جوش دُوربینیء و جوانی، یہ تماشا کیسا؟ - جوش ملیح آبادی

کاشفی

محفلین
غزل
(جوش ملیح آبادی)
دُوربینیء و جوانی، یہ تماشا کیسا؟
عیشِ امروز کے طوفان میں فردا کیسا
اُس زمانے میں کہ ہو جامہ دری جب ایمان
راہ میں خار سے دامن کا بچانا کیسا
مَہ وشوں کے نفسِ عطر فشاں کے ہوتے
ذکرِ جاں بخشیء انفاسِ مسیحا کیسا
سر پہ جس وقت گرجتے ہوں جُنوں کے بادل
پُختہ کاری کی صدا، عقل کا غوغا کیسا
رامش و رنگ کی گونجی ہوئی آوازوں میں
قصہء جنت و افسانہء عُقبیٰ کیسا
اُس زمانے میں کہ ہر ذرّہ ہو جب جاذبِ دل
نرگسِ ناز کے دھوکے میں نہ آنا کیسا
ہوں جہاں قُلقلِ مینا سے ترانے ہمدوش
اُس جگہ کوثر و تسنیم کا چرچا کیسا
جس شبِ ماہ میں ہو بربط و فرشِ سنجاب
اُس شبِ ماہ میں تسبیح و مصلّٰی کیسا
جوش، باغی ہے مشیّت کا جوانِ صالح
موسمِ کُفر میں اسلام کا دعویٰ کیسا!
 
Top