دل تو بچہ ہے جی!

سحرش سحر

محفلین
"دل کا کیا ہے، بچہ ہے جی! " دل کے ہاتھوں مجبور کسی منچلےکا یہ مندرجہ بالا قول، بے شک بہت معصوم' بہت بی با معلوم ہوتا ہے مگر اس معصومیت کے پردے کے پیچھے ، اس پاجی دل کی وہ حرص، حوس، شیطانیت، شرارت، ضد، ، کمینگی وغیرہ وغیرہ وغیرہ چھپے ہیں کہ استغفراللہ ......
اس کی مخفی صلاحیتوں سے ہر بندہ بشر آگاہ ہے ۔اس لیے اس ضمن میں یہ تحریر پڑھ کر زیادہ حیران و پریشان ہونے کی یا مجھے لعنت ملامت کرنے کی کوئی بھی نا مناسب قسم کی کوشش بے جا بلکہ سراسر زیادتی ہوگی ۔
گمان غالب ہے کہ اس دنیا میں آج تک جتنے بھی کار ہائے نمایاں اپنے انجام سے ہمکنار ہوئے ہیں ۔ ان میں اس ضدی بچہ کی سو فیصد ضد شامل ہوتی ہے ۔
ابن انشاء فرتاتے ہیں کہ کیا ضرورت تھی کولمبس کو کہ اس نے امریکہ دریافت کیا خود تو چلا گیا مگر اس مصیبت کو ہمارے گلے میں ڈال گیا ۔
" بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی "
حالانکہ قصور کولمبس کا بالکل نہیں......وہ بالکل بے گناہ ہے ۔ سارے فساد کی جڑ تو اس کا شریر، ندیدہ دل تھا اگر یہ ندیدہ اسے نہ اکساتا تو اسے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر امریکہ ہی دریافت کرنے کی ضرورت کیا تھی ۔ وہ تو ویسے بھی سپین میں محنت مزدوری کر کے روکھی سوکھی کھا کر وقت گزاری کر سکتا تھا بلکہ کر رہا تھا ۔
مجبور و بے قصور کولمبس صاحب کو تو چھوڑیں آج بھی کئی مشتاق اہل دل 'سیاح بن کر یورپ و امریکہ کے رہے سہے غیر دریافت شدہ مقامات کو دریافت کرنے کے لیے بے تاب بیٹھے ہیں ۔ کولمبس سیزن ٹو کے ہیرو بننے کے لیےبہت ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں مگر .....ظالم سماج کے بنائے گئے، پیچیدہ امیگریشن قوانین کی بھول بھلیاں ان کے اعلٰی مقاصد کی تکمیل کی راہ میں حائل ہیں اور جو با ہمت ....با حوصلہ مرد بچے اس مشنِ نا ممکن کو ممکن بنا کر یورپ و امریکہ میں عرصہ دراز سے سیاحت و دریافت میں مصروفِ حرکت وعمل ہیں وہ اب لوٹ آنے کو تیار ہی نہیں، ضدی کہیں کے ............
"عشرتی! گھر کی محبت کا مزہ بھول گئے
کھا کے لندن کی ہوا عہد وفا بھول گئے
پہنچے ہوٹل میں تو پھر عید کی پرواہ نہ رہی
کیک کو چکھ کے سویوں کا مزہ بھول گئے
تو جناب اس گِلے کے جواب میں میرے پیارے پردیسی سارا ملبہ اس بے چارے، معصوم پر ڈال دیتے ہیں کہ اس بچہ کا دل اب وہاں لگ چکا ہے ۔

دل کا کیا کرے صاحب
ہم انھیں پہ مرتے ہیں
جرم بس ، اتنا ہے
ہم ان سے پیار کرتے ہیں
بھئ! اپنے دیس نہیں آنا تو نہ سہی ۔ ۔ ۔ ۔ مت آئیں ............. دل کی سنتے جائیں .... ان ن ن ن سے پیار کرتے جائیں ۔
""ویسے کولمبس اپنےبچہءِ دل کو بہلا پھسلا کر اپنے دیس لوٹ آیا تھا ۔ """ (سرگوشی)
جناب اس بچہ کو قابو کرناہر کسی کے بس کا کام نہیں ۔ یہ کمینہ بڑے بڑوں کوتگنی کا ناچ نچا دیتا ہے ۔ پردیسیوں کوتو چھوڑیں اس کی شرارتوں نےاپنے دیس کے باسیوں کی بھی ناک میں دم کر رکھا ہے بلکہ بڑے بڑوں کو رسوا کر کے رکھ دیا ہے۔
آج کل بڑی تنقید ہو رہی ہے کہ میرے ملک کے کئی کئی عظیم محترم لیڈر ران صاحبان اربوں روپے کھا گئے ہیں بلکہ ڈکار گئےہیں ۔ یہ دیکھیں نا!
"ان مظلوموں کی ابھی، اوووور دھلائی ہوگی
یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی"
کتنی غلط بات کا پرو پیگنڈہ ہورہا ہے نا! توبہ توبہ....
بھئی! اس اصل الا صل نکتہ پر کوئی غور ہی نہیں کرتا کہ یہ سب اس کمبخت بچہ کے اکسانے پر ہی کیا گیا ہے ۔
کیوں جی! ذرا اک لمحہ کو سوچیں .......کہ کسی کے انتہائی ذاتی قسم کے وائے فائے کا کوڈ آپ کے ہاتھ لگ جائے توآپ کیا کرتے ہیں ....؟؟؟ جی بالکل! یہی کچھ ہمارے محترم لیڈرز بھی کرتے ہیں ۔ سامنے خزانہ ہے ....سیف ہے.... اس کا کوڈ ( source) معلوم ہے..... تو بس کسی دیوار کی آڑ میں ...کسی گاڑی کے پیچھے سے .....کہیں کھڑے..... کہیں بیٹھے....چھت کے اوپر یا اس کے نیچے..... وائے فائے یا ملکی خزانہ کے لالی پاپ سے اس بچہ کو بہلاتے جاؤ، کھلاتے جاو، پلاتے جاؤ ..... ۔
اس حریص کی حرص کی بنا پر انسان کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا ۔
جناب من! دفتر کی مصروف چہل پہل میں اچانک سےکوئی آپ کی خدمت میں من وسلوی کی مانند، بے دام لیے مٹھائی کا ڈبہ یا پھلوں کا ٹھوکرا لے کر نازل ہو جائے تو اس چٹورے کی خوشی دیدنی ہوتی ہے ۔ رال ٹپکنے لگتی ہے اور اگر تقریب ولیمہ ہو تو ............یا اللہ خیر................. اس بچہ کو کوئی قابو کرے ۔ ۔ ۔ کوئی تو سمجھائے ....یہ پاگل کسی کے کہے میں نہ آوے ۔ ۔ ۔۔ بچہ ہے ۔ ۔ ۔ ۔نا سمجھ ہے جی ۔ ۔ ۔
کچھ دنوں پہلے ایک تقریب میں کھانے کی پلییٹیں کم پڑ گئیں تو صاحب کیا تھا اس چٹورے،حریص کے ہاتھوں مجبور کئی بے چاروں نے بریانی اور حلوہ کی دیگوں میں ہاتھ ڈال ڈال کر لذیذ بریانی و حلوہ کی مٹھیاں بنا بناکراس بھوکے کا منہ بند کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ مان ہی نہیں رہا تھا ۔ شکر ہے حلوہ زیادہ گرم نہیں تھا ۔ ایک دو پھونک مارنے پر حلق تک ڈالا جا سکتا تھا ۔ بس جی! بچہ ہے.... چھوڑے جی .......تھوڑا کچہ ہے جی!
شریر تو اتنا ہے کہ اس کی شرارتوں سے ہماری پڑوسن کے گیارہ کے گیارہ بچہ نالاں ہیں کیونکہ ان کاخیال ہے کہ ان کی اماں اکثر انھیں جُل دے کر الم غلم کھلا کر گلی میں دھکیل دیتی ہے اور خود کوئی مرغن قسم کا سالن بنا کر ابا کے ساتھ مل کر کھا لیتی ہیں ۔ گرمیوں میں تو ہر دوسرے دن دونوں قیمہ کریلے بنا کر، گرم گرم روٹی کے ساتھ کلّے کلے ہی چٹ کر جاتے ہیں ۔ اس گھرانے کے دونوں بڑے بچے باورچی خانہ میں تا دیر بسی ہوئی لذیذ خوشبو کی موجودگی میں ، اس کڑاہی کی کرچن کے چشم دید گواہ ہیں جس میں قیمہ کریلے بنے تھے ۔ ادھر والدین اپنی بچگانہ شریر حرکت پر ایک دوسرے کو خوب داد دیتے ہیں کہ ان نگوڑوں کی غیر موجودگی میں انھیں سکون کے چند لمحے تو میسر آئے مگر ان چند لمحوں میں بھی وہ ایک دوجے کو پیار سے ایک نوالہ کھلا نے کی بھی غلطی نہیں کرتے بلکہ دونوں جلدی جلدی اپنے منہ میں نوالہ پر نوالہ ٹھونستے ہیں، کیونکہ انھیں ہر پل یہی کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کہیں بد بخت رنگ میں بھنگ ڈالنے کو نہ آن دھمکے ۔
بھئ! بچہ تو بچہ ہوتا ہے اس سے کسی بھی قسم کی بدتمیز بات یا حرکت کی توقع کی جا سکتی ہے جسے عام طور پر بچگانہ حرکت قرار دے کر درگزر کر دیا جاتا ہے ۔
جناب! ابھی کل ہی، ابا جان جو کہ خاصے تگڑے ہیں اور شوگر کے مریض ہیں ۔ فریج میں سے کیک نکال کے چھپکے چھپکے کھائے جا رہے تھے چونکہ ابا تھے اسلیے ا تنا ہی کہہ سکی کہ "تمام دوائیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں ۔ طبیعت زیادہ خراب ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کریں " بس یہ جا وہ جا ۔ کیک کے لیے روتے، چیختے، مچلتے اپنے بچہءدل کو لے کر کھسیانے ہو کر باہر لاؤنج کی طرف نکل گئے ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں محترمہ دادی اماں کی غیر موجودگی میں دادا حضور ہاتھ میں تسبیح سنبھالےبیٹھے ہیں اور ایک رسالہ کھول کر ایک صفحہ کو انہماک سے گھورے جا رہے ہیں ۔ اصل میں بزرگوار، اڑوس پڑوس کےممالک کی اداکارا ؤں کی ہوشربا قسم کی عریاں و نیم عریاں تصاویر سے مزین صفحہ شوبز کو بنظر غائر دیکھے جا رہے تھے ان کے تاثرات ظاہری سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ ان کا بچہءِ دل بڑا خوش ہے اور خوشی سے تالیاں بجا رہا ہے ....سیٹیاں مار رہا ہے ...ناچ رہا ہے.....مگر ان کی ساری خوشی ابا جان کو پاس کھڑے دیکھ کر کافور ہوگئی کیونکہ انھیں موقع واردات پر ہی رنگے ہاتھوں دھر لیا گیا تھا ۔
ابا جان کو دیکھ کر بزرگوار منہ دوسری جانب موڑ کر انجان بن کر پھر سے تسبیح میں مصروف ہو گئے مگر جیسے ہی ابا جان وہاں سے کھسک گئے تو بزرگوار پھر سے اس صفحہ شوبز کے سحر میں گرفتار ہو گئے ۔
ایسی الجھی نظر ان سے ہٹتی نہیں
دانت سے ریشمی ڈور کٹتی نہیں
عمر کب کے برس کی سفید ہو گئی
کالی بدری جوانی کی چھٹتی نہیں
واللہ یہ دھڑکن بڑھنے لگی ہے
چہرے کی رنگت اڑنے لگی ہے
ڈر لگتا ہے عشق کرنے میں جی!
دل تو بچہ ہے جی!
تھوڑا کچا ہے جی!
بچہ نے پھر سے تالیاں بجائیں اور محترم بزرگوار، دادا جان بلکہ "دادا جوان " کو شاباش دی کہ واہ جوان! خوب اداکاری کی ۔
، سو کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
قارئین کرام! اس بچہ کی مندرجہ بالا کار گزاریوں کے بارے میں جاننے کے بعد اس معصوم بچہ کو ہراساں کرنے یا مارنے پیٹنے یا کسی بھی قسم کی سزا دینےسے پہلے اتنا جان لیں کہ اس سزا کا مستحق یہ اکیلا نہیں بلکہ اس کا بڑا بھائی یعنی " دماغ" بھی اس میں برابر کا شریک ہے ۔ وہی تو اس کا سہولت کار ہے اس بچہ کی محبت میں وہ اکثر و بیشتر اس کی کسی بھی بُری،یا اچھی ، بڑی یا چھوٹی خواہش کو چست عملی پاجامہ پہنانے میں اس کا بھر پور ساتھ دیتا ہے ۔
لہذا! ان دونوں شریر بھائیوں کی"مار نہیں پیار" کے اصول کے تحت تربیت کرنی ہوگی ۔ انھیں بے لگام نہیں چھوڑنا ۔ ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کے آگے ہتھیار نہیں ڈالنے ورنہ یہ کمینہ بچہءِ دل اپنے شاطر بڑے بھائی "دماغ " کے ساتھ مل کر، آپ کو کہیں ، منہ دکھانے کے قابل نہیں رکھ چھوڑے گا ۔ سو ہوشیار رہیں اور اس بچہ کو قابو میں رکھیں ۔
سحرش سحر
 
آخری تدوین:
Top