’’بڑی گاڑیوں کے دیگر نقصانات تو درکنار ان سے نکلنے والی ڈیزل کی بد بو ہی توہین آمیز اور صحت کے لئے انتہائی خطرناک ہے‘‘ یہ الفاظ ’’سر رچرڈ ڈابسن‘‘ کے احتجاجی خط کا اقتباس ہے۔ جو انھوں نے گھر کے سامنے ایک بڑی گاڑی گزرنے کے بعد لندن کے مقامی اخبار میں چھپوایا۔ ’’سر رچرڈ ڈابسن‘‘ نے 11فروری 1914ء کو جنوبی مغربی انگلینڈ کے ایک شہر’’برسٹل ‘‘میں جنم لیا اور بعد میں ایک کامیاب صنعت کار کے طور پر مشہور ہوا۔1935ء کو اُنھوں نے British American Tobacco میں ابتدائی ملازمت اختیار کی اور1955ء میں اُن کو کمپنی کا ڈپٹی چیئرمین مقرر کیا گیا۔ 1968ء میں وائس چیئرمین کے طور پر اُن کا انتخاب ہوا، جبکہ 1970ء کو چیئرمین اور 1976ء میں پریذیڈنٹ کے عہدے پر اُن کو تعینات کیا گیا۔ 1979ء یعنی تین سال تک کمپنی کے چیئرمین رہے۔28فروری 1976ء کو British Leyland (بڑی گاڑیاں بنانے والی کمپنی) کی طرف سے اعزازی طور کمپنی کا چیئرمین مقرر کیا گیا، تاہم 21اکتوبر1977ء کو وہ اس کمپنی سے مسہو گئے ۔
ایک مرتبہ انگلینڈ میں سڑکوں کی تعمیر کا کام شروع ہوا جس کی وجہ سے ایک بڑی گاڑی کو ان کے گھر کے سامنے والی سڑک سے گزرنا پڑا ۔ اپنے مکان کے سامنے دھواں نکالنے والی بڑی گاڑی کا گزرنا انھیں ناگوار لگا اور اگلے دن لندن کے ایک اخبار میں اپنا احتجاجی خط چھپوایا۔
مشاہدہ ہے کہ اکثر گلی محلوں کے نئے تعمیر شدہ سڑکوں پر ہر شخص نے اپنے اپنے گھر کے سامنے مین گیٹ پر عمودی ترتیب سے بڑے بڑے پتھربچھا ہوئے ہوتے ہیں تاکہ گاڑیوں کی رفتار کو آہستہ کیا جا سکے اور اپنے بچوں کو حفظ ما تقدم کے طور پر حادثات سے بچایاجاسکے ۔ والدین کا بچوں کی حفاظت کے لئے فکر مند ہونا اُن کی ایک اہم ذمہ داری اور فطری تقاضا ہے۔ لیکن معاشرے کے دیگر افراد جو اپنے والدین کے لیے ساری عمر کا سرمایہ اور اُن کے بڑھاپے کا سہارا ہوتے ہیں، اُن کے سر کا تاج اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتے ہیں،باچھوں کی مسکراہٹ اور درد کا درمان ہوتے ہیں، امیدوں کی کرن اور خوشیوں کی آماجگاہ ہوتے ہیں،اُن کے بارے میں لاپرواہی ہماری انتہائی غفلت اور خود غرضی کا مظاہرہ ہے۔گھروں کے سامنے راستے میں بچھائے گئے پتھر انتہائی حد تک خطرناک اور جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں اور یہ امکانات اُس وقت یقین کی حد تک پہنچنےکا سفر کامیابی سے طے کر لیتے ہیں جب کہ گلی کوچوں اور محلوں میں’’سٹریٹ لائٹس‘‘ کا اچھا خاصا انتظام بھی موجود نہ ہو۔ ہو سکتا ہے رات کے وقت سڑک پر بچھائے گئے ’’مائنز‘‘ سے کسی کی گاڑی ٹکرا جائے اور اُس کی جوانی موت کی نذر ہو جائے۔ کسی نوجوان کی موٹر سائیکل ’’مائنز‘‘ سے ٹکرا کر کھڈے میں جا گرے اور وہ فنا کے گھاٹ اتر جائے۔ لیکن ہمیں ان سب سے کیا لینا دینا! ہمیں تو بس اپنے بچوں کی ’’حفاظت‘‘ کے لئے تربیت کی بجائے ’’اعلیٰ ترین‘‘ اقدامات سر انجام دینے ہوتے ہیں، چاہے ہمارے غیر اخلاقی اقدامات سے کسی کی جان چلی جائے یا کسی کا سر پھوڑ دے۔چاہے کسی کے گھر میں قیامت برپا کردے یا ماتم کی صفیں بچھا دے اور یا پھر چاہے کسی کی خوشیوں کو عمر بھر کے روگ میں تبدیل کر دے لیکن ہم نے کبھی دوسروں کے بارے میں نہیں سوچنا، بس ساری عمر اپنا ہی طواف کرتے رہنا ہے، اپنے ہی بارے میں سوچتے رہنا ہے۔ہمیں کبھی دوسروں کا احساس کرنے کی تلقین نہیں کی گئی، ہاں! البتہ اپنے بارے میں دوسروں کی بے حسی پر ہمیشہ شکوہ و شکایتوں کا ڈھنڈورا پیٹنے کو لازمی سمجھتے ہیں۔ہم نے کبھی خود غرضی کے خول سے باہرنکلنے کی کوشش نہیں کی اور نکلے بھی کیوں کہ ہمیں تو بچپن ہی سے دوسروں کے ساتھ مقابلہ کر کے سبقت لے جانے کی نہیں بلکہ دوسروں کو گِرا کر آگے بڑھنے کی ترغیب دی جاتی رہی ہے۔ہمیں یہ تو کبھی نہیں سکھایا جاتا کہ اپنے کمزور ساتھیوں کو لے کر آگے بڑھو تاکہ سب کامیابی سے ہمکنار ہو سکو، ہاں! البتہ یہ ضرور سکھایا جاتا ہے کہ فلاں شخص کا سہارا بن کر اپنا وقت ضائع مت کرو، دنیا کی دوڑ میں آگے نکلنے کی کوشش کرو۔ ایسا نہ ہو کہ ہم اتنا آگے نکل جائیں کہ واپسی کا راستہ ہی بھول جائیں۔
سر رچرڈ ڈابسن ساری عمر سگریٹ نوشی اور ڈیزل پر چلنے والی بڑی گاڑیوں کے کاروبار کو فروغ دیتے رہے۔جب تک سگریٹ نوشی اور ڈیزل کے دھوئیں کے نقصانات دوسروں کے گھروں کو اجاڑ رہا تھا اُس وقت تک ’’صاحب‘‘ کو نہ سگریٹ نوشی کے نقصانات کا علم تھا نہ ڈیزل کے مضرات کا ادراک تھا۔ مگر جب اتفاق سے اپنے ہی بھڑکائے ہوئے آگ نے آنگن کو گھیرے میں لے لیا تو برانگیختہ ہو کر احتجاج کے لیے چلا اٹھے۔ ایسا نہ ہو کہ ہماری خود غرضی اور لاپرواہی کا نتیجہ ہماری اولادوں کو بھگتنا بڑے اور کل کو وہ کسی کے بچھائے گئے پتھروں کی وجہ سے موت کی بھینٹ نہ چھڑ جائیں۔ آئیے اجتماعیت کی تیغ کو انفرادیت کے سینے میں گاڑھ دیں اور اسے ہمیشہ کے لیے دفن کر دیں تاکہ مثالی معاشرہ پروان چڑھے ۔
 
Top