دنيا خوبصورت ہے

راجہ صاحب

محفلین
شانتي شانتي:
ہماري فلائٹ رات کو تين بجے براستہ بنکاک سنگاپور کيلئے روانہ ہونا تھي جہاں ايک رات قيام کے بعد ہميں اگلے روز آسڑيليا کيلئے روانہ ہونا تھا، اس وقت دوپہر کے دو بج چکے تھے، ہمارا سامان ہوٹل مڈوے پي آئي اے کي تحويل ميں ہے، اور اس اچھے خاصے معقول ہوٹل کي بے انتظامي ديکھ کر
خراب کرگئي شاہيں بچے کو صحبت زاع
والا مصر عہ ياد آگا، ميں نے اپنے کمرے سے برادر بزرگ ضياالحق قاسمي سے رابطہ قائم کرنے کيلئے آپريٹر کو انکو فون نمر ديا، جب لافي دير تک اس نے فون نے ملايا ميں دوبارہ موصوفہ سے دست بستہ درخواست کي جس پر انہوں نے جھاڑ پلادي، اتني بے صبري کي ضرورت نہيں، اکيلي جان اور اتنا کام، آپ انتظار کريں، اور ديکھيں دوبارہ کال کي ضرورت نہيں ، جب آپ کي باري آئے گي ميں آپ کو خود اطلاع کروں گي، بٹ صاحب ميرے روم ميٹ تھے، ان کي جلالي طبعيت جوش ميں آنے ہي کوتھي، کہ ميں نے وہيں بند باندھے بس جانے ديں ، يہاں ہمارا قيام دنيائے فاني کي طرح چند روز ہي نہيں بلکہ چند گھنٹوں کا ہے، لہذا شانتي شانتي۔
 

راجہ صاحب

محفلین
بنکاک کے بجھے بجھے شعلے

راجہ اندر:
ہماري پہلي منزل بنکاک تھي، اور بنکاک تک ہميں تھائي ائيرويز نےلے جانا تھا، فلپس کپمني نے اس مطالعاتي اور تفريحي دورے کا اہتمام ان 34 ڈيلروں کي ضيافت طبع کيلئے کيا تھا، جن کا تعلق ملکے کے چاروں صوبوں سے تھا اور جنہوں نے خود کو بہتر ڈيلر ثابت کيا تھا، ميري حيثيت مبصر کي تھي، گروپ ميں جوان بھي تھے بوڑھے بھي، زاہد تھے، رند بھي اوروہ بھي جن کيلئے شاعر نے کہا ہے۔
رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئي۔
سو ميرے آئندہ کئي روز رنگ برنگے انسانوں کي اس کاک ٹيل کے ساتھ بسر ہونا تھے، نشہ تو آنا ہي تھا۔
جہاز پرواز کيلئے اپنے پر پھيلائے اور تھوڑي دير بعد روشنيوں سے جگمگ جگمگ کرتا کراچي ہماي نظروں سے اوجھل ہوتا چلاگيا، روشنيوں کا شہر اب ويسے بھي آنکھوں سے اوجھل ہوتا چلا جارہا تھا اور اس کي جگہ اندہيروں کے اس شہر نے لے لي، جہاں ہاتھ کو ہاتھ سجھائي نہيں ديتا، پرواز نارمل ہوتے ہي تھائي ميزبان لڑکيا حرکت ميں آگئيں اور انہوں نے ساق گري شروع کي، ان تھائي لڑکيوں کے خدوخال ويسے تھے جسيے تھائي لڑکيوں کے ہوتے ہيں، ليکن تھوڑي ہي دير بعد ان کي ريشم ايسي اکن جس کي تعريف وارث شاہ نے بھي کي ہے، حسن اخلاق، نرم و نازک ہاتھ اور ان ہاتھون ميں پيش کئے گئے، پيمانوں کے زير اثر مسافروں نے محسوس کيا کہ وہ پريوں کے جھرمٹ ميں ہيں ، چناچہ ان ميں کئي ايک نے خود کو باقاعدہ راجہ اندر محسوس کرنا شروع کرديا، ميرے کچھ ہم سفر للچائي نظروں سے مينا وجام اور اس کے ساتھ ايک دوسرے کو کنکھيوں سے ديکھتے رہے کہ شايد گروپ ميں سے کوئي جرات رندانہ سے کام ليتے ہوئے مے نوشي آغاز کرے تو وہ بھي ہاتھ بڑھا کر جام اٹھاليں مہر ہم لوگ اتنا اللہ سے نہيں ڈرتے جتنا ايک دوسرے سے ڈرتے ہيں چناچہ الحمد اللہ سب نے کوک پر اکتفا کيا۔
 

راجہ صاحب

محفلین
اپنے مرزا صاحب:
وفد کے قائد اطہر حليم اپني نشست پر اب اطمينان اور سکون سے بيٹھے تھے، جو اطمينان اور سکون زچہ، زچگي کے مراحل طے کرنے کے بعد محسوس کرتي ہے، ہم سب لوگوں نے جہاز ميں سوار ہونے تک ان کي مت ماري ہوئي تھي، اور ظاہر ہے ايسے ہونا ہي تھا، کہ يہ کوئي ملک کي سربراہي تو نہيں تھي، کہ سربراہ کا مسائل سے کوئي تعلق ہي نہ ہو، ميرے ہم سفروں ميں سرگودھا کے حميد وائيں، مجيد وائيں اور شاہد بھي تھے، وائيں فيملي سے ہمارے گھريلوں تعلقات ہيں، ليکن ان کے ساتھ زيادہ وقت گزارنے کا موقع اس سفر کے دوران ہي ميسر ہو اور ميں نے محسوس کيا کہ انکا ظاہر ہي نہيں ان کا باطن بھي خوبصورت ہے، شاہد سے ميرا پہلا تعرف تھا، يہ ہنس مکھ نوجوان سارے سفر کے دوران گلاب کي طرح کھلتا اور کھلکھلاتا رہا، باقي مسافروں کا تعارف ميں آپ کو باري باري کرائوں گا ليکن اس سے پہلے مرزا عبد القيوم کا تعارف ضروري ہے، چند برس پيشتر مرزا صاحب سے تعلق پيدا ہوا تو برسوں پراني دوستيوں پر حاوي ہوگيا، وہ گذشتہ تيس برس سے ميرے کالم کے قاري ہيں، يہ قاري کا لفظ تو ميں نے استعمال کيا ہے وہ اس کيلئے حافظ کا لفظ استعمال کرتے ہيں، معذرت کے ساتھ ليکن کاروباري حضرات ميں اسيے صاحب دل بہت کم ہوتےہيں جو دل کے معاملات ميں بھي کاروبار سے صرف نظر کرسکيں، کسي زمانے ميں ميرے پاس اسکوٹر ہوتا تھا، ايک دفعہ اس کي ورر ہالنگ کي نوبت آگئي تو اسپئير پارٹس خريدنے ميں ميکاوڈروڈ گيا، جب سيلز ميں بل بنناے لگاتو دکان مالک آگا مجھے ديکھ کر وہ ديوانہ اور ميري لپکا اور انتہائي گرم جوشي سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا قاسمي صاحب ميں آپ کي تحريروں کا عاشق ہوں، ميں کتنا خوش نصيب ہوں کہ آج آپ سے ملاقات ہوگئي پھر اس نے چائے کا آرڈر ديا اور دوران وہ مسلسل ميرے بارے ميں ايسے تصريفي کلمات کہتا رہا جن کا ميں خود کو مستحق نہيں سمجھتا تھا، اتنے ميں سيلز ميں نے بل بنا کر مالک کو دي اتو وہ غصے سے لال پيلا ہو کر کہنے لگا، يہ کيا بنا کر لائے ہوں، جانتے نہيں يہ عطاالحق قاسمي صاحب ہيں جو ہماري قوم کا سرمايہ ہيں، پانچ سو بارہ روپے چھ آنے ميں سے يہ بارہ روپے چھ آنے نکالو اور دوبارہ بل بنائو، تم لوگ قوم کے محسنوں کي عزت کرنا جانتے ہي نہيں ۔۔۔بے وقوف جاہل، مجھے يوں لگا جيسا اس ساري گفتگو ميں صرف يہ ہي آخري دو لفظ ميرے لئے ہيں، خير يہ تو جملہ ہائے معترضہ تھے، قيوم کي محبت مختلف نويت کي ہے وہ کاروبار ميں بھي محبت کے قائل ہيں، جبکہ يار لوگ محبت ميں بھي کاروبار کرتے ہيں، انکا تعلق پنجاب کے ايک پس ماندہ قصبے پسرور سے ہے اور وہ اپنے اس قصبے کو نہيں بھولتے، ہر سال پوري تحصيل ميں امتيازي نمبروں سے امتحان پاس کرنے والے طلبہ و طالبات ميں لاکھوں روپے کے انعمات تقسيم کرتے ہيں، گورے چٹے، خوش لباس اور خوش کلام مرزا عبدالقيوم کو اپنے علاقے ميں ايک ہيرو کي حيثيت حاصل ہے۔
 

راجہ صاحب

محفلین
اپنے مرزا صاحب:
ايڈز کے خريدار:
حالانکہ اس وقت رات کے تين بج رہے تھے، ليکن جہاز ميں بہت چہل پہل تھي، مسافروں کي بڑي تعداد بنکاک کے شعلے سيکھنے جارھي تھي، چناچہ ان ميں وہ ايکسائٹمنٹ پائي جاتي ہے، جو چاند رات کو مشعاقان عيد ميں پائي جاتيہے، بنکاک کو بين الاقوامي ہيرا منڈي کي حيثيت حاصل ہے، پوري دنيا سے سياح يہاں ايڈز خريدنے آتے ہيں اور واپسي پر اپنے پياروں ميں تقسيم کرتے ہيں، عصمت فروشي کو يہاں اسمال انڈسٹري کي حيثيت حاصل ہے چناچہ گھر گھر ميں چھوٹے چھوٹئے يونٹ قائم ہيں، جہاں چھوٹے چھوٹے بچے بھي بطور ايندھن استعمال ہوتے ہيں، صرف يہي نہيں بلکہ يہاں مارد پرستي کا بازار بھي گرم ہے، يہ بات ميں نے محاورتا نہيں کہي بلکہ اس مقصد کيلئے واقعي خصوصي طور پر ايک بازار موجود ہے، گلزار وفا چودھري ايک ميٹنگ کے سلسلے ميں بنکاک گيا تو اس کے دل ميں يہ بازار ديکھنے کا تجسس پيدا ہوا وہ ايک گھڑيوں کي دکان ميں گيا اور اس کے مالک سے بازار کا پتہ پوچھا، مالک نے کہا تم کہاں بازار ڈھونڈتے پھرو گے، دس ڈالر مجھے دو اور۔۔۔۔گذشتہ دنوں بنکاک کي وزير سياحت کا بيان اخباروں ميں شائع ہوا جس ميں اس نے بنکاک ميں ايڈز کي بڑھتي ہوئي شرح پر سخت تشويش کا اظہار کيا تھا، کيونکہ سياحوںکي تعداد ميں کمي کي وجہ سے ملکي معيشت پر برے اثرات متب ہورہے ہيں، تاہم اس کا يہ مطلب نہيں کہ بنکاک صرف عصمت فروشي کيلئے مشہور تھا بلکہ اس کے خوبصورت مندر بھي مشہور ہيں، جن ميں ماہتما بدہ کي مورتياں رکھي ہوئي ہيں، چوري ميرا پيشہ اور نماز ميرا فرض ہے، والا مکالمہ کيسے کيسے مقامات پر اپني معنويت دکھاتا ہے، بائي دي وے بنکاک کے مگرمچھوں کے فارم بھي بہت مشہور ہيں، جہاں مگر مچھ کا پورا جبرا کھول کر اپني گردن اس ميں ڈال ديتے ہيں، اس کے علاوہ بقول سيد شوکتعلي شاہ بنکاک کا مہاراجہ جيت سنگھ بھي يہاں کي خاص چيز ہے جسے ديکھے اور ملے بغير بنکاک کي سياحت مکمل نہيں ہوتي مہاراجہ کي سيام اسکائر ميں ٹيلرنگ کي دکان ہے، يہ مہاراجہ ہي نہيں امريکي فوج کا چھ ستاروں والا اعزااي جرنيل بھي ہے، اور اس کے علاوہ بہت کچھ ہے جہاں تک تھائي لينڈ کے عوام کا تعلق تھا، وہ انتہائي ميزبانيں مسافروں اور عجزو انکسار کا پيکر ہيں، اس وقت جہاز ميں گڑيوں جيسے گڑيوں جيسيفضائي ميزبانيں مسافروں کي خڈمت ميں اس طرح منہمک تھيں جيسے وہ ڈيوٹي پرنہيں مندر ميں ہيں، اور عبادت کر رہي ہيں، جہاز کي لينڈنگ کا اعلان ہوا ور پھر تھوڑي دير بعد ہم اتر گئے، بنکاک ميں ہم نے صرف ايک گھنٹوں کيلئے رکنا تھا، يہاں سے کينٹاس ائير لائنز کے ذريعے ہميں سنگاپور کيلئے رونہ ہونا تھا پہلے پروگرام ميں بنکاک ميں ايک دن قيام بھي شامل تھا جو کسي فني مجبوري کي وجہ سے تبديل کرنا پڑا، اس وقت ميں نے دل ميں خدا کا شکر کيا تھا، مجھے بنکاک سے خوف سا آتا تھا، اس کے متعلق کچھ ايسي بري بري کہانياں سنيں ميں آتي رہي ہيں کہ جس يہ تاثر ملتا ہے جيسے سرزمين پر قدم رکھتے ہي خون ميں اجزا شامل ہونا شروع ہوجاتے ہيں، تاہم اس سرزمين کي سياحت ميرے پروگرام ميں شال ہے، انشا اللہ آج نہيں تو کل ميں اس پراسرار خطے کي کہاني اپنے قارئين کو ضرور سنائوں گا۔
 

راجہ صاحب

محفلین
اپنے مرزا صاحب:
وہ ميرے ساتھ تھي:
دن کي بھاگ دوڑ اور رات کي بے آرامي نے مجھے بے حد تھکا دياتھا، ميں نے اپني نشست کو سرکائي اور سر سيٹ پر ٹکا کر آنکھيں موندليں اور پھر وہ اپني پاز يبيں چھنکاتي ميرے براربر ميں آن کھڑي ہوئي، اس کي مخروطي انگليان ميرے بالوں ميں رينگ رہي تھيں، اس کے سانسوں کي مہر ميرے مشان جاں کو معطر کر رہي تھي۔
پھر اس کي مندروں کي گھنٹيوں ايسي آواز نے ميرے کانوں ميں رس سا گھول ديا۔
تم بہت خوش تھے کہ ملک سے باہر جارہا ہوں چلو کچہ سن کے لئے اس سے جان چھوٹي مگر ميں تمہارا پيچھا چھوڑنے والي نہيں ہوں، تم جہاں بھي جائو گے ميں تمہارے ساتھ رہوں گي، تم پھول سے خوشبو کو تو جدا نہيں کرسکتے۔
تم مجھ سے کب جدا ہو ميرا تو کوئي لمحہ تمہارے خيال سے خالي نہيں ميں جب تماہرے ساتھ زمين پر چلتا ہو تو زمين ميرے پائوں کے نيچے پھول بچھا ديتي ہے۔
ميں نے اس کے پھول ايسے چہرے کو دونوں ہاتھوں کے حصار ميں ليتے ہوئے کہا۔
اس نے اپني جھيل سي آنکھوں سے لمبي لمبي پلکوں کي جھالر اوپر اٹھائي اس کے چہرے پر حيا کے شفق رنگ ابھرے اور اس نے اپنا ريشم جيسا ہاتھ ميرے ہاتھوں پر رکھ ديا۔
بنکاک کي آمد آمد تھي، جہاز ميں ايک کھلبلي سي مچ گئي، اس ہنگامے ميں وہ ايک بار پھر ميري نظروں سے اوجھل ہوگئي جو ميري تنہائيوں کو اپني رفاقتيں سونپ ديتي ہيں، ميں نے کھڑکي ميں سے نيچے ديکھا تو تھائي لينڈ کي خوبصورت سر زمين کو اپنا منتظر پايا مجھ سے اگلي نشستوں کے مسافر اچھل اچھل کر کھڑکي سے باہر جھانک رہے تھے، وہ شايد رن وے پر بھيبنکاک کے شعلے تلاش کر رہے تھے،ان کا خيال تھا کہ سول ايوي ايشن کا عملہ بھي جہاز کو لينڈ کرانے کي بجائے ہاتھ ميں بينر لئے کھڑا ہوگا، بيوٹي فل گرل، اونلي فور ٹين ائيرز اولڈ، پليز ٹڑائي، ليکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ سول ايوي ايشن کے عملے نے صرف جہاز کو لينڈ کرايا، تھائي لينڈ مين لينڈنگ کيلئے ان مسافروں کو يقين ائي رپورٹ سے ہوٹل تک کا سفر اختيار کرنا پڑا ہوگا، کراچي سے بنکاک تک کي پرواز پانچ گھنٹے کي تھي، ہم تھکے ہارے ائير رپورٹ کي عمارت ميں داخل ہوئے جہاں کچھ دير قيام کرنا تھا تاکہ نگاپور کيلئے کينٹاس ائير لائن کي فلائٹ پکڑ سکيں، سنگاپور ميں بھي ہمارا قيام صرف ايک رات کيلئے تھا، البتہ آسڑيليا سے واپسي پر ہم نے تين دن اس شہر ميں گزارنا تھے جس کي جھلک ميں اس سے پہلے دو دفعہ ديکھ چکا ہوں، ليکن اس پر بھر پور نظر ڈالنے کا موقع واپسي پر ہي ملنا تھا، جب انسان کا پورا دن بھاگ دوڑ ميں گذرتا ہے،اور ساري رات جاگ کر گذاري ہو اس کي ذہني حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہيں، سو اس وقت ہم سب تھکے تھکے سے تھے، سوائے قيمو صاحب کئے جو ہميشہ کي طرح تروتازہ تھے، اور اب ائير پورٹ کے ايک کونے ميں معمول کي روزش کا کوٹہ پورا کرنے کھڑے کھڑے پائوں کو حرکت دے رہے تھے۔
 

راجہ صاحب

محفلین
بٹ صاحب کي محبوبہ:
اتنے ميں منير بٹ ميرے پاس آئے، ان کے چہرے پر اداسي کي لکيريں تھيں، اور وہ کھوئے کھوئے لگ رہے تھے۔
خيرتي تو ہے بٹ صاحب، بہت مضحل لگ رہے ہيں؟ ميں نے پوچھا
مجھے وہ بہت ياد آرہي ہے، ان کے لہجے سے لگتا تھا جيسے وہ ابھي رو ديں گے، ميں نے سوچا يہ محبت بھي کيسي ظالم چيز ہے پچپن سالہ، چھ فٹ لمبے تڑنگے شخص کو بھي رلاديتي ہے۔
کون ياد آرہي ہے، آپ مجھے تفصيل سے بتائيں تاکہ آپ کے دل کا بوجھ ہلکا ہو مين ان کيلئے يہي کرستا تھا۔
دارلماہي کي مچھلي ياد آرہي ہے، بٹ صاحب نے ہونٹون پر زبان پھيرتے ہوئے کہا۔
لاحول ولا قوتھ ميرے منہ سے بے اخٹيار نکلا ميں سمجھا کوئي محبوبہ ياد آرہي ہے۔
بٹ صاحب ميري اس بد ذوقي پر بہت حيران ہوئے۔
مچھلي کے قتلوں کے مقابلے ميں بھلا کسي قتالہ کي کي ااہميت ہے؟
انہوں نے گلو کير لہجے ميں مجھے مخاطب کيا۔
جہاز ميں ان بدبختوں نے کھانے کيلئے جو ديا تھا، وہ آپ نے ديکھا تھا؟
ميں تو اس طرف نظر اٹھا کر بھي نہيں ديکھا۔
بے شک ايک سچے عاشق کي يہي نشاني ہے بٹ صاحب کا شمار بلا شبہ اشيائے خورد نوش کے سچے اور جان نثار عاشقوں ميں ہوتا ہے۔
انتظار کے پانچ گھنٹے ہم نے ائير پورٹ پو گھوم پھر کر گزارے مير تقي مير نے يہ شعر غالبا کچھ اسي قسم کي صورت حال ميں کہا تھا۔
ترے کوچے اس بہانے ميرا دن سے رات کرنا
کبھي اس سے بات کرنا، کبھي اس سےبات کرنا
ائير پورٹ اچھا تھا ليکن سچي بات تو يہ ہے کہ مقامي حسينائيں مجھے کچھ زيادہ پسند نہيں آئيں، اگر بنکاک کے شعلے يہي تھے تو يہ خاصے بجھے بجھے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
 

راجہ صاحب

محفلین
اڑنے سے پہلے ہي ميرا رنگ زرد تھا

مرحلہ ہفت خواں:
مجھے جب آسٹريليا اور سنگا پور کے دورے کي دعوت موصول ہوئي تو ميں نے اندرون ملک اور بيرون ملک وقت مانگنے والوں سے ان تاريخوں ميں معذرت کرنا شروع کردي جو تاريخيں اس دورے کے آغاز اور انجام کے درميان ميں پڑتي تھيں، مگر اس کے نتيجے ميں خاصي ناخوشگوار صورت حال کا سامنا کرنا پڑا، انہي دنوں ميں ايک دوست نے پينتاليس برس کي عمر ميں شادي کيلئے رضا مندي کا اطہار کيا ان کي ہونے والي بيوي نے يہ انقلابي فيصلہ پچاس سال کي عمر ميں کيا تھا، چناچہ دولہا مياں نے يہ نويد مجہے ٹيليفون پر سنائي اور کہا ميري خوشي اسي صورت ميں دو چند ہوجائے گي، اگر آپ اس شادي ميں شريک ہوں مگر تاريخ وہي تھي، جو ہماري ميزبان فلپس کمپني والوں نے آسڑيليا روانگي کي بتائي تھي، سو مجھے بادل نخواستہ معذرت کرنا پڑي، اسي طرح تين چار مختلف النوع تقريبات ايسي تھيں، جن ميں خود ميرا دولہا بننے کا شوق پورا ہوتا تھا، يعني صدارت ہاتھ آرہي تھي، مگر شو مئي قسمت سے يہ تقريبات بھي انہي تاريخوں ميں پڑتي تھيں، يہاں تک تو معاملہ ٹھيک تھا ليکن ہوا يوں کہ آسڑيليا روانگي کي تاريخ ميں قدرے ردو بدل ہوگيا، جو کہ اس طرح کے دوروں ميں عموما ہوتا ہے، اور چونکہ ميں متزکرہ تقريبات ميں نہ آنے کا وعدہ کرچکا تھا اور وعدہ خلافي مرد کے شايان شان نہيں چناچہ ميں نے ان تقريبات ميں شموليت مناسب نہيں سمجھي، مگر جب ميں ان تاريخوں ميں لاہور ميں پايا گيا تو احباب نے ميري شخصيت کے حوالے سے خاصي نازيبا سي باتيں کہيں، مور اوور کہ اس دوران برطانيہ اور ناروے کے دوستوں نے مجھے اپنے ہاں مدعو کيا، مگر ميرے ليئے تاريخ کا تعين ممکن نہيں تھا، آسڑيليا کيلئے حتمي روانگي کي تاريخ ابھي طے ہونا تھي، بلا آخر يہ مرحلہ ہفت خواں بھي طے ہوا مگر اس کے بعد ايک اور مرحلہ آگيا۔
 

راجہ صاحب

محفلین
پسرو کا سرسيد:
لاہور سے فيصل اليکڑک کے مرزا عبدا القيوم جن کي تعليمي اور سماجي شعبے ميں بے پناہ خدمات ہيں اور جنھيں اسي حوالے سے پسرو کا سر سيد کہا جاتا ہے ميرے ہمراہ تھے، ان سے طے تھا کہ صبح ساڑھے دس بجے ائير پورٹ پر ملاقات ہوگي، فلائٹ کا ٹائم سوا گيارہ بجے کا تھا، ميں ٹھيک ساڑھے دس بجے ائير پورٹ پر تھا، جہاں برادرم عبدا لقيوم اور بٹ صاحب ميرے منتظر تھے، چھ فٹے بٹ صاحب نے اپني پاٹ دار آواز ميں ميرا استقبال کيا اور اپنا معمول کا فقرہ دہرايا، ملاقتوں ميں اتنا وقفہ نہ ڈالا کريں، آپ کويں ہميں بيمار کريں گے، حالانکہ ابھي کل ان سے ملاقات ہوئي تھي، تاہم اصلي تے وڈا استقبال کپمني کے نمائدوں نے کيا جو سرخ گلاب کے ہار لئے ہمارے منتظر تھے، يہ ہار نہ نہ کرتے ہوئے بھي ہم تينوں کے گلے ميں ڈال دئيے گئے تھے، بلکہ تصوريں بھي کھينچيں گئيں، ارد گرد کھڑے مسافر اور ان کے عزو\يز و اقارب باہم زائرين کو عقيدت کي نظروں سے ديکھ رہے تھے، مگر سوچ رہے تھے، حج کا سيزن نہيں ہے، يہ خوش نصيب يقينا عمرے پر جارہے ہوں گے، انہوں نے غالبا اکبر الہ آبادي کا يہ شعر نہيں سنا تھا۔
سدھاريں شيخ کعبہ کو ہم انگلستان ديکھيں گے
وہ ديکھيں گے گھر خدا کا، ہم خدا کي شان ديکھيں گے
سو خدا کي شان ديکھنے کيلئے آسڑيليا جانے والے مسافروں منے جب ائير پورٹ پر لينڈ کيا تو کمپني والے ايک دفعہ پھر استقبال کيلئے کھڑے تھے مگر خدا کا شکر ہے اس دفعہ ان کے ہاتھوں ميں ہار نہیں تھے۔
وگر نہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے۔
 

راجہ صاحب

محفلین
ساڈا کيہ بنے گا؟ يہ مشکل مرحلہ ميزبانوں کي طرف سے موصول ہونے والا وہ چھپا ہوا ہدايت نامہ تھا جو روانگي سے صرف ايک دن قبل موصول ہوا، اگر مجھے پہلے سے علم ہوتا کہ کمپني والے اتنے کڑي شرائط عائد کريں گے تو ميں اپنا استعفي بہ حسرت وياس پيش کرديتا، مثلا اس ہدايت نامے ميں مسافروں کو ہدايت کي گئي تھي، کہ آسڑيليا اور سنگاپور ميں قيام کے دوران ناپسنديدہ حرکات سے پرہيز کريں نيز سڑکوں پہ گندگي نہ پھيلائيں، حتي کہ تھوک دان کے علاوہ کہيں تھوکنے کي کوشش بھي نہ کريں، يہ سوچ طبعيت اداس ہوگئي کہ دو ہفتے ادھر ادھر تھوک نہيں سکيں گے اور کوئي ناروا حرکت بھي نہيں کرسکيں گے، ايک ناروا پابندي يہ بھي عائد تھي کہ غير ملکيوں سے اچھے اخلاق سے پيش آئيں، مسافروں کيلئے ايک ہدايت يہ تھي کہ اپنے ضروري سفري کاغذات دستي بيگ ميں رکھنے کے بجائے اپني پتلون کي جيبوں ميں اس طرح محفوظ کريں کہ ان کے چوري ہونے کا انديشہ نہ رہے، يہاں تک کہ تو معاملہ ٹھيک تھا، ليکن آگے چل کر ان چيزوں کو خفيہ حصوں ميں رکھيں، والي بات سمجھ ميں نہ آئي نہ پسند آئي، البتہ اس ہدايت نامے ميں ايک خوشخبري بھي تھي، اور وہ يہ تھي کہ اگر خدا نہ خواستہ بيمار ہوجائيں يا آپ کو کسي مدد کي ضرورت ہوتو اپنے گروپ ليڈر جناب اطہر حليم صاحب سے رابطہ کريں، ميرے ہمسفر مني ربٹ صاحب خصوصا اس خبر سے بہت خوش ہوئے انہوں نے ہونٹوں پہ زبان پھيرتے ہوئے کہا اس کا مطلب ہے آسٹريليا ميں حليم دستياب ہے سو خواتين و حضرات يہ وہ حالات تھے جن کي وجہ سے دل کي کلي کھلنے سے پہلے وطن کي آزاد فضائوں ميں لوٹتے ہي سڑکوں پو مونگ پھلي، مالٹوں اور کيلوں کے چھلکے وغيرہ بے خوف و خطر پھينک سکيں، ديواروں پہ پان کي پيک سے نقش و نگار بنا سکيں، نيز جس کے ساتھ ساچہيں کھل کر بد اخلاقي کا مظاہرہ کرسکيں۔
مير نيازي کا شعر ہے۔
اک اور دريا کا سامنا تھا منير مجھ کو
ميں ايک دريا کے پار اترا تو ميں نے ديکھا
سو مقامات آہ فغان يہيں تک محدود نہيں تھے، بلکہ ان کا سلسلہ ابھي جاري تھا، مثلا يہي کہ ہماري فلائٹ لاہور سے نہيں کراچي سے تھي، کراچي جو ان دنوں اپنوں اور غيروں کي وجہ سے مقتل بنا ہوا ہے، ايک وقت تھا کراچي پاکستان کا ايک مثالي شہر تھا، بلکہ ايک چھوٹا سا مثالي پاکستان تھا، يہاں سب قوميت کے لوگ امن و آشنتي سے رہتے تھے، ليکن پھر رفتہ رفتہ نفرتوں نے سر اٹھايا، ہماري سياسي اور غير سياسي حکومتوں نے ان نفرتوں کو ہوا دي، باقي کام بھارت کي خفيہ ايجنسي را نے سر انجام ديا، اور ابشہر ايک عرصے سے شعلوں کي لپيٹ ميں ہے، ادھر ادھر سے آنے والي کلاشنکوف کي کوئي ناواقاف گولي بھي آپ کے ساتھ بے تکلف ہوسکتي ہے، اور مجھے اسي شہر سے گزرکر جانا تھا۔
 
Top