دل میں مارچ کا موسم

با ادب

محفلین
دل میں مارچ کا موسم ہو

سردیوں کی صبحیں ایک سائنَس کے مریض کے لیے کس قدر تکلیف دہ ہوتی ہیں یہ وہی جان سکتا ہے جو موسموں کا دلدادہ اور کُہر بھری صبحوں کا دیوانہ ہو ۔ اور طبیب کی تمام ہدایات کو ان مناظر پہ قربان کر دیتا ہو
جب دھند شبہیہں دکھلا کے اسے منہ چڑاتی ہو اور جھیلیں اسے بلاتی ہوں ۔ اور وہ سانس بحال کرنے میں نڈھال ہو ۔
طبیب تفکر میں مبتلا ہوں یہ خاتون اچھی کیوں نہیں ہو جاتیں اور خاتون ہر روز ڈھیروں ٹھنڈی آکسیجن پھیپھڑوں کے اندر لے جانے کی کوشش میں ہلکان ہوتی ہوں ۔ اور پھر ایک دن جب دھند بارش کے پہلے قطرے کو راستہ دے کے دور افق پار کہیں جا چھپتی ہو ۔
اس دن آوارہ بادل اسکے گھر کے دروازے پہ دستک دے کے اسے بلائیں اور وہ اور بادل دونوں ساتھ ساتھ چل پڑیں ۔
جھیل کنارے پتھروں پہ کھڑے ہو کے اس نے جھیل کے پانی دیکھے ۔ مدھم ہوا سے ہلکورے لیتے مسکراتے اٹھکیلیاں کرتے بیلا کے پانی اسے دیکھ کے ہنس دیے تھے ۔
اس نے کہا تھا نا مارچ میں آئے گی ۔
ہم جھینپے ضرور لیکن خجالت آمیز ہنسی نہیں ہنسے ۔
سرشار ہو کے مسکرائے ۔
دیکھو پیارے پانی! جنہیں پانیوں کا عشق لاحق ہو انکے دعوے بودے ہوتے ہیں ۔ اتنا اتراتے کیوں ہو؟ ؟
اترانا تو بنتا ہے ۔ تم جیسی مغرور پہاڑن جس سے عشق کر بیٹھے اسکا اترانا تو بنتا ہے نا ۔
پانیوں سے کج بحثی ....ہم کیوں کرتے بھلا ۔ انکی تو ہر ادا دلفریب ہے ۔
بے فکرے بادل نے ہم سے اجازت چاہی اور بلند پرواز اڑنے لگے ۔
بادل کس قدر آوارہ مزاج ہوتے ہیں ۔ آزاد منش ' بے فکرے
انسان کتنے تنگ دل اور تنگ نظر ہیں
ارے ارے جھیل کی گھاس لہراکے بولی
ہم سے انسانوں کی باتیں کیوں کرتی ہو ۔
جانتی ہو نا ہماری دوستی کا اصول کیا ہے؟ ؟
ہممم انسانوں کی باتیں نہیں کرنی ورنہ تم.مرجھا جاؤ گی پیاری گھاس
ہاں اور پانی گدلا ہو جائے گا ۔
اتنے ہی تو میلے کچیلے ہوتے ہیں انسان
میں نے ہوا کی لہر کو چھوا ۔ اور ان خیالات کو اسکے حوالے کر دیا جس میں انسان در آئے تھے ۔
اب کے ہمیں جینا تھا ۔ صرف بادل ' جھیل اور پانی کے سنگ
اور دل میں مارچ کا موسم تھا ۔
۲۲/۱۰/۲۰۱۹

سمیرا امام
 
آخری تدوین:
Top