نس۔۔۔۔!"
"میں یہاں کی بات نہیں کر رہی، اپنے ملک کی بات کرو۔"
"وہاں بھی مناسب ہی تھا۔۔۔۔!"
"کیا وہ تم لوگوں کے ساتھ شرارتیں نہیں کرتا تھا۔۔۔۔؟"
"ہر گز نہیں! پرنس بیحد سنجیدہ تھے! بےضرورت زبان تک نہیں ہلاتے تھے۔"
"ہوں! تو اب سنو! بھینس کے دودھ والی بات میں صداقت نہیں تھی۔"
"میں نہیں سمجھا یورہائی نس۔۔۔۔!"
"شاہ بنکاٹا کسی اور وجہ سے ناراض ہوئے تھے اور وہ بگڑ کر روپوش ہو گیا تھا۔۔۔۔"
"کیا وجہ تھی۔۔۔۔؟"
"میں تمہیں اس لیے بتا رہی ہوں کہ تم اس پر نظر رکھو اور اسے بہکنے نہ دو، میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ تم دونوں سے نہیں الجھتا۔"
"ہاں! وہ کسی حد تک ہماری بات مان لیتے ہیں۔۔۔۔!"
"تم یہ تو جانتے ہی ہو گے کہ شاہ بنکاٹا فرانس کے زیردست ہیں اور بشرطِ وفاداری یہ بادشاہت قائم رہے گی۔"
"مجھے علم ہے یورہائی نس۔۔۔۔!"
"یہ اس وقت کی بات ہے جب ہربنڈا روپوش ہوا تھا۔ یہاں سیاسی بیداری کی ابتداء ہوئی تھی۔ بنکاٹا کے عوام فرانس کے تسلط سے پیچھا چھڑانا چاہتے تھے۔ ظاہر ہے کہ شاہی خاندان کے لیے یہ چیز خطرناک تھی، یہاں آئے دن مظاہرے ہونے لگے۔ احتجاجی جلوسوں کی بھرمار ہو گئی۔ پھر کچھ لوگ لاقانونیت پر بھی اتر آئے۔ توڑپھوڑ مچاتے، پولیس گولیاں چلاتی، جیل جاتے اور کچھ دنوں کے لیے سکون ہو جاتا۔۔۔۔پھر اچانک ایک دن ایک بالکل نئے قسم کا احتجاجی مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ لوگ سارے کپڑے اتار کر بالکل ننگ دھڑنگ گھروں سے نکل آئے اور جلوس کی شکل میں شاہی محل کی طرف بڑھنے لگے۔ پولیس بوکھلا گئی۔ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ وہ بالکل خاموش تھے نہ انہوں نے توڑ پھوڑ مچائی اور نہ ہی کسی قسم کا ہنگامہ برپا کیا۔ہمارے تعزیری قوانین کے مطابق کسی پبلک مقام پر برہنہ ہو جانے کی سزا ایک ہفتے سے زیادہ نہیں۔ اس کے بعد ایک دن یہ دیکھنے میں آیا کہ لوگ شہر کی سب سے بارونق شاہراہوں پر بیٹھے رفع حاجت کر رہے ہیں۔ یہ بھی احتجاجی مظاہرہ ہی تھا۔ جس پر معمولی جرمانے کے علاوہ کوئی سزا نہیں دی جاتی۔" ٹالابوآ خاموش ہو کر دوسری طرف دیکھنے لگی اور ظفر بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ "واقعی حکومت بڑی دشواریوں میں پڑ گئی ہو گی۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھویں کا حصار
اختتام
ص 90-109