ص 157-159
اَم بینی نے دوبارہ ٹرانسمیٹر کا سوئچ آن کیا اور فراگ کو کال کر کے کوڈورڈز میں صورتِ حال سے آگاہ کرنے لگی۔۔۔۔عمران سر جھکائے کھڑا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس نے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہو۔
گفتگو ختم کر کے اَم بینی نے ٹرانسمیٹر بند کر دیا اور عمران کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتی ہوئی عرشے کی طرف چلی۔ "تم خواہ مخواہ ڈرے جا رہے ہو۔" وہ اس سے کہہ رہی تھی۔ "فراگ تم سے بہت خوش ہے! ابھی ابھی اس نے کہا ہے کہ تمہاری غلط فہمی دور کر دے گا۔"
"واقعی۔۔۔۔؟" عمران چہکا۔"تو تم میری غلط فہمی ہو۔"
"اچھا۔۔۔۔اچھا ستا لو۔۔۔۔ایک دن تمہیں بھی ٹھیک کر دوں گی۔"
وہ ریلنگ کے پاس آ کھڑے ہوئے۔ حدِ نظر تک چمکیلا سمندر پھیلا ہواتھا۔ سورج غروب ہونے میں ابھی دو ڈھائی گھنٹے کی دیر تھی۔ عمران نے گلے میں لٹکی ہوئی دوربین اٹھائی اور اطراف و جوانب میں نظر دوڑانے لگا۔
دفعتاً پشت سے جیمسن کی آواز آئی۔ "ہم بھی آ جائیں جناب!"
"یہاں کیا رکھا ہے۔" عمران نے مڑ کر جھلاہٹ کا مظاہرہ کیا۔
"پرنس تشویش میں مبتلا ہیں، ان کے پاس صرف آدھی بوتل رہ گئی ہے۔"
"اٹھا کر پھینک دو سمندر میں مردود کو۔" عمران نے اردو میں کہا۔
"وہ آپ کی شادی پر بیحد خوش ہیں۔"
"فاقے کرے گا۔۔۔۔ ہر وقت پائی پائی کا حساب لیتی رہتی ہے۔"
"ذرا دوربین مجھے دینا۔" دفعتاً اَم بینی بولی۔
"فکر نہ کرو۔۔۔۔میں پہلے ہی دیکھ چکا ہوں۔۔۔۔تین لانچیں ہیں۔۔۔۔!"
"اگر دشمن کی ہوئیں تو۔۔۔۔؟"
"تب بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔" عمران نے کہا اور جیمسن سے بولا۔ "تم کیبن میں جاؤ، جوزف پر نظر رکھنا۔"
وہ چلا گیا۔۔۔۔سامنے سے آنے والی لانچیں اب دوربین کے بغیر بھی دکھائی دینے لگیں تھیں۔ دوربین اَم بینی کے ہاتھ میں تھی اور وہ انہیں دیکھے جا رہی تھی۔ دفعتاً پرمسرت لہجے میں چیخی۔"اپنی ہی کشتیاں ہیں۔"
"کیسے معلوم ہوا۔۔۔۔؟"
"ایک پر جھنڈا بھی موجود ہے میں ریڈیو روم میں جا رہی ہوں۔"
"ارے۔۔۔۔ارے۔۔۔۔مجھے یہاں تنہا نہ چھوڑو۔۔۔۔!" عمران اس کے پیچھے دوڑتا ہوا بولا۔ لیکن وہ ریڈیو روم میں جانے کی بجائے کیپٹن کے کیبن کی طرف بڑھ گیا۔
کیپٹن اسے دیکھ کر اٹھ گیا۔
"بیٹھو۔۔۔۔بیٹھو۔۔۔۔" عمران ہاتھ ہلا کر بولا۔ اور جیبی ٹرانسمیٹر نکال کر اس کا سوئچ آن کیا۔ اَم بینی کی آواز سنائی دی۔ وہ آنے والی لانچوں سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ "یہلو کے سی۔۔۔۔ہیلو کے سی۔۔۔۔!"
کے سی شاید کنگ چانگ کا مخفف تھا۔ پھر اس نے وہی کوڈورڈز والی زبان سنی اور دوسری طرف سے ملنے والا جواب بھی سنا۔ ایک بھاری مردانہ آواز تھی۔
ٹرانسمیٹر جیب میں رکھ کر وہ آہستہ آہستہ کیپٹن کو کچھ ہدایت دینے لگا۔ ٹھیک اسی وقت اَم بینی کیبن میں داخل ہوئی۔ عمران نے اسے گھور کر دیکھا۔ شاید یہاں اس کی موجودگی پسند نہیں کرتا تھا۔ لیکن اَم بینی اسے نظر انداز کر کے بولی۔ "وہ کہہ رہے ہیں کہ متعلقہ افراد لانچوں میں منتقل ہو جائیں۔"
"اس سے کیا ہو گا۔۔۔۔؟" عمران مسمسی صورت بنا کر بولا۔
"موکارو کی کشتیاں اپنی حدود سے نکل کر اسٹیمرز کو گھیر رہی ہیں۔ ان میں ایسی کشتیاں بھی موجود ہیں جن پر توپیں نصب ہیں۔"
"تب تو میں بھی یہی مشورہ دوں گا جناب۔" کیپٹن نے عمران سے کہا۔ "پرنس گر اسٹیمر پر نہ ہوئے تو کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ لیکن آپ یہ نہ سمجھئے گا کہ اسٹیمر یہاں سے واپس بھی ہو سکتا ہے۔ ہم ان لانچوں پر نظر رکھیں گے۔"
عمران کی آنکھوں میں گہری تشویش کے آثار تھے۔۔۔۔ کچھ دیر بعد اس نے کہا۔"اچھی بات ہے۔۔۔۔کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہے۔"
کچھ دیر بعد وہ اسی لانچ میں تھے جس پر جھنڈا نصب تھا۔ لانچ کا عملہ جوزف کے لیے تعظیماً جھکا تھا۔
عمران نے ظفر ، جیمسن اور جوزف کو تاکید کر دی تھی کہ وہ اپنی زبانیں بند رکھیں، ہر معاملے کو وہ خود ہی دیکھے گا۔ اَم بینی لانچ کے عملے سے گھل مل کر باتیں کر رہی تھی۔ عمران نے محسوس کیا کہ وہ لوگ اَم بینی سے بھی احترام کے ساتھ پیش آ رہے ہیں۔ خود اسے کسی نے گھاس بھی نہیں ڈالی تھی۔ اَم بینی نے بھی شاید اسے محسوس کیا تھا، پہلی ہی فرصت میں اس کی تشفی خاطر کی کوشش کی تھی۔
"میں نے مصلحتاً انہیں تمہاری اہمیت سے آگاہ نہیں کیا۔۔۔۔؟"
"مم۔۔۔۔۔میری۔۔۔۔اہمیت۔۔۔۔؟" عمران نے معصومیت سے کہا۔
"ہاں۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔یہی کہ میں تمہیں کتنا چاہتی ہوں۔"
"اب تو میں خود ہی آگاہ کر دوں گا۔" عمران نے غصیلے لہجے میں کہا۔ اور وہ ہنستی ہوئی پھر وہاں سے چلی گئی۔
اب تینوں لانچوں پر جھنڈے نظر آ ریے تھے۔ لیکن یہ اس جھنڈے سے مختلف تھے جو ایک لانچ پر پہلے نظر آ رہا تھا۔
اَم بینی نے بعد میں بتایا کہ وہ موکارو کے جھنڈے تھے اور مصلحتاً لگائے گئے تھے۔
سورج غروب ہو چکا تھا۔ لانچوں کی تیز رفتاری سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ جلد سے جلد کہیں پہنچنا چاہتے ہیں۔ پھر اندھیرا پھیلنے لگا۔ لیکن جلد ہی چاند نے افق سے سر ابھارا تھا۔ اور پھر بہت دور سے روشنیاں دکھائی دی تھیں۔ اَم بینی ایک بار پھر عمران کے پاس آئی۔
"ہم پونیاری میں اتریں گے۔" اس نے کہا۔
"یہ کیا چیز ہے۔۔۔۔؟"
"ایک چھوٹا سا جزیرہ! بس یہ سمجھ لو کہ یہاں کنگ چانگ ہی کی حکومت ہے۔"
"آخر یہ کنگ چانگ ہے کیا چیز۔۔۔۔ کم از کم اس کا ذریعہ معاش ہی بتا دو۔"
"تم نہیں جانتے۔۔۔۔؟"
"میں کیا جانوں۔۔۔۔"
"چلو یہ بھی معلوم ہو جائے گا۔۔۔۔خود ہی دیکھ لو گے۔!"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
دھویں کا حصار
صفحات 150-159