دل کو یہ شوق کہ تنہائی کا صحرا رکھے - غزل اصلاح کے لیئے

السلام علیکم
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر ہے :
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعِلن
بحرِرمل مثمن مخبون محذوف
اساتذہء کِرام بالخصوص
محترم جناب الف عین صاحب
دیگر اساتذہ اور احباب محفل سے توجہ اور اصلاح کی درخواست ہے۔
-------------------------------------
دل کو یہ شوق کہ تنہائی کا صحرا رکھے
آنکھ چاہے کہ وہ بہتا ہوا دریا رکھے

ہم بھی اس شہرِ تمنّا کے ہی سودائی ہیں
خواب سب چھین کے جو روح کو پیاسا رکھے

لب مرے سی دیئے لوگوں نے، ذرا جو بولا
اس طرح سچ کو زمانہ، کیئے پسپا رکھے

فن کے بازار میں مقبول ہے کاوِش اُس کی
سینچ کر خون سے جو نرخ بھی سستا رکھے

تم بھی کاشف سرِ بازار ٹھہرتے کچھ پل
صورتِ زخم کسی خواب کو افشا رکھے!

قاتلِ شہر ہے رعنا!، ترا ہم شکل اگر
تجھ پہ الزام نہ آئے ، تجھے مولا رکھے!

اس کے وعدے، شبِ ایفا کو پہنچتے ہی نہیں
خواب دکھلائے تو تعبیر سے تشنہ رکھے

حیرتیں، سوز و نَوا پر نہ کرو تم، کہ یہ دل
خوش گلو ہے ہی ، مگر درد بھی خاصا رکھے!

تم نے کاشف وہی سیکھا نہ زمانے میں ہنر
وہ ہنر قد کو جو اوقات سے اونچا رکھے !
----------------------------
شکریہ ۔
 

الف عین

لائبریرین
مجھے تو غزل پسند آئی ہے÷ سوائے اس شعر کے
لب مرے سی دیئے لوگوں نے، ذرا جو بولا
اس طرح سچ کو زمانہ، کیئے پسپا رکھے
میرے خیال میں اس کو ’غزل نکالا ‘دینا ہی بہتر ہے۔
 
Top