دنیا دار مؤمن

دیوان

محفلین
دنیادار مؤمن
تمہید
دنیاوی کامیابی ہمیشہ سے انسان کی تمنا رہی ہے۔ فرد کی ترقی ہو، ریاست کی معاشی خوشحالی ہو یا قوم کی اجتماعی فلاح؛ ہر زمانے میں یہ انسان کی جدوجہد کا مرکز رہی ہے۔ یہ خواہش کبھی دولت کی طلب کی صورت میں، کبھی طلب شہرت کی صورت میں، کبھی اثر و رسوخ اور منصب کی طلب میں یا کبھی کسی خواب کی تکمیل کی طلب میں ظاہر ہوتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اسلام دنیاوی کامیابی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے؟ کیا ایک مسلمان اعلی مقام، بڑی کمپنی، یا دنیا میں اثر انگیز شخصیت بننے کی خواہش رکھ سکتا ہے؟ جواب ہے: "ہاں"۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وابتغ فيما آتاك الله الدار الآخرة ولا تنس نصيبك من الدنيا (القصص: 77)
ترجمہ: اور جو کچھ اللہ نے تمہیں دیا ہے، اس کے ذریعے آخرت کے گھر کی طلب کرو، اور دنیا میں اپنا حصہ نہ بھولو۔
تفسیر ماجدی میں اس آیت کے تحت لکھا ہے:
یعنی یہ کوئی نہیں کہتا کہ ساری کی ساری دولت بندگان خدا کو دے ڈال، فراغت سے کھا، پی، عیش کر، لیکن اپنے حدود کے اندر رہ۔ حقوق واجب کی ادائی پر توجہ کرکے اسی سرمایہ کو توشہ آخرت بھی بنا لے۔
اسلام دنیاوی ترقی کو اس شرط پر سراہتا ہے کہ وہ اخلاقیات، انصاف، اور آخرت کی فکر کے ساتھ کی جائے۔ دنیاوی کامیابی کو آخرت کی تیاری کے لیے ذریعہ سمجھا جاتا ہے، اور دونوں کے درمیان توازن پیدا کرنا ایک مومن کی ذمہ داری ہے۔ اللہ ہمیں ان اصولوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
قرآنی دعا ہے جو سورۃ البقرۃ آیت 201 میں آئی ہے:
ربنا اتنا فی الدنیا حسنة و فی الاخرة حسنة و قنا عذاب النار (البقرۃ: 201)
ترجمہ: اے رب ہمارے دے ہم کو دنیا میں خوبی اور آخرت میں خوبی اور بچا ہم کو دوزخ کے عذاب سے
تفسیر معارف القرآن میں اس دعا کی تفسیر میں لکھا ہے:
اس میں لفظ حسنہ تمام ظاہری اور باطنی خوبیوں اور بھلائیوں کو شامل ہے مثلا دنیا کی حسنہ میں بدن کی صحت اہل و عیال کی صحت، رزق حلال میں وسعت و برکت دنیوی سب ضروریات کا پورا ہونا اعمال صالحہ، اخلاق محمودہ، علم نافع، عزت و وجاہت، عقائد کی درستی صراط مستقیم کی ہدایت، عبادات میں اخلاص کامل سب داخل ہیں اور آخرت کی حسنہ میں جنت اور اس کی بیشمار اور لازوال نعمتیں اور حق تعالی کی رضا اور اس کا دیدار یہ سب چیزیں شامل ہیں۔
تفسیر ماجدی میں لکھا ہے:
رسول مقبول ﷺ خود اس دعا کی کثرت رکھتے تھے، کان اکثر دعوۃ یدعوبھا النبی ﷺ یقول اللھم اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار (بخاری ومسلم عن انس) مال، اولاد، صحت، اطمینان وغیرہ جو چیزیں بھی تحصیل خیر میں معین ہوسکتی ہیں۔ خواہ بظاہر کیسی ہی دنیوی اور مادی ہوں، سب مومن کا مقصود ومطلوب بن سکتی ہیں۔ البتہ خود دنیا ہرگز کسی مومن کا مدعا اور مقصود نہیں بن سکتی۔
یقینًا اسلام میں دنیاوی کامیابی حاصل کرنے پر کوئی قدغن نہیں لیکن ایک انتہائی بنیادی فرق کے ساتھ وہ یہ کہ اسلام اس دنیاوی کامیابی کے حتمی مقصد کو اہمیت دیتا ہے اور وہ ہے اللہ کی رضا! اسلام صرف کامیابی کی دوڑ نہیں سکھاتا بلکہ سکون، شکر، قناعت اور توازن کا سبق بھی دیتا ہے۔ بہت سے لوگ دنیا میں کامیاب ہو جاتے ہیں مگر ذہنی دباؤ، بے سکونی اور تعلقات کی بربادی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسلام کا پیغام ہے:
الا بذكر الله تطمئن القلوب (الرعد: 28)
ترجمہ: دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر میں ہے
اسلام دنیاوی کامیابی سے روکتا نہیں بلکہ اسے نیت، اخلاق، اور عدل کے ساتھ حاصل کرنے کا راستہ دکھاتا ہے۔ ایک مسلمان اگر اپنی کامیابی کو رب کی رضا، مخلوق کی خدمت، اور علم و انصاف کے فروغ کے لیے استعمال کرے، تو وہ صرف دنیا میں کامیاب نہیں بلکہ آخرت میں بھی کامیاب ہے۔اسلام میں دنیاوی امور صرف مادی سرگرمیاں نہیں بلکہ وہ ایک عبادتی پہلو بھی رکھتے ہیں اگر ان کا مقصد و نیت اللہ کی رضا ہو۔ اسلام کامیابی کو صرف دنیاوی فائدے سے نہیں ناپتا بلکہ اس میں اخلاق، عدل، اخلاص اور اخروی جواب دہی شامل ہے۔ اسلام میں دنیاوی کامیابی پر آخرت کی کامیابی کو فوقیت حاصل ہے اس لیے کہ دنیاوی زندگی عارضی اور مختصر ہے جب کہ آخرت کی زندگی دائمی اور ابدی ہے۔
یہاں اتنی بات ذہن میں بٹھا لیجیے کہ دین کی تعلیمات کا مقصد انسانی زندگی کو روحانی، اخلاقی، اور سماجی طور پر بہتر بنانا ہے اور ان تعلیمات کو برتنے سے دنیاوی کامیابی بھی حاصل ہوتی ہے۔
دنیا میں رائج مختلف نظام ہائے حیات نے اس کامیابی کے حصول کے لیے اپنے اپنے اصول و ضوابط پیش کیے۔ اسلام بھی دنیاوی ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہوتا، بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے بشرط یہ کہ اس ترقی کا مقصد صرف دنیا نہیں بلکہ آخرت کی کامیابی بھی ہو۔ اسلامی تعلیمات جن کو ہم محض مذہبی تقاضا سمجھ کر برتتے ہیں وہ اخروی فلاح کے ساتھ ساتھ دنیاوی کامیابی کی کلیدیں بھی ہیں۔آئیے ترتیب وار شروع کرتے ہیں۔
اخلاص اور نیت کی درستگی
اسلام میں کسی بھی کام کی کامیابی کا انحصار اس کی نیت پر ہے۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
انما الاعمال بالنيات
ترجمہ: اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے
دنیاوی کوشش بھی اللہ کی رضا کے لیے ہو تو وہ عبادت بن جاتی ہے۔ نیت کا خلوص کامیابی کو مثبت، تعمیری اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ بناتا ہے۔
مشاورت، استخارہ
مشورہ شریعت کا ایک انتہائی اہم اصول ہے۔ کام انفرادی نوعیت کا ہو یا اجتماعی نوعیت کا مشورہ ایک اہم اصول ہے۔ کسی کام میں لگنے سے پہلے اس کے ماہر سے مشورہ انتہائی ضروری ہے۔ محض سنی سنائی پر کسی کام کو اختیار کرنے والا نقصان کے علاوہ کچھ نہیں پاتا۔ ایک روایت کا مفہوم ہے: جس نے استخارہ کیا وہ نامراد نہیں ہوا، اور جس نے مشورہ کیا وہ پشیمان نہیں ہوا۔ رسول اللہ ﷺ کو صحابہ کرامؓ سے مشورہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ فرمان الہی ہے:
وشاورهم في الامر (آل عمران: 159)
ترجمہ: اور ان سے (اہم) معاملات میں مشورہ لیتے رہو
استخارہ بھی ایک ضروری چیز ہے۔ لیکن استخارے کا مرحلہ مشورے کے بعد آتا ہے۔ یہاں ایک غلط خیال، جو عام طور پر ذہنوں میں بیٹھا ہوا ہے جس کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ استخارہ "طلب علم خیر" نہیں یعنی مقصود یہ نہیں کہ اپنے کام کے متعلق اللہ کی طرف سے کوئی اشارہ مل جائے۔ بلکہ اس کا مقصد اپنے ارادے کے بعد اللہ سے اپنے کام میں خیر طلب کرنا ہے۔
تدبیر ، دعا ، توکل اور قناعت
اب مرحلہ ہے عمل کا جس میں اپنے مقصد کے حصول کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق بہترین طریقہ کار یا تدبیر اختیار کرنا ہے۔ اس کے بعد کا مرحلہ اللہ پر بھروسہ کرنے کا ہے۔ یہی وہ عملی اور روحانی توازن ہے جو اسلام کو مطلوب ہے۔ کامیابی کے لیے اللہ پر بھروسہ اور دعا کی تاکید ہے۔ قرآن میں فرمایا گیا:
ومن يتوكل على الله فهو حسبه (الطلاق: 3)
ترجمہ: اور جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرے، تو اللہ اس (کا کام بنانے) کے لیے کافی ہے
ترمذی کی روایت میں آتا ہے ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ کیا وہ اونٹ کو باندھے یا چھوڑ دے اور توکل کرے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اعقلها وتوكل
ترجمہ: باندھو بھی اور توکل بھی کرو
دعا بھی مؤمن کی زندگی کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔ اپنی بساط بھر کوشش کے بعد رب کی طرف رجوع کرنا اور اس سے بہترین نتیجے کو طلب کرنا لازمی امر ہے۔
ان مراحل کے بعد نتیجہ پانے کا مرحلہ ہے۔ یہاں پر قناعت کی حقیقت واضح کرنا ضروری ہے۔ اپنی استطاعت کے مطابق کوشش کرنے کے بعد جو نتیجہ نکلے اس کو اللہ کی رضا سمجھتے ہوئے قبول کرنا قناعت ہے۔ قناعت مزید ترقی کو مانع نہیں۔ انسان اگر باصلاحیت ہو تو اپنے کاروبار، مشاغل یا جس بھی کام میں وہ لگا ہوا ہے اس کو بڑھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
امانت و دیانت
اسلامی اصول دیانت داری اور انصاف پر مبنی ہیں، جو دنیاوی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ انصاف اور امانت داری معاشرتی ترقی کی راہ بھی ہے۔ امانت، عدل اور دیانت قیادت و تجارت دونوں میں لازمی اصول ہیں۔ حضرت یوسفؑ نے فرمایا تھا:
قال اجعلني على خزائن الارض اني حفيظ عليم (یوسف: 55)
ترجمہ: (یوسفؑ نے کہا) مجھ کو مقرر کر ملک کے خزانوں پر نگہبان ہوں خوب جاننے والا
یہ دنیاوی منصب یعنی وزارت خزانہ حاصل کرنے کے اصول تھے۔
ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:
لا ايمان لمن لا امانة له (مسند احمد)
ترجمہ: اس کا ایمان نہیں جس میں امانت داری نہیں۔
یہ حدیث ہمیں ذمہ داری اور دیانت داری کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کا درس دیتی ہے۔
وقت کی اہمیت اور تنظیم وقت
وقت اللہ کی دی ہوئی نعمت ہے اور اسلام وقت کی قدر کرنے کا درس دیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
نعمتان مغبون فيهما كثير من الناس الصحة والفراغ (صحیح البخاری)
ترجمہ: دو نعمتیں ہیں جن کے بارے میں اکثر لوگ دھوکے میں رہتے ہیں صحت اور وقت
وقت کی قدر، اس کا بھرپور؛ درست اور مؤثر استعمال ہر کامیابی کی بنیاد ہے۔ جدید دنیا میں تحقیق کے ذریعے وقت کے مؤثر استعمال کے طریقے ڈھونڈے گئے ہیں۔ اس کی ضرورت ہے کہ ان طریقوں کو سیکھا جائے اور اپنے وقت کے مؤثر استعمال کی کوشش کی جائے۔
قانون فطرت
حسن نیت، مقصدیت، مشاورت و دیگر وہ اصول جو دین نے بتائے ہیں دنیاوی کامیابی میں ان کا اثر ناگزیر ہے لیکن دنیاوی زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے بہت سے اور اصول بھی ہیں جن کا برتنا لازم ہے جن کے بغیر کامیابی اور پائیدار کامیابی کا امکان بہت کم ہے یہ اس لیے کہ یہ دنیا اسباب سے جڑی ہوئی ہے۔ جو انسان ان اسباب کو اختیار کرے گا اور پوری تندہی اور سمجھ داری سے کرے گا وہ کامیابی حاصل کرے گا۔ ان اسباب کا اختیار کرنا کسی طور بھی دین کی تعلیمات کے خلاف نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں ہر موقع پر حالات کے مطابق میسر اسباب کا بھرپور استعمال فرمایا۔ مکہ مکرمہ میں دعوت کے کام میں رکاوٹوں کے پیش نظر طائف کا سفر کیا۔ جنگ کے موقعوں پر بہترین منصوبہ بندی فرمائی۔ دشمنوں کے خلاف جاسوسی کا انتظام فرمایا۔ یہود کی زبان جاننے کے لیے ایک صحابی کو ان کی زبان سیکھنے کا حکم فرمایا۔ اس لیے ضروری ہے کہ جدید دنیا میں ترقی اور کامیابی کے جن اسباب کو اختیار کیا جاتا ہے ان کا ذکر بھی کر دیا جائے۔
نظم و ضبط
نظم و ضبط کا تصور اسلام میں ایک بنیادی اصول کے طور پر موجود ہے، جو فرد اور معاشرے کی کامیابی کا ذریعہ بنتا ہے۔ نظم و ضبط انسان کو اپنے فرائض کی ادائیگی میں مدد فراہم کرتے ہیں اور معاشرتی ہم آہنگی کا سبب بنتے ہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
يا ايها الذين آمنوا اطيعوا الله واطيعوا الرسول واولي الامر منكم (النساء: 59)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو، اور ان کی جو تم میں سے صاحب امر ہیں
یہ آیت مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نظم و ضبط اور ذمہ داری کا درس دیتی ہے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ دن میں پانچ نمازیں متعین وقت پر، بعض پابندیوں کے ساتھ، باجماعت، امام کے پیچھے، اس کی تکبیرات کے تحت نظم و ضبط کی بہترین مثال ہے جو مسلمان کو نظم و ضبط کی تربیت دیتی ہے۔ رمضان کے روزے وقت کی پابندی اور اپنی مخصوص پابندیوں کے ساتھ نظم و ضبط اور تربیت کی ایک بہترین مثال ہے۔ حج کی ادائیگی اور اس کے اعمال کا بالترتیب ادا کرنا مسلمان کو نظم و ضبط کی تعلیم دیتی ہے۔
اگر ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں نظم و ضبط کا درس اپنی زندگی میں نافذ کریں، تو کامیابی اور سکون ہمارا مقدر بن جائے گا۔ اللہ ہمیں نظم و ضبط کے اصولوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
مقصدیت اور عملیت
نیت سے جڑی ہوئی چیز مقصدیت ہے۔ یقینًا اللہ کی رضا سب سے بڑا مقصد ہے۔ لیکن دنیا کا کوئی کام بلامقصد نہیں کیا جاتا۔ اس لیے آپ جس کام میں لگنا چاہتے ہیں اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد متعین کرنا لازمی ہونا چاہیے۔ یہ مقصدیت آپ کے عمل کا قطب نما بن جائی گی۔ مقصد کا تعین، اور اس کی اہمیت کے مطابق وسائل کی تقسیم، اور حکمت عملی کی ترتیب کامیابی کی کنجیاں ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو وقت اور محنت صَرف کرنے کے بعد بھی کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
منصوبہ بندی اور حکمت عملی
جب واضح مقصد یا مقاصد طے ہو گئے تو اب ان کے حصول کے لیے عملی اقدامات بھی ضروری ہیں جس کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کے لیے ترجیحات جاننے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کے لیے اہداف کا تعین انتہائی ضروری ہے۔ ان کا قابل حصول، حقیقت پسندانہ، قابل پیمائش اور وقت سے مربوط ہونا لازمی ہے۔ یہ اہداف قلیل مدتی، وسط مدتی اور طویل مدتی ہوتے ہیں۔
تحقیق اور جدت
کسی مقصد میں کامیابی منزل نہیں ہوتی بلکہ بہتری کا سفر جاری رہنا چاہیے۔ یوں کہہ لیجیے کہ کامیابی کے سفر کا اگلا مرحلہ ترقی ہے جو ایک مسلسل عمل ہے جو ہمیشہ جاری رہنا چاہیے۔ طرز فکر یہ ہونا چاہیے:
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں
یہ سوچ؛ فرد، تنظیم، کاروبار، حکومت سب کے لیے ضروری ہے۔ اس کو حاصل کرنے کے لیے تحقیق اور نئی ایجادات یا طریقے دریافت کرنا یا دریافت شدہ طریقوں کو بہتر بنانے اور ان کو مزید بہتر طریقے سے استعمال میں لانا ضروری ہے جو محنت طلب کام ہے۔ اس سے کوتاہی برتنے کا ایک ہی نتیجہ ہے وہ یہ کہ انسان ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ سوالات کرنا، مسائل کو حل کرنا، اور نئی راہیں تلاش کرنا ترقی کا مرکز ہے۔
علم و فن
تحقیق و جدت کے لیے علم کی اہمیت کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ دور حاضر علوم کا دور ہے۔ انسان نے اپنی کاوشوں سے نت نئے علوم ایجاد کیے ہیں۔ دنیاوی کامیابی کے لیے ان علوم کو حاصل کرنا اور ان میں بھرپور مہارت حاصل کرنا ایک ناگزیر عمل ہے۔
ایک اور اہم نکتہ جس کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جس کام میں آپ کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرنا بے حد ضروری ہے۔ جدید دنیا میں معمولی معمولی کاموں کے لیے بھی کورس تیار کیے گئے ہیں۔ ضروری ہے کہ اپنے شعبے یا مقصد سے متعلق ان کورسوں کی معلومات حاصل کریں اور حسب ضرورت ان سے مستفید ہوں۔ البتہ یہ کورس انگریزی میں ہیں۔ اس بات کی طرف اشارہ کرنا بے حد ضروری ہے کہ انگریزی اس دور کی زبان ہے اس لیے اس زبان کو سیکھنے کی ضرورت ہے جس سے بہت سی راہیں کھل جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اپنے شعبے سے متعلق جدید معلومات کے حصول کو بھی اپنی سرگرمیوں کا حصہ بنائیں۔
اللہ ہمیں ان اصولوں پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم دنیاوی کامیابی کے ساتھ ساتھ اخروی فلاح بھی حاصل کر سکیں۔ آمین!
 
Top