فوجی جیپ مجھے چھاؤنی میں چھوڑ کر چلی گئی۔ میں کرنل خان کے آفس کی طرف جا رہا تھا کہ اچانک پیچھے سے مجھے آواز آئی۔’’حسن‘‘
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو حیرت کا ایک جھٹکا مجھے لگا۔ پیچھے میراایک بہت اچھا دوست کھڑا تھا۔
کیپٹن زاہد میرا بچپن کا دوست تھا۔ کیپٹن زاہد اور میں نے گریجوئیشن اکٹھے کیا تھا۔گریجوئیشن کے بعد اُس کے والد کی ٹرانسفر پنڈی سے لاہور ہو گئی تھی۔ مجھے یہ تو پتہ تھا کہ زاہد بھی فوج میں ہے لیکن یہ پتہ نہ تھا کہ لاہور چھاؤنی میں ہے۔ آج اتنے عرصے بعد اُسے دیکھ کر مجھے حیر ت بھی ہوئی تھی اور خوشی بھی۔
’’زاہد تم‘‘ میں نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’ہاں میں کیپٹن صاحب۔ راستے میں ایسے نظر انداز کر گئے جیسے پہچانتے ہی نہیں۔ ایک ہم ہیں کہ ہر ایرے غیرے سے بھی گپیں لگا لیتے ہیں‘‘ کیپٹن زاہد نے شکایت بھرے لہجے میں کہا۔
میں بھاگ کر گیا اور اپنے دوست سے لپٹ گیا۔کسی فوجی رول کا خیال نہیں رکھا تھا۔ اتنے دنوں کے بعد ملنے پر مجھے بہت مسرت ہوئی تھی۔ یہ تو شکر ہے کوئی اُس وقت اُدھر موجود نہیں تھا۔
’’کیا بات کرتے ہو یار۔۔ میں نے تمہیں راستے میں نہیں دیکھا‘‘میں نے کہا۔
’’ اچھا ٹھیک ہے۔۔۔۔ اوئے!۔۔ میری پسلیاں۔۔۔۔‘‘آخر میں کیپٹن زاہد نے چہرے پر تکلیف کے تاثرات لاتے ہوئے کہا۔’’ابھی کسی نے دیکھ لیا تو کرنل خان کے سامنے مرغا بن کے ٹھہرے ہوں گے‘‘
’’یعنی سکول میں مرغا بننا تمہیں آج بھی یاد ہے‘‘ میں نے کہا اور پھر ہم دونو ں ہی ہنس دیے۔
’’ مجھے تو پتہ بالکل نہیں تھا کہ تم لاہور چھاؤنی میں ہو ورنہ تمہیں ضرور فون کرلیا کرتا‘‘ میں نے کہا۔
’’تم کہاں ڈیوٹی دے رہے ہو؟‘‘ کیپٹن زاہد نے کہا۔’’اُس دن تمہیں جیب میں بیٹھے دیکھا تھا۔ لیکن قسمت کہ اُسی وقت ٹریفک لائیٹ جل اُٹھی اسلئے تمہارے پیچھے نہیں جا سکا‘‘
’’ہاں۔اُس دن کمانڈر کے کام سے یہاں شہر آیا ہوا تھا ۔ میری ڈیوٹی B.S.Fمیں تھی‘‘ میں نے کہا۔ ہم دونو ں ساتھ چلتے جا رہے تھے۔ اور چھاؤنی کے ایک خوبصورت باغ میں بینچ پر بیٹھ گئے۔
’’تھی کا کیا مطلب ہوا‘‘ کیپٹن زاہد نے چونک کر کہا۔
’’میری ٹرانسفر کمانڈو رجمنٹ میں ہو گئی ہے‘‘ میں نے کہا۔
’’ اوہ۔۔۔ بہت بہت مبارک ہو۔۔ اس کا مطلب ہے۔ اب کمانڈو بن گئے ہو۔ واہ بھئی واہ۔ اب تو دو دو مٹھائیاں کھاؤں گا‘‘کیپٹن زاہد نے کہا۔
’’زاہد کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ تم بھی کمانڈو رجمنٹ میں آجاؤ‘‘میں نے اُمید بھرے لہجے میں کہا۔
’’نہیں یا ر نہیں۔ مجھے تو معاف ہی رکھو۔ مجھ سے یہ کمانڈری وغیرہ نہیں ہوگی‘‘ کیپٹن زاہد نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔
’’اچھا چھوڑو اس بات کو ۔یہ بتاؤ کہ چچا جان کیسے ہیں اور چچی کیسی ہیں‘‘ میں نے بات کا رُخ موڑتے ہوئے کہا۔
’’بابا تو ٹھیک ہیں لیکن اماں کی طبیعت خراب رہتی ہے‘‘ کیپٹن زاہد نے کہا’’ اچھا میں اب چلتا ہوں ۔ میری ڈیوٹی کا وقت ہونے والا ہے۔ رات کو میرے گھر چلیں گے‘‘ اس نے گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے اجازت مانگی اور چل دیا۔
ooo
میں اُٹھا اور سیدھا کرنل خان کے آفس کی گیا ۔ کرنل خان اپنے آفس میں موجود تھے۔ کرنل خان نے مجھے ایک بند لفافہ دیا اور کچھ ہدایا ت کے بعد اپنے نئے انسٹرکٹر سے ملنے کو کہا۔
’’ مجھے یقین ہے تم میرے اعتماد پر پورا اترو گے‘‘ کرنل خان نے کہا۔
’’یس سر۔ انشاء اﷲ میں آپ کے اعتماد پر پورا اتروں گا‘‘ میں نے کہا۔وہاں سے انسٹرکٹر کے آفس گیا۔
’’کیپٹن میں نے تمہاری رپورٹ پڑھ لی ہے۔ تمہاری کارکردگی بہت اچھی رہی ہے۔ تم میں ایک بہتر کمانڈو بننے کی صلاحیتیں موجود ہیں‘‘ انسٹرکٹر نے کہا۔
’’تھینک یو سر‘‘ میں نے کہا۔
’’کل سے تمہاری ٹریننگ شروع ہوجائے گی‘‘ انسٹرکٹر نے کہا۔
رات کو کھانا کھا کر میں زاہد کے گھر ہی میں سویا۔ صبح کو جب آنکھ کھلی تو زاہد کو اپنے سرہانے پایا۔
’’یا ر اب اُٹھ بھی جاؤ۔ آٹھ بج چکے ہیں۔ میں تو تمہارے لئے ٹھہر گیا تھا ورنہ کب کا چھاؤنی جاچکا ہوتا‘‘ زاہد نے کہا۔
’’آٹھ بج گئے‘‘ میں نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’جی صاحب آٹھ بج گئے ہیں۔ ناشتہ کرلو ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ میں جا رہا ہوں۔ چھاؤنی میں ملاقات ہوگی‘‘زاہد نے کہا اور بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
میں نے اُٹھتے ہی باتھ روم کا رُخ کیا۔ ہاتھ منہ دھو کر جب میں واپس آیا تو زاہد کی ماں کمرے میں موجود تھی۔
’’چچی جان آپ نے کیوں تکلیف کی ۔ مجھے بلا لیا ہوتا‘‘ میں نے کہا۔
’’کوئی بات نہیں بیٹا۔ تم ناشتہ کر لو۔ ٹھنڈا نہ ہوجائے۔‘‘چچی نے کہا۔
’’جی چچی جان‘‘ میں نے کہا اور کرسی پر بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگا۔
’’زاہد کہہ رہا تھاکہ تم کمانڈو بن گئے ہو‘‘ چچی نے کہا۔
’’ابھی نہیں بنا چچی۔ آج سے ٹریننگ شروع ہوگی۔ چھ ماہ ٹریننگ جاری رہے گی‘‘میں نے کہا۔
وہاں سے میں چھاؤنی گیا۔ زاہد سے ملنے کے بعد میں اپنے انسٹرکٹر کے پاس گیا۔ زاہد نے کچھ دن ٹھہر جانے کی بہت منت کی۔ لیکن یہ میرے ہاتھ میں نہ تھا۔
پھر ہماری انتہائی سخت ٹریننگ شروع ہوگئی۔ جب ٹریننگ ختم ہوئی تو میں ایک کمانڈو بن چکا تھا۔ اس سخت ٹریننگ سے میں نے بہت کچھ سیکھا تھا۔
ooo
حالات انتہائی خراب تھے۔ جنگ کا شدید خطرہ تھا۔ ہمیں ایک مشن پر بھارت بھیجا جا رہا تھا۔ میرے ساتھ چار کمانڈو اور تھے۔ ہم سب نے اکٹھے ہی ٹریننگ حاصل کی تھی۔ اس وقت ہم ایک سرحدی علاقے میں موجود تھے۔ ہمارے ساتھ ہمارا انسٹرکٹربھی موجود تھااُنھوں نے ہمیں تمام نقشہ رٹایا۔تمام علاقے، راستے جہاں سے ہمیں گزر کر بھارت میں پہنچنا تھا۔ میرے ساتھ کیپٹن نور،کیپٹن فاروق،کیپٹن طاہر اور کیپٹن خالد تھا۔ ٹریننگ کے دوران ہم نے ایک ساتھ بہت اچھا وقت گزارا تھا۔
ابھی ہمیں اپنے گائیڈسے ملنا تھا۔ جس نے ہمیں سرحد پارکروانی تھی۔ کچھ دیر بعد ایک آدمی اند ر داخل ہوا۔
یہ اصغر تھا۔ ہماراگائیڈ۔۔۔۔
اُس نے سلام کیا اور انسٹرکٹر سے ہاتھ ملایا۔ ہم نے مسکرا کر آنکھوں سے ہی اُس کے سلام کا جواب دیا۔
ایک کمانڈو اور جاسوس کو سب سے پہلے یہی بات بتائی جاتی کہ بلا وجہ کوئی بات نہیں کرنی اور سب سے پہلے اپنے گائیڈ پر شک کرنا ہے۔ شاید وہ ڈبل ایجنٹ ہو۔
اصغر ایک منجھا ہوا گائیڈ تھا۔ اُسے معلوم تھا کہ نہ ہی اُس نے ہم سے کچھ پوچھنا ہے اور نہ ہی ہم اُسے سہی کچھ بتائیں گے۔
کچھ دیر بعد ہم سرحد کی طرف جاررہے تھے۔ عشاء کی نماز ہم نے سرحدی چیک پوسٹ پر ہی ادا کی تھی۔ایک تاریکی سی ماحول پر چھائی ہوئی تھی۔ہم آہستہ آہستہ آگے بڑھے چلے جارہے تھے۔ سامنے پاکستانی اور بھارت کی بارڈر دکھائی دے رہی تھی۔
میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اور میں دل ہی دل میں اﷲ کے نام کا ورد کر رہا تھا۔ میرے خیال میں میرے ساتھیوں کی حالت بھی کچھ مختلف نہ تھی۔کچھ دیر بعد ہم سرحد پار کر چکے تھے۔ سر حد پار کرنے کے بعد ہم تیزتیز چل رہے تھے۔ یہ بھارت کا ایک سرحدی علاقہ تھا۔
کمانڈو مشن مکمل ہوتے رہتے تھے۔ اسلئے ہمیں بھارتی زبان، ثقافت،رہن سہن، لباس اور اسطرح کی دوسری چیزوں کی مکمل ٹریننگ دی جاتی تھی۔ ہمارے لباسوں کی خفیہ جیبوں میں سلنسر لگے ریوالور اور بھارتی کرنسی موجود تھی۔ ابھی تک ہمیں کسی خطرے کا سامنا نہیں ہوا تھا۔ چونکہ اِس مشن کا اُنچارج میں تھا۔ اس لئے سب سے زیادہ ذمہ داری مجھ پر تھی۔ میری چھوٹی سے غلطی میرے باقی چار ساتھیوں کو بھی لے ڈوب سکتی تھی۔کافی دیر ہم چلتے رہے۔ اصغر ایک پرانا گائیڈ تھا۔ وہ ہمیں ایسے راستوں سے لے کر جارہاتھاجہاں پر آبادی اور فوج کا خطرہ کم تھا۔میں دل ہی دل میں دعا مانگ رہا تھا کہ کوئی گشتی پارٹی اس طرف نہ آئے۔ ہمیں چار گھنٹے ہو چکے تھے۔ چلتے ہوئے یہاں سے ایک کھیتوں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا جس کی اُونچی اُونچی گھا س میں ہم چھپ کر رہ گئے تھے۔آسمان پر ستاروں کا وسیع سلسلہ رات کے اس بھیانک سناٹے میں ہمارا تعاقب کر رہا تھا۔یہ خزاں کا آغاز تھا۔ اُونچی اُنچی گھاس کے اس وسیع سلسلے میں ہم بہت آرام سے چل رہے تھے۔تاکہ کوئی آواز پیدا نہ ہو۔
تقریباً رات کا ایک بجنے والا تھا۔ گھا س کا وہ سلسلہ ہم بہت پیچھے چھوڑ آئے تھے۔اصغر کے مطابق مزید ایک گھنٹے میں ہم ایک گاؤں تک پہنچ جائیں گے۔اصغر کے جدا ہونے کا وقت آگیا تھا۔چاند کی انتہائی مدھم روشنی میں اُس کی آنکھ کا موتی تیرتا صاف نظر آرہا تھا۔
’’رب راکھا‘‘ کہہ کر وہ تیزی سے دوسری طرف چل دیا۔
اب آگے کا سفر ہم نے اکیلے طے کرنا تھااور یہ ہم سب کی اپنی صلاحیتوں پر منحصر تھا۔ اور یہی ہی وہ پوائنٹ تھا جہاں سے ہم سب نے بھی جدا ہونا تھا۔ میں اپنی اشک بھری نظروں کے ساتھ اپنے ساتھیوں سے بغلگیر ہوا۔ اب ہم نے ایک جگہ ملنا تھا۔
ooo
رات کے تین بج رہے تھے ۔ ہمیں سفر شروع کئے تقریباً سات گھنٹے گزر چکے تھے۔ میں تقریباً بنجر زمین کے ساتھ ایک چھوٹی سی پکڈنڈی پر چل رہا تھا۔ مجھے اپنے ساتھیوں کی طر ف سے بہت فکر تھی۔ ہم نے لدھیانہ شہر میں ایک دوسرے سے ملنا تھا۔
یہ کھیتوں کا ایک وسیع سلسلہ تھا جو آگے جا کر لاشانی گاؤں سے مل جاتا تھا۔ میرا ارادہ اس گاؤں سے بس کے ذریعے کپور تھلہ کی طرف جانے کا تھا۔ جہاں سے آگے جالندھر اور پھر لدھیانہ جانے کا راستہ تھا۔سات گھنٹے سے مسلسل چلتے میری ٹانگوں میں شدید درد ہونے لگا تھا۔ تقریباً ڈیڑھ میل میں نے اور فاصلہ طے کیا تھا کہ پیچھے سے ’’ہالٹ‘‘ کی زور دار آواز سنائی دی۔ ایک سنسنی سے میرے جسم میں پھیلتی چلی گئی۔
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ٹارچ کی روشنی میرے منہ پر پڑی۔ میری آنکھیں کچھ وقت کیلئے چُند ھیاں سی گئیں۔ فوجی مجھے اپنی طرف بڑھتے دکھائی دیے۔
’’کون ہوتم‘‘ اُن میں سے سب سے آگے والے نے کڑکدار لہجے میں کہا۔
’’آنند ہوں مہاراج‘‘میں نے بظاہر ڈرے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’کون آنند‘‘ اُس فوجی نے اگلا سوال کیا۔
’’مہاراج۔۔ اشوک ساند ر کا ملازم ہوں‘‘ میں نے کپور تھلہ کے مہا سبھا لیڈر کارٹا رٹایا نام دُھرا دیا۔
’’اشوک ساند ر کے ملاز م ہو‘‘ فوجی نے شکوک نے بھرے لہجے میں کہا۔
’’جی مہاراج‘‘ میں نے کہا۔
’’کدھر سے آرہے ہو‘‘ فوجی نے اگلا سوال کیا۔
’’مہاراج ڈیرہ بابانانک سے آرہا ہوں‘‘ میں نے قریبی گاؤں کا نام لیتے ہوئے کہا۔
’’کیا کرنے گئے تھے وہاں‘‘فوجی نے اگلا سوال پوچھا۔
’’مہاراج جی میرا بھائی وہاں رہتا ہے۔ جو بہت سخت بیمار ہے۔ ابھی اُس کی اچانک طبیعت خراب ہوگئی ہے۔ میں گاؤں لاشانی جا رہا تھا۔ وہاں سے کسی بس میں بیٹھ کر اشوک صاحب کے پاس جاؤں گاتاکہ دوائیوں کا بندو بست ہوسکے‘‘میں نے کہا۔
’’اُوئے سالے ۔جھوٹ بولتا ہے‘‘ فوجی نے انتہائی سخت لہجے میں کہا۔
’’نہیں مہاراج میں سچ کہہ رہا ہوں‘‘ میں نے گھگھیاتے ہوئے کہا۔
’’سالے تم دونو ں کیا میری شکل دیکھ رہے ہو۔ پکڑو اور لے جاؤ اسے کرنل شرما کے پاس۔ وہی اس سے تفصیل پوچھے گا‘‘اُس فوجی نے سخت لہجے میں اپنے پیچھے ٹھہرے دونوں فوجیوں سے کہا۔
’’شما کیجئے مہاراج۔۔۔ شما کیجئے۔ میں غریب ہوں مہاراج‘‘ میں نے عاجزی سے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔ کیوں کہ میں ابھی سے کھیل شروع نہیں کرنا چاہتا تھا۔
’’غریب ہوں۔ تیرے غریب کی ایسی کی تیسی۔ تیری غربت تو کرنل شرما نکالے گا‘‘ فوجی نے انتہائی سرد لہجے میں کہااور ساتھ مجھے ایسے لگا جیسے میرا پیٹ پھٹ گیا ہو۔ فو جی نے زور دار مکہ میرے پیٹ میں مارا تھا۔ پھر دوسرے فوجی نے آگے بڑھ کر میری ران پر لات ماری تو میں نیچے گر گیا۔پھر تو انھوں نے لاتوں کی بارش کردی۔ اچانک ایک زور دار لات میری پسلیوں پر پڑی تو مجھے ہوش آیا۔میں نے فوراً بے ہوش ہونے کی ایکٹنگ شروع کر دی۔
’’ہونہہ۔۔سالا بے ہوش ہوگیا اتنی جلدی۔۔۔‘ ‘ فوجی نے کہا ’’رامیش ۔۔اسے اُٹھا کر گاڑی میں پھینکو اور ہاں کرنل شرما سے کہنا یہ سرحد کی طرف سے آرہا تھا۔ ٹھیک ہے سمجھ گئے ہو نہ‘‘
’’یس سر۔ بالکل سمجھ گیا‘‘ رامیش نے کہا۔
میں سمجھ گیا کہ یہ اپنی دانست میں مجھ پر جھوٹا کیس بنا کر پیش کرتے تاکہ ہیڈ کوارٹر کو رپورٹ ملے کہ یہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ لیکن اب مجھے ہر حال میں یہا ں سے نکلنا تھا۔ کیوں مجھے معلوم تھاکہ جب میری سنائی گئی تمام کہانی پر تفتیش ہوگی تو ان فوجیوں کی بات خود بخود سچی ہو جائے گی۔ مجھے اُٹھا کر کچھ دور ٹھہری جیپ کی پچھلی سیٹ کے درمیان پھینکا۔ میرا ہاتھ کر تے کی خفیہ جیب کی طرف رینگ گیا۔ اُن کا افسر اور رامیش آگے والی سیٹ پر بیٹھ گئے جبکہ ایک فوجی پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ میں نے آہستہ سے ہاتھ باہر نکالا اور سائیلنسر لگے ریوالور کا رُخ پچھلی سیٹ پر بیٹھے فوجی کی طرف کر دیا۔ فوجی بڑے اطمینان سے بیٹھا تھا۔ اُس کے ذہن کے کسی گوشے میں یہ بات نہ تھی کہ میں ہوش میں ہوں۔ جیپ اب آہستہ آہستہ چلنا شروع ہوگئی تھی۔
’’ٹھک ‘‘کی آواز کے ساتھ ہی فوجی کی ہلکی سی چیخ سنائی دی۔
’’کیا ہوا‘‘ اگلی سیٹ پر بیٹھے دونوں فوجیوں نے بیک وقت کہا۔ فوجی نے جیپ کو بریک لگادی۔ جیسے ہی جیپ رُکی میں تیزی سے اُٹھا اورریوالور سیدھا کیا۔’’ٹھک ٹھک‘‘ کی آوازوں کے ساتھ ہی ایک گولی آفیسر کے سر میں لگی اور ایک رامیش کے۔ میرے سب نشانے بالکل ٹھیک لگے تھے۔ کچھ دیر بعد وہ بھی ٹھنڈے پڑ گئے۔ میرا ارادہ قطعاً انھیں مارنے کا نہیں تھا۔
لیکن کرتا بھی تو کیا۔ ان کے ساتھ جاتا تومشن کے آغاز ہی میں زندگی بھر کی جیلیں، تشدداور آخر میں ایک چھٹانگ سیسہ۔۔ اور بھاگنے پر شروع ہی سے اپنے خلاف مضبوط ثبوت۔۔۔
میں نے اُٹھ کر کھڑکی کھولی اور باہر آگیا۔ کچھ دور مجھے کھیتوں کا ایک سلسلہ نظر آیا۔ میں نے دونو ں لاشیں پچھلی سیٹ پر پھینکی اور جیپ سٹار ٹ کر کے اُسی سلسلے کی طر ف بڑھتا چلا گیا۔
ooo