دِل کے ارماں سراپا کاش ہوئے غزل نمبر 150 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
دِل کے ارماں سراپا کاش ہوئے
خُواب جو دیکھے پاش پاش ہوئے

عِشق والوں کی کم نگاہی سے
حُسن والوں کے راز فاش ہوئے

عِشق پر اے فلک ترے نیچے
سانحے کیسے دِل خراش ہوئے

ہم کیا راہِ راست پر آئے
سارے دُشمن ہی بد معاش ہوئے

وہ خزانے ملے خرابوں میں
ساری دُنیا میں جو تلاش ہوئے

غیر موجودگی میں ساقی کی
بادہ کش اور بھی اوباش ہوئے

میرے محبُوب تُجھ کو پاکر ہم
شاد ہیں، خوش ہوئے، ہشاش ہوئے

حُسن نے جِس پہ اِلتفات کیا
اُن کے تبدیل بُود و باش ہوئے

کِتنا مُشکل ہے نفس سے بچنا
مُتقی دیکھے ہیں عیاش ہوئے

پاس تم تھے تو ہم تونگر تھے
بِن ترے دیکھ ہم قلاش ہوئے

آپ تو خُوش مِزاج تھے
شارؔق
عِشق میں کیسے زِندہ لاش ہوئے
 

الف عین

لائبریرین
کچھ قوافی کا غلط استعمال ہے، جنہیں تشدید کے ساتھ بولا جاتا ہے۔ عیاش، قلاش، ہشاش بشاش، سب کے دوسرے حرف پر تشدید ہے۔
اوباش کی بھی واو نہیں گرائی جا سکتی۔

ہم کیا راہِ راست پر آئے
یہ کیا، سوالیہ ہے، اسے "کا" تقطیع ہونا تھا، کِ ی ا نہیں

شاد ہیں، خوش ہوئے، ہشاش ہوئے
پہلا ٹکڑا حال میں ہے، باقی ماضی میں۔ پہلا بھی اسی صیغے میں ہونا چاہئے
باقی درست ہیں اشعار
 
Top