دنیا خیال و خواب ہے میری نگاہ میں شیخ ظہور الدین حاتم

سیما علی

لائبریرین
دنیا خیال و خواب ہے میری نگاہ میں
آباد سب خراب ہے میری نگاہ میں

بہتی پھرے ہے عمر تلاطم میں دہر کے
انسان جوں حباب ہے میری نگاہ میں

میں بحر غم کو دیکھ لیا نا خدا برو
کشتی نہ ہو پہ آب ہے میری نگاہ میں

چھوٹا ہوں جب سے شیخ تعین کی قید سے
ہر ذرہ آفتاب ہے میری نگاہ میں

تم کیف میں شراب کے کہتے ہو جس کو دل
بھونا ہوا کباب ہے میری نگاہ میں

کیوں کھینچتے ہو تیغ کمر سے چہ فائدہ
مدت سے اس کی آب ہے میری نگاہ میں

حاتمؔ تو اس جہان کی لذات پر نہ بھول
یہ پائے در رکاب ہے میری نگاہ میں
 
آخری تدوین:
Top