سید شہزاد ناصر
محفلین
یادش بخیر۔ برس بھر پہلے کی بات ہے کہ ایک روز وسیمؔ راشد (ایڈیٹر اردو، ہفت روزہ چوتھی دنیا) کا فون آیا ’’سر! آپ دلی والے ہیں، دلی پر لکھتے بھی رہتے ہیں، ہمارے اخبار کے لیے بھی کچھ لکھئے …‘‘۔ ’’چوتھی دنیا میں تو دلی پر مضامین شائع ہو رہے ہیں، اب میں کیا لکھوں؟‘‘ … ’’نہیں سر! آپ بھی لکھئے۔ میں آپ کو کیا بتاؤں، ہر ایک کا اپنا انداز اور اسلوب ہوتا ہے۔ آپ کچھ ایسا لکھئے ، جس میں دلی والوں کی تہذیب اور معاشرت نظر آئے۔ دلی کی تاریخ اور گلی کوچوں پر تو مضامین شائع ہوتے ہی رہتے ہیں۔ پلیز ضرور لکھئے اور ضرور لکھئے۔‘‘…’’اچھا کوشش کروں گا۔‘‘ نیم رضا مندی کا اظہار۔ میرا وطیرہ ہے کہ طلب کرنے پر ہی لکھتا ہوں، از خود کبھی کوئی تحریر اشاعت کے لیے نہیں بھیجی۔ چند ماہ ہوئے وسیمؔ کا پھر فون آیا کہ’’ دلی پر جو مضامین شائع ہو رہے تھے، اب وہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔ اب تو آپ ہی لکھیں گے، دلی کی تہذیب اور دلی والوں پر مضامین قسط وار شائع کروں گی۔‘‘ وسیم کے لہجہ میں اصرار کے ساتھ شدید خواہش بھی تھی، لہٰذا اس خواہش و ایما پر خود کو لکھنے پر آمادہ کیا۔
خدا کے فضل و کرم سے بلا فصل دلّی میں تیرہویں پشت ہے۔ دلی کے تعلق سے بزرگوں نے جو کچھ بتایا، سنا، پڑھا، دیکھا اور حافظہ میں جو بھی محفوظ ہے، وہ قلم و قرطاس کے سپرد کرنا چاہتا ہوں، تاکہ نئی نسل جان لے کہ دلی والے اپنی تہذیب، اد ب و آداب، رہن سہن، رفتار و گفتار، رسم و رواج، خور د و نوش اور میلوں ٹھیلوں پر کیوں آنسو بہاتے ہیں۔ مغربی تہذیب کے غلبہ نے کھرے کھوٹے کی تمیز مٹا دی۔ تفصیل میں نہ جاتے ہوئے اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ ان دنوں ’’پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا‘‘ کے وسیلے سے سبھی دیکھ رہے ہیں کہ اب سماجی شعور کا فقدان ہے۔ آدمی انسانیت کو ترک کرکے حیوانیت کی جانب تیزی سے بھاگ رہا ہے۔ ’’معاش‘‘ کی دوڑ نے معاشرے کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ وہ دن ہوا ہوئے، جب دلی کے گلی کوچوں میں پلنے والے جانور بھی ’’انسان نما‘‘ نظر آتے تھے۔ میرؔ نے بلا وجہ نہیں کہا تھا کہ ’’جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی‘‘۔ اس لیے آج ضروری ہو گیا ہے کہ قلعہ معلی اور اجڑے دیارِ شاہجہان آباد کے قصۂ پارینہ کو وقتاً فوقتاً دہرایا جائے، تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
دلّی جب بسنا شروع ہوئی تو آسمانی مخلوق مکیں ہوئی نہ پاتال سے ابھر کر کوئی اس شہر کے گلی کوچوں کا باسی بنا۔ اطراف اور قرب و جوار کے رہنے والے یہاں آکر رہنے اور بسنے لگے اور اس دلی نے مشفق ماں کی طرح انہیں لگے لگایا، اپنی گود میں بٹھایا۔ صدیوں سے دلی باہر والوں کو اپناتی رہی۔ اس کا وسیع دامن تو آج بھی پہلے کی طرح وا ہے۔ دلی میں دو تین پشتیں گزارنے والے دلی کو نہ سمجھ سکتے ہیں، نہ ان کے دل میں جذبۂ ہمدردی پیدا ہو سکتا ہے، نہ قدرو قیمت کا احساس، عقیدت تو بس دور کی بات ہے۔ اس کے لیے کم از کم ساتھ آٹھ پشتیں تواتر کے ساتھ گزریں تبھی سمجھ میں آئے گا کہ دلی کو کیوں ہندوستان کا دل اور شہروں کی ملکہ کہا گیا ہے۔ ہندوستان میں ’’تہذیبی شہر‘‘ اور بھی ہیں۔ لکھنؤ، حیدرآباد اور پھر بھوپال وغیرہ، سبھی کسی نہ کسی طرح دلی کی تہذیب سے متاثر رہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ’’علاقائی محبت‘‘ کے جوش میں دلی کا ذکر آنے پر زبان گنگ ہو جاتی ہے۔ بہرحال، اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ۔ دلی والوں نے اپنا راگ الاپا، لیکن کبھی کسی کو کمتر اور حقیر نہیں سمجھا۔ یہ دلی والے ہی تھے، جو اودھ اور لکھنؤ کے درباروں کی زینت بنے۔ دلی کے دستکاروں اور ہنرمندوں نے دوسرے چھوٹے بڑے شہروں میں جا کر اپنے ہنر اور فن کا مظاہرہ کیا اور یہ بتا دیا کہ دلی والا کیسا ہی ہو، کسی حال میں خالی نہیں ہوتا۔
اپنے مضمون کے آغاز میں دلی کے دلدادہ، دلی کالج کے شعبۂ تاریخ کے سابق استاد سید حسن کے ایک مضمون کا اقتباس بطور تبرک ملاحظہ فرمائیں :’’اگر کبھی حسنِ اتفاق سے آپ کو کوئی اصل دلی والا مل جائے اور آپ اس سے اس کی دلی کا حال پوچھیں ، جو ماضی کے دھندلکے میں تیزی سے کھوتی جا رہی ہے، تو وہ یا تو ایک پھیکی مسکراہٹ سے، جس میں ہزاروں حرماں نصیبی گھلی ہوں گی، آپ کے سوال کو ٹال جائے گا یا پھر میر تقی میرؔ کے شعر
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کر ویراں کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
کو دہراکر خاموش ہو جائے گا۔ اگر آپ کی طرف سے کچھ ذرا زیادہ ضد ہوئی تو وہ نامِ خدا لے کر ایک دفتر کھول کر بیٹھ جائے گا۔ آپ کھوئیں یا نہ کھوئیں، مگر وہ خود یادوں کے ہجوم میں گم ہو جائے گا۔ دبی دبی سسکیوں کے جلو میں آڑے، ترچھے، تیکھے، پیارے پیارے کچھ اُداس، کچھ قہقہوں میں تیرتے ہوئے نقوش ابھرتے اور مٹتے رہیں گے۔ اور اگر آپ نے حساس دل پایا ہے تو عرصے تک اس بیتی ہوئی دلی کی یاد، جس میں پرانی قدروں میں رچی ہوئی زندگی تھی، وضع داری کے خمیر میں گندھی ہوئی شوخی تھی، انسان کو انسان سمجھنے کی صلاحیت تھی، عرصہ تک چٹکیاں لیتی رہیں گی۔ اس میں برائیاں بھی تھیں، کس میں نہیں ہوتیں، مگر وہ کبھی دَرّانہ بے نقاب سامنے نہیں آتیں، بلکہ رخ کی بدنمائی کو ہزار رنگین پردوں میں چھپائے ہوتیں۔ ممکن ہے آج کی تیز گام کاروباری، دردمندی سے ناآشنا دلی کے لیے پرانی دلی کی یہ تصویر نقشِ باطل کی حیثیت رکھتی ہو، مگر دلی کے بچے کھچے پروانوں کے لیے ’’یہ شمع خموش‘‘ ابھی اسی طرح روشن ہے۔
تیمور کی اجاڑی ہوئی دلی بسنے کو تو بسی، مگر اگلی سی بہاریں پھر لوٹ کر نہ آئیں۔ لودی حکمرانوں نے جب الٹی ہوئی بساطِ سیاست پھر سے جمائی تو پیدل نے شاہ کو مات دی۔ دلّی رانی سے باندی بنی اور آگرہ باندی سے رانی اور پھر مدتوں تک دلی باندی ہی رہی، اگرچہ باندی خاص ہی کیوں نہ سہی۔ مغلوں کے آنے سے دلی کی کچھ آس بندھی، اگر اپنوں نے بے مروتی دکھلائی ہے تو شاید بدیشی ہی اسے اپنائیں، مگر بابر نے بھی پیٹھ دکھلائی اور آگرہ کا ہو بیٹھا۔ سوری حکمرانوں نے کچھ آنسو پونچھے، مگر تقدیر کی ماری دلی کو یہ سہاگ زیادہ دنوں تک نہ پھلا۔ بساط پھر پلٹی، مغلوں کا سورج بھی گہن سے نکلا۔ اس بار ہمایوں نے پچھلی سرد مہریوں کو التفات میں بدلنا چاہا، مگر پانسہ الٹا پڑا۔ وہ خود کو دلی کی خاطر ہار بیٹھا۔ اکبر کو باپ کے مرنے کے بعد جب اندرونی اور بیرونی حریفانہ چشمک سے فرصت ملی تو دادا کی چوکھٹ آگرہ سے جا لگا۔ بابر نے جو کچھ آگرہ کے لیے کرنا چاہا ہوگا، اس نے کر دکھایا۔ اکبر نے آگرہ کو اکبر آباد بنایا تو آسمان سے جنت اتار کر اس کی گود میں لا ڈالا۔ جمنا کی لہریں خود اپنے شوخی حسن سے شرمانے لگیں۔ جہانگیر باپ کے نقشِ قدم کو کب چھوڑنے والا تھا، جب تک جیا آگرہ کا بنا رہا۔ شاہجہاں کی زندگی کے بہترین سال بھی یہیں گزرے۔ ممتاز کی موت نے اسے آگرہ سے کچھ بد دل سا کر دیا، مگر چلتے چلاتے تاج محل سا تحفہ آگرہ کو دے کر آیا۔ نظر انتخاب دلی پر پڑی، سوکھے دانوں پانی پڑا۔ آن کی آن میں کایا پلٹ گئی۔ حسن کچھ ایسا نکھرا، جیسے کالی بدلیوں سے چھٹ کر چاند نکل آیا۔ شاہجہاں کی دلی اگرچہ مہرولی والی دلی، یعنی اس زمانے کی دلی سے ذرا ہٹ کر بسی تو کیا ہوا، بسی تو دلی ہی کی سرزمین میں۔ اس زمانے کی نئی دلی اور آج کی پرانی دلی کو دل کھول کر سجایا گیا۔ لال قلعہ بنا، جامع مسجد بنی، چاندنی چوک، فیض بازار اور چوک سعد اللہ جیسے بازار بسے۔ بادشاہ کی نظر کیا گھومی کہ سارا عالم دلی کے قدموں سے آ لگا۔ ایک سے بڑھ کر ایک حویلی بنی۔ محل سرائیں تعمیر ہوئیں۔ باغوں کا تو کہنا ہی کیا، دلی سبز پری بن گئی۔ اہل قلم، اہل سیف، اہل دولت اور اہل حرفہ غرض سبھی کی آنکھوں کا تارا بنی۔ دولت اور فراغت نصیب ہوئی تو دلی کی معاشرت نکھر آئی۔ مزاجوں میں نفاست آ گئی۔ طبیعتیں سیر و تفریح کی طرف راغب ہوئیں۔ معیارِ زندگی اونچا اٹھا تو اچھی چیزوں کی مانگ بڑھی۔ معیاری چیزیں بننے لگیں۔ قدردانی فن میں توانائی اور بلندی پیدا کرتی ہے۔ اس میں ہُن برستی دلی میں بادشاہ کی سر پرستی اور امراء کی قدردانی نے پارس کا کام کیا۔ جو چیز چھو لی گئی، سونا بن گئی۔ اہل حرفہ کے حوصلے ایسے بڑھے کہ ہر شخص اپنے فن کا ماہر بن گیا۔ اہل حرفہ ہی پر کیا موقوف، جو جہاں تھا وہیں اس نے اپنے جوہر دکھائے۔ دلی کو خود اپنے آپ پر رشک آنے لگا۔ اہل دلی کا سر غرور سے کچھ تنّنے سا لگا۔ یہ عہدِ زریں اورنگ زیب کے دم تک رہا۔ اس کے مرتے ہی گویا مغلوں کا سارا کس بل ہی نکل گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کسی نے افسوں کرکے آلِ تیمور کی ساری حوصلہ مندی، قوتِ ارادی، فرزانگی اور مدبری سلب کر لی ہو۔ بادشاہ بالکل مٹی کے ببوے بن کر رہ گئے تھے۔ اگر اس عقدہ کو حل کرنے کے لیے سماجی نفسیات کو درمیان میں لایا جائے تو پتہ چلے گا کہ یہ کیفیت صرف مغلوں ہی کے لیے مخصوص نہ تھی، بلکہ تاریخ کے ہر دور میں جب بھی افراد یا قومیں نقطۂ کمال تک پہنچتی ہیں تو ردِ عمل شروع ہوا ہے، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کامیابی دولت اور عیش کے سامان مہیا کرتی ہے تو تن آسانی، قویٰ، کوشل اور احساسِ فرض کو سرد کرکے انحطاط کے دروازے کھول دیتی ہے۔ یہی کچھ مغلوں کے ساتھ ہوا۔
کہاوت ہے کہ ہر کمال کو زوال ہے، لیکن ہر زروال صرف تخریب کی جانب نہیں لے جاتا، بلکہ اس سے تعمیر کے سوتے بھی پھوٹتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی اس دورِ انحطاط میں بھی ہوا۔ دلی میں مغلیہ دور (شاہجہاں تا بہادر شاہ ظفرؔ) جو معاشرہ وجود میں آیا، اسے مشترکہ تہذیب، گنگا جمنی تہذیب کہا گیا اور جو بعد ازاں دلی کی تہذیب کہلائی۔ اسی دورِ انحطاط میں اس کی نشوونما ہوئی۔ اسی دورِ انحطاط میں شمالی ہند میں اردو شعر و ادب کا آغاز ہوا۔ دلی شعرو ادب کا مرکز بن گئی۔ یہاں شعر و ادب پر تبصرہ کرنا مقصود نہیں، البتہ اتنا ضرور کہیں گے کہ دلی کی تہذیب نے شعر و ادب کو اس طرح متاثر کیا کہ یہ الگ دبستان بن گیا۔
دِلّی چھ
دلی چھ‘‘ کیا ہے؟ پرانی دلی، فصیل بند شہر جسے شاہجہاں نے بسایا تھا۔ یہی دلی (شاہجہاں آباد) مغلیہ سلطنت کی راجدھانی تھی۔ دارالخلافہ … دارالسلطنت، راجدھانی، جس کے تعلق سے کہا گیا تھا
یَا مَن یُسئَا عَن دِہلی وَ رَفَعَتہَا
عَلَے البَلَادِ وَ مَا حَانَتَہ مِن شَرَاف
اِنّ البَلَاد اِمَامٌ وَہِی سِیرَۃٌ
وَ انِّہَاد دُرَّۃٌ وَالکُلَّ کالصَّدَف
ترجمہ: اے وہ شخص جو دہلی کے حالات اور دوسرے شہروں پر اس کی رفعت اور شرف کے متعلق استفسار کرتا ہے، بیشک تمام شہر باندیاں ہیں اور دلی ان کی ملکہ ہے۔ بیشک دلی کی مثال ایک موتی کی سی ہے، باقی شہر نرے سیپ ہیں۔
یہی دلی چھ ہے، جس کے مشرقی سمت میں لال قلعہ ہے اور اندرونِ شہر لال کنویں پر آخری تاجدار بہادر شاہ ظفرؔ کی چہیتی بیگم کا زینت محل۔ یہی نہیں نوابوں، راجاؤں، رئیسوں اور امیروں کی حویلی اور کوٹھیاں بھی دلی چھ میں ہی ہیں۔ شاہجہاں آباد، یعنی فصیل بند شہر کی تین سو سالہ تاریخ (1947-16 پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ جس قدر صوفی سنت، اہل اللہ، اہل علم، صاحب ہنر و فن، ادیب و شعرا، اطبا، صنعت کار اور دست کار، اہل سیاست اور مجاہدین آزادی ’’دلی چھ‘‘ میں پیدا ہوئے، اتنے دلی کے کسی حصے میں پیدا نہیں ہوئے۔ اگر تحقیق اور تلاش و جستجو سے ان سب کے کوائف جمع کیے جائیں تو علاحدہ ایک انسائیکلوپیڈیا تیار ہو جائے۔ ’’دلی چھ‘‘ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی سسرال اسی پرانی دلی کے ایک قدیم محلے، بازار سیتا رام میں ہے۔ دلی چھ کو اس بات پر بھی فخر ہے کہ راشٹرپتا مہاتما گاندھی اسی دلی چھ کے گلی کوچوں (علاقہ جامع مسجد، گلی قاسم جان، کوچہ چیلان، انصاری روڈ وغیرہ) میں دلی کے سیاست دانوں اور حریت پسندوں سے ملنے آتے تھے۔
دلی کے بزرگوں سے سنا ہے کہ قدیم دلی والوں کے لیے دلی کی فصیل کے اندر پیدا ہونا ایک اعزاز تھا۔ بیسویں صدی کے ایک دلی والے معروف شاعر، استاد رفیق رساؔ دہلوی تو فصیل کے باہر رہنے والوں کو ’’فارن کنٹری‘‘ کا سمجھتے تھے۔ دلی والوں کے روزمرہ میں کسی کو باہر والا کہہ دینا بھی حقارت تھا۔ دلی والے اپنی نشست و برخاست، رفتار و گفتار میں بہت محتاط تھے۔
مختلف مذاہب کی عبادت گاہیں بھی بڑی تعداد میں اسی ’’دلی چھ‘‘ میں ہیں۔ چاندنی چوک، کھاری باؤلی، نیا بازار، چاوڑی بازار، اجمیری بازار جیسے قدیم تجارتی مراکز بھی اسی فصیل بند شہر میں ہیں۔ یہی نہیں، سب سے زیادہ سنیما گھر بھی اسی دلی چھ میں ہیں۔
دلی کے بزرگوں سے سنا ہے کہ قدیم دلی والوں کے لیے دلی کی فصیل کے اندر پیدا ہونا ایک اعزاز تھا۔ بیسویں صدی کے ایک دلی والے معروف شاعر، استاد رفیق رساؔ دہلوی تو فصیل کے باہر رہنے والوں کو ’’فارن کنٹری‘‘ کا سمجھتے تھے۔ دلی والوں کے روزمرہ میں کسی کو باہر والا کہہ دینا بھی حقارت تھا۔ دلی والے اپنی نشست و برخاست، رفتار و گفتار میں بہت محتاط تھے۔ ہر شخص سے بلا تفریق مذہب و ملت عمر اور مرتبہ کے اعتبار سے گفتگو کرتے اور اس بات کا خاص خیال رکھتے کہ دل آزاری نہ ہو، طعن و تشنیع نہ ہو، کسی کی تحقیر نہ ہو اور کبھی کسی شخص نے کوئی ایسی بات کہی یا حرکت کی تو دلی والے چونک پڑتے اور سمجھ لیتے کہ اس کا تعلق دلی سے نہیں اور آہستگی سے کہتے ’’باہر والے ہیں جانے دو‘‘۔
اللہ اللہ ! اب یہ وقت آیا کہ فصیل بند شہر میں رہنے والوں کو یہ سننا پڑ رہا ہے کہ ’’دلی چھ‘‘ کا ہے۔ بات کہنے میں آتی ہے تو اتنا سمجھ لیجیے، دلی والے علم مجلسی میں بھی دوسروں کی نسبت آگے ہی تھے۔ حالتِ غیظ میں بھی ’’آدمیت‘‘ کو نہ چھوڑتے۔ کبھی ایسا بھی وقت آتا کہ زبان پر گالی بھی آجائے تو طبقہ اشرافیہ کی زبان پر تیرا یا تیری جیسے الفاظ نہ آتے۔ گالی دینے میں بھی ایک سلیقہ ہوتا تھا۔ دلی کے مشہور طبیب اور مدبر، مسیح الملک حکیم اجمل خاں کے دیوان خانے کے تعلق سے بہت سی باتیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ تقریر و تحریر میں اس دور کے متعدد لوگ ان کی محفل آرائیوں کے متعلق بیان کر چکے ہیں۔ حکیم صاحب کے قریبی ساتھی میر اخلاق حسین اخلاق دہلوی کے حوالے سے ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے، مسلم احمد نظامی نے یہ واقعہ سنایا تھا (اس محفل میں راقم الحروف بھی موجود تھا) کہ ’’ہر ماہ حکیم اجمل صاحب بعد نماز عشاء اپنے مخصوص احباب کے ساتھ ایک ایسی محفل ضرور منعقد کرتے، جس میں احباب بے تکلفی کے ساتھ ہنستے، قہقہے لگاتے۔ اس محفل میں کبھی نواب سائل دہلوی اور ان کے بڑے بھائی شجاع الدین خاں تاباںؔ دہلوی کا کلام سنا جاتا اور کبھی میر باقر علی داستان گو سے کوئی قصہ۔ ان دنوں محلہ سوئی گران میں ایک زردوز عمو جان تھے جو کپڑوں کے ساتھ ساتھ گالیوں میں بھی زردوزی کرتے تھے۔ حکیم صاحب نے اپنی مخصوص محفل میں انھیں بلوایا اور فرمایا ’’عمو جان! ہم چاہتے ہیں کہ تم کوئی ایسی گالی سناؤ جس میں کوئی فحش اور بیہودہ لفظ نہ ہو، ہر گالی پر ایک روپیہ انعام ملے گا۔ عمو جان کچھ دیر خاموش رہے اور پھر تیزی سے اٹھے، الٹے قدموں دیوان خانے کے دروازے تک پہنچے اور جھک کر تین بار سلام کیا اور پھر کہا ’’عرض کرتا ہوں حکیم صاحب قبلہ! حضور میں آپ کا داماد …‘‘ ۔ اتنا کہہ جوتی پہن یہ جا وہ جا۔ محفل پر سکتہ طاری ہو گیا اور سب حکیم صاحب کا منھ دیکھنے لگے۔ اگلے لمحے حکیم صاحب مسکرائے ’’ہاں بھئی گالی ہے، مہذب گالی۔ عمو جان کو لے کر آؤ۔ ملازم دوڑا، مگر عمو جان واپس نہ آئے۔
دلی کے کوچہ چیلان میں مشہور ادیب مرزا فرحت اللہ بیگ کے ایک رشتے کے بھائی تھے رضاء اللہ انجینئر اور رضاء اللہ کے ایک قریبی عزیز ذکاء اللہ ان کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ یہ گالی دینے میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ ایک دفعہ آغا حشر کاشمیری سے ان کی جوڑ چھوٹ گئی۔ اتفاق سے آصف علی بیرسٹر گالیوں کی اس بزم میں تشریف لے آئے۔ آصف علی انتہائی مہذب، شائستہ، نفیس مزاج، گالیوں اور گالی دینے والوں دونوں سے سخت متنفر۔ انھوں نے ذکاء اللہ اور آغا حشر کاشمیری دونوں سے کہا ’’بس بہت ہوگیا، اب آپ لوگ ایک دوسرے کو آخری گالی دیں اور آئندہ کے لیے توبہ کریں۔‘‘ پہلے آغا حشر کاشمیری نے گالی دی ’’آپ کی والدہ محترمہ کے شکم میں کائنات …‘‘۔ ذکاء اللہ نے ترکی بہ ترکی گالی کا جواب دیا ’’حضور آپ کی والدہ کے شکم مبارک میں میری والدہ کا شکم مبارک۔‘‘ محفل زعفران زار ہوگئی۔
دلی کے بزرگوں ہی سے سنا ہے کہ دلی کے دو مولوں کے درمیان کسی بات پر شکر رنجی ہوگئی۔ نوبت یہ آئی کہ ایک دوسرے کا منھ دیکھنا بھی گوارا نہ تھا۔ ان میں ایک مولوی صاحب اکثر اپنے مدرسے کے لیے چندہ لینے دلی سے باہر جاتے اور دلی کے مخیر حضرات سے بھی چندہ لیتے۔ مخالف مولوی صاحب نے دلی کے ایک رئیس کو رقعہ بھیجا کہ جناب والا ’’چندہ ماموں‘‘ سے ذرا ہشیار رہیے۔ کارِ خیر میں کوئی دوسرا پہلو نہ پوشیدہ ہو۔ جب مولوی صاحب چندہ لینے پہنچے تو ان رئیس نے وہ خط دکھایا۔ مولوی صاحب نے خط غور سے پڑھا اور پھر فرمایا ’’عمر میں کچھ چھوٹا ہے تو دل و دماغ کا بھی چھوٹا ہے۔ پھبتی کستے وقت یہ بھی غور نہیں کیا کہ واقعی اس میں ایک دوسرا پہلو بھی ہے‘‘۔ رئیس نے پوچھا، وہ کیا؟ فرمایا کہ ’’چندہ ماموں‘‘ کہنے والے کو یہ نہیں معلوم کہ اس پھبتی میں ’’خواہر زادگی‘‘ کی بو آتی ہے۔ میں ماموں تو وہ بھانجا ہوا نا!
اب کہاں رہ گئے ایسے دلی والے۔ زندہ ہیں ’’دلی چھ‘‘ کی پھبتی کسنے والے۔ خدا آباد رکھے ان دلی میں رہنے والوں کو کہ ’’بچے کھچے دلی والے‘‘ ان کی بدولت کم از کم اس دلی کو یاد تو کر لیتے ہیں۔
دلی بگڑ کے بن گئیں اکثر ولائتیں
جس گھر میں دیکھو لوٹ اسی اجڑے گھر کی ہے
جاری ہے
خدا کے فضل و کرم سے بلا فصل دلّی میں تیرہویں پشت ہے۔ دلی کے تعلق سے بزرگوں نے جو کچھ بتایا، سنا، پڑھا، دیکھا اور حافظہ میں جو بھی محفوظ ہے، وہ قلم و قرطاس کے سپرد کرنا چاہتا ہوں، تاکہ نئی نسل جان لے کہ دلی والے اپنی تہذیب، اد ب و آداب، رہن سہن، رفتار و گفتار، رسم و رواج، خور د و نوش اور میلوں ٹھیلوں پر کیوں آنسو بہاتے ہیں۔ مغربی تہذیب کے غلبہ نے کھرے کھوٹے کی تمیز مٹا دی۔ تفصیل میں نہ جاتے ہوئے اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ ان دنوں ’’پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا‘‘ کے وسیلے سے سبھی دیکھ رہے ہیں کہ اب سماجی شعور کا فقدان ہے۔ آدمی انسانیت کو ترک کرکے حیوانیت کی جانب تیزی سے بھاگ رہا ہے۔ ’’معاش‘‘ کی دوڑ نے معاشرے کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ وہ دن ہوا ہوئے، جب دلی کے گلی کوچوں میں پلنے والے جانور بھی ’’انسان نما‘‘ نظر آتے تھے۔ میرؔ نے بلا وجہ نہیں کہا تھا کہ ’’جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی‘‘۔ اس لیے آج ضروری ہو گیا ہے کہ قلعہ معلی اور اجڑے دیارِ شاہجہان آباد کے قصۂ پارینہ کو وقتاً فوقتاً دہرایا جائے، تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
دلّی جب بسنا شروع ہوئی تو آسمانی مخلوق مکیں ہوئی نہ پاتال سے ابھر کر کوئی اس شہر کے گلی کوچوں کا باسی بنا۔ اطراف اور قرب و جوار کے رہنے والے یہاں آکر رہنے اور بسنے لگے اور اس دلی نے مشفق ماں کی طرح انہیں لگے لگایا، اپنی گود میں بٹھایا۔ صدیوں سے دلی باہر والوں کو اپناتی رہی۔ اس کا وسیع دامن تو آج بھی پہلے کی طرح وا ہے۔ دلی میں دو تین پشتیں گزارنے والے دلی کو نہ سمجھ سکتے ہیں، نہ ان کے دل میں جذبۂ ہمدردی پیدا ہو سکتا ہے، نہ قدرو قیمت کا احساس، عقیدت تو بس دور کی بات ہے۔ اس کے لیے کم از کم ساتھ آٹھ پشتیں تواتر کے ساتھ گزریں تبھی سمجھ میں آئے گا کہ دلی کو کیوں ہندوستان کا دل اور شہروں کی ملکہ کہا گیا ہے۔ ہندوستان میں ’’تہذیبی شہر‘‘ اور بھی ہیں۔ لکھنؤ، حیدرآباد اور پھر بھوپال وغیرہ، سبھی کسی نہ کسی طرح دلی کی تہذیب سے متاثر رہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ’’علاقائی محبت‘‘ کے جوش میں دلی کا ذکر آنے پر زبان گنگ ہو جاتی ہے۔ بہرحال، اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ۔ دلی والوں نے اپنا راگ الاپا، لیکن کبھی کسی کو کمتر اور حقیر نہیں سمجھا۔ یہ دلی والے ہی تھے، جو اودھ اور لکھنؤ کے درباروں کی زینت بنے۔ دلی کے دستکاروں اور ہنرمندوں نے دوسرے چھوٹے بڑے شہروں میں جا کر اپنے ہنر اور فن کا مظاہرہ کیا اور یہ بتا دیا کہ دلی والا کیسا ہی ہو، کسی حال میں خالی نہیں ہوتا۔
اپنے مضمون کے آغاز میں دلی کے دلدادہ، دلی کالج کے شعبۂ تاریخ کے سابق استاد سید حسن کے ایک مضمون کا اقتباس بطور تبرک ملاحظہ فرمائیں :’’اگر کبھی حسنِ اتفاق سے آپ کو کوئی اصل دلی والا مل جائے اور آپ اس سے اس کی دلی کا حال پوچھیں ، جو ماضی کے دھندلکے میں تیزی سے کھوتی جا رہی ہے، تو وہ یا تو ایک پھیکی مسکراہٹ سے، جس میں ہزاروں حرماں نصیبی گھلی ہوں گی، آپ کے سوال کو ٹال جائے گا یا پھر میر تقی میرؔ کے شعر
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کر ویراں کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
کو دہراکر خاموش ہو جائے گا۔ اگر آپ کی طرف سے کچھ ذرا زیادہ ضد ہوئی تو وہ نامِ خدا لے کر ایک دفتر کھول کر بیٹھ جائے گا۔ آپ کھوئیں یا نہ کھوئیں، مگر وہ خود یادوں کے ہجوم میں گم ہو جائے گا۔ دبی دبی سسکیوں کے جلو میں آڑے، ترچھے، تیکھے، پیارے پیارے کچھ اُداس، کچھ قہقہوں میں تیرتے ہوئے نقوش ابھرتے اور مٹتے رہیں گے۔ اور اگر آپ نے حساس دل پایا ہے تو عرصے تک اس بیتی ہوئی دلی کی یاد، جس میں پرانی قدروں میں رچی ہوئی زندگی تھی، وضع داری کے خمیر میں گندھی ہوئی شوخی تھی، انسان کو انسان سمجھنے کی صلاحیت تھی، عرصہ تک چٹکیاں لیتی رہیں گی۔ اس میں برائیاں بھی تھیں، کس میں نہیں ہوتیں، مگر وہ کبھی دَرّانہ بے نقاب سامنے نہیں آتیں، بلکہ رخ کی بدنمائی کو ہزار رنگین پردوں میں چھپائے ہوتیں۔ ممکن ہے آج کی تیز گام کاروباری، دردمندی سے ناآشنا دلی کے لیے پرانی دلی کی یہ تصویر نقشِ باطل کی حیثیت رکھتی ہو، مگر دلی کے بچے کھچے پروانوں کے لیے ’’یہ شمع خموش‘‘ ابھی اسی طرح روشن ہے۔
تیمور کی اجاڑی ہوئی دلی بسنے کو تو بسی، مگر اگلی سی بہاریں پھر لوٹ کر نہ آئیں۔ لودی حکمرانوں نے جب الٹی ہوئی بساطِ سیاست پھر سے جمائی تو پیدل نے شاہ کو مات دی۔ دلّی رانی سے باندی بنی اور آگرہ باندی سے رانی اور پھر مدتوں تک دلی باندی ہی رہی، اگرچہ باندی خاص ہی کیوں نہ سہی۔ مغلوں کے آنے سے دلی کی کچھ آس بندھی، اگر اپنوں نے بے مروتی دکھلائی ہے تو شاید بدیشی ہی اسے اپنائیں، مگر بابر نے بھی پیٹھ دکھلائی اور آگرہ کا ہو بیٹھا۔ سوری حکمرانوں نے کچھ آنسو پونچھے، مگر تقدیر کی ماری دلی کو یہ سہاگ زیادہ دنوں تک نہ پھلا۔ بساط پھر پلٹی، مغلوں کا سورج بھی گہن سے نکلا۔ اس بار ہمایوں نے پچھلی سرد مہریوں کو التفات میں بدلنا چاہا، مگر پانسہ الٹا پڑا۔ وہ خود کو دلی کی خاطر ہار بیٹھا۔ اکبر کو باپ کے مرنے کے بعد جب اندرونی اور بیرونی حریفانہ چشمک سے فرصت ملی تو دادا کی چوکھٹ آگرہ سے جا لگا۔ بابر نے جو کچھ آگرہ کے لیے کرنا چاہا ہوگا، اس نے کر دکھایا۔ اکبر نے آگرہ کو اکبر آباد بنایا تو آسمان سے جنت اتار کر اس کی گود میں لا ڈالا۔ جمنا کی لہریں خود اپنے شوخی حسن سے شرمانے لگیں۔ جہانگیر باپ کے نقشِ قدم کو کب چھوڑنے والا تھا، جب تک جیا آگرہ کا بنا رہا۔ شاہجہاں کی زندگی کے بہترین سال بھی یہیں گزرے۔ ممتاز کی موت نے اسے آگرہ سے کچھ بد دل سا کر دیا، مگر چلتے چلاتے تاج محل سا تحفہ آگرہ کو دے کر آیا۔ نظر انتخاب دلی پر پڑی، سوکھے دانوں پانی پڑا۔ آن کی آن میں کایا پلٹ گئی۔ حسن کچھ ایسا نکھرا، جیسے کالی بدلیوں سے چھٹ کر چاند نکل آیا۔ شاہجہاں کی دلی اگرچہ مہرولی والی دلی، یعنی اس زمانے کی دلی سے ذرا ہٹ کر بسی تو کیا ہوا، بسی تو دلی ہی کی سرزمین میں۔ اس زمانے کی نئی دلی اور آج کی پرانی دلی کو دل کھول کر سجایا گیا۔ لال قلعہ بنا، جامع مسجد بنی، چاندنی چوک، فیض بازار اور چوک سعد اللہ جیسے بازار بسے۔ بادشاہ کی نظر کیا گھومی کہ سارا عالم دلی کے قدموں سے آ لگا۔ ایک سے بڑھ کر ایک حویلی بنی۔ محل سرائیں تعمیر ہوئیں۔ باغوں کا تو کہنا ہی کیا، دلی سبز پری بن گئی۔ اہل قلم، اہل سیف، اہل دولت اور اہل حرفہ غرض سبھی کی آنکھوں کا تارا بنی۔ دولت اور فراغت نصیب ہوئی تو دلی کی معاشرت نکھر آئی۔ مزاجوں میں نفاست آ گئی۔ طبیعتیں سیر و تفریح کی طرف راغب ہوئیں۔ معیارِ زندگی اونچا اٹھا تو اچھی چیزوں کی مانگ بڑھی۔ معیاری چیزیں بننے لگیں۔ قدردانی فن میں توانائی اور بلندی پیدا کرتی ہے۔ اس میں ہُن برستی دلی میں بادشاہ کی سر پرستی اور امراء کی قدردانی نے پارس کا کام کیا۔ جو چیز چھو لی گئی، سونا بن گئی۔ اہل حرفہ کے حوصلے ایسے بڑھے کہ ہر شخص اپنے فن کا ماہر بن گیا۔ اہل حرفہ ہی پر کیا موقوف، جو جہاں تھا وہیں اس نے اپنے جوہر دکھائے۔ دلی کو خود اپنے آپ پر رشک آنے لگا۔ اہل دلی کا سر غرور سے کچھ تنّنے سا لگا۔ یہ عہدِ زریں اورنگ زیب کے دم تک رہا۔ اس کے مرتے ہی گویا مغلوں کا سارا کس بل ہی نکل گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کسی نے افسوں کرکے آلِ تیمور کی ساری حوصلہ مندی، قوتِ ارادی، فرزانگی اور مدبری سلب کر لی ہو۔ بادشاہ بالکل مٹی کے ببوے بن کر رہ گئے تھے۔ اگر اس عقدہ کو حل کرنے کے لیے سماجی نفسیات کو درمیان میں لایا جائے تو پتہ چلے گا کہ یہ کیفیت صرف مغلوں ہی کے لیے مخصوص نہ تھی، بلکہ تاریخ کے ہر دور میں جب بھی افراد یا قومیں نقطۂ کمال تک پہنچتی ہیں تو ردِ عمل شروع ہوا ہے، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کامیابی دولت اور عیش کے سامان مہیا کرتی ہے تو تن آسانی، قویٰ، کوشل اور احساسِ فرض کو سرد کرکے انحطاط کے دروازے کھول دیتی ہے۔ یہی کچھ مغلوں کے ساتھ ہوا۔
کہاوت ہے کہ ہر کمال کو زوال ہے، لیکن ہر زروال صرف تخریب کی جانب نہیں لے جاتا، بلکہ اس سے تعمیر کے سوتے بھی پھوٹتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی اس دورِ انحطاط میں بھی ہوا۔ دلی میں مغلیہ دور (شاہجہاں تا بہادر شاہ ظفرؔ) جو معاشرہ وجود میں آیا، اسے مشترکہ تہذیب، گنگا جمنی تہذیب کہا گیا اور جو بعد ازاں دلی کی تہذیب کہلائی۔ اسی دورِ انحطاط میں اس کی نشوونما ہوئی۔ اسی دورِ انحطاط میں شمالی ہند میں اردو شعر و ادب کا آغاز ہوا۔ دلی شعرو ادب کا مرکز بن گئی۔ یہاں شعر و ادب پر تبصرہ کرنا مقصود نہیں، البتہ اتنا ضرور کہیں گے کہ دلی کی تہذیب نے شعر و ادب کو اس طرح متاثر کیا کہ یہ الگ دبستان بن گیا۔
دِلّی چھ
دلی چھ‘‘ کیا ہے؟ پرانی دلی، فصیل بند شہر جسے شاہجہاں نے بسایا تھا۔ یہی دلی (شاہجہاں آباد) مغلیہ سلطنت کی راجدھانی تھی۔ دارالخلافہ … دارالسلطنت، راجدھانی، جس کے تعلق سے کہا گیا تھا
یَا مَن یُسئَا عَن دِہلی وَ رَفَعَتہَا
عَلَے البَلَادِ وَ مَا حَانَتَہ مِن شَرَاف
اِنّ البَلَاد اِمَامٌ وَہِی سِیرَۃٌ
وَ انِّہَاد دُرَّۃٌ وَالکُلَّ کالصَّدَف
ترجمہ: اے وہ شخص جو دہلی کے حالات اور دوسرے شہروں پر اس کی رفعت اور شرف کے متعلق استفسار کرتا ہے، بیشک تمام شہر باندیاں ہیں اور دلی ان کی ملکہ ہے۔ بیشک دلی کی مثال ایک موتی کی سی ہے، باقی شہر نرے سیپ ہیں۔
یہی دلی چھ ہے، جس کے مشرقی سمت میں لال قلعہ ہے اور اندرونِ شہر لال کنویں پر آخری تاجدار بہادر شاہ ظفرؔ کی چہیتی بیگم کا زینت محل۔ یہی نہیں نوابوں، راجاؤں، رئیسوں اور امیروں کی حویلی اور کوٹھیاں بھی دلی چھ میں ہی ہیں۔ شاہجہاں آباد، یعنی فصیل بند شہر کی تین سو سالہ تاریخ (1947-16 پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ جس قدر صوفی سنت، اہل اللہ، اہل علم، صاحب ہنر و فن، ادیب و شعرا، اطبا، صنعت کار اور دست کار، اہل سیاست اور مجاہدین آزادی ’’دلی چھ‘‘ میں پیدا ہوئے، اتنے دلی کے کسی حصے میں پیدا نہیں ہوئے۔ اگر تحقیق اور تلاش و جستجو سے ان سب کے کوائف جمع کیے جائیں تو علاحدہ ایک انسائیکلوپیڈیا تیار ہو جائے۔ ’’دلی چھ‘‘ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی سسرال اسی پرانی دلی کے ایک قدیم محلے، بازار سیتا رام میں ہے۔ دلی چھ کو اس بات پر بھی فخر ہے کہ راشٹرپتا مہاتما گاندھی اسی دلی چھ کے گلی کوچوں (علاقہ جامع مسجد، گلی قاسم جان، کوچہ چیلان، انصاری روڈ وغیرہ) میں دلی کے سیاست دانوں اور حریت پسندوں سے ملنے آتے تھے۔
دلی کے بزرگوں سے سنا ہے کہ قدیم دلی والوں کے لیے دلی کی فصیل کے اندر پیدا ہونا ایک اعزاز تھا۔ بیسویں صدی کے ایک دلی والے معروف شاعر، استاد رفیق رساؔ دہلوی تو فصیل کے باہر رہنے والوں کو ’’فارن کنٹری‘‘ کا سمجھتے تھے۔ دلی والوں کے روزمرہ میں کسی کو باہر والا کہہ دینا بھی حقارت تھا۔ دلی والے اپنی نشست و برخاست، رفتار و گفتار میں بہت محتاط تھے۔
مختلف مذاہب کی عبادت گاہیں بھی بڑی تعداد میں اسی ’’دلی چھ‘‘ میں ہیں۔ چاندنی چوک، کھاری باؤلی، نیا بازار، چاوڑی بازار، اجمیری بازار جیسے قدیم تجارتی مراکز بھی اسی فصیل بند شہر میں ہیں۔ یہی نہیں، سب سے زیادہ سنیما گھر بھی اسی دلی چھ میں ہیں۔
دلی کے بزرگوں سے سنا ہے کہ قدیم دلی والوں کے لیے دلی کی فصیل کے اندر پیدا ہونا ایک اعزاز تھا۔ بیسویں صدی کے ایک دلی والے معروف شاعر، استاد رفیق رساؔ دہلوی تو فصیل کے باہر رہنے والوں کو ’’فارن کنٹری‘‘ کا سمجھتے تھے۔ دلی والوں کے روزمرہ میں کسی کو باہر والا کہہ دینا بھی حقارت تھا۔ دلی والے اپنی نشست و برخاست، رفتار و گفتار میں بہت محتاط تھے۔ ہر شخص سے بلا تفریق مذہب و ملت عمر اور مرتبہ کے اعتبار سے گفتگو کرتے اور اس بات کا خاص خیال رکھتے کہ دل آزاری نہ ہو، طعن و تشنیع نہ ہو، کسی کی تحقیر نہ ہو اور کبھی کسی شخص نے کوئی ایسی بات کہی یا حرکت کی تو دلی والے چونک پڑتے اور سمجھ لیتے کہ اس کا تعلق دلی سے نہیں اور آہستگی سے کہتے ’’باہر والے ہیں جانے دو‘‘۔
اللہ اللہ ! اب یہ وقت آیا کہ فصیل بند شہر میں رہنے والوں کو یہ سننا پڑ رہا ہے کہ ’’دلی چھ‘‘ کا ہے۔ بات کہنے میں آتی ہے تو اتنا سمجھ لیجیے، دلی والے علم مجلسی میں بھی دوسروں کی نسبت آگے ہی تھے۔ حالتِ غیظ میں بھی ’’آدمیت‘‘ کو نہ چھوڑتے۔ کبھی ایسا بھی وقت آتا کہ زبان پر گالی بھی آجائے تو طبقہ اشرافیہ کی زبان پر تیرا یا تیری جیسے الفاظ نہ آتے۔ گالی دینے میں بھی ایک سلیقہ ہوتا تھا۔ دلی کے مشہور طبیب اور مدبر، مسیح الملک حکیم اجمل خاں کے دیوان خانے کے تعلق سے بہت سی باتیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ تقریر و تحریر میں اس دور کے متعدد لوگ ان کی محفل آرائیوں کے متعلق بیان کر چکے ہیں۔ حکیم صاحب کے قریبی ساتھی میر اخلاق حسین اخلاق دہلوی کے حوالے سے ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے، مسلم احمد نظامی نے یہ واقعہ سنایا تھا (اس محفل میں راقم الحروف بھی موجود تھا) کہ ’’ہر ماہ حکیم اجمل صاحب بعد نماز عشاء اپنے مخصوص احباب کے ساتھ ایک ایسی محفل ضرور منعقد کرتے، جس میں احباب بے تکلفی کے ساتھ ہنستے، قہقہے لگاتے۔ اس محفل میں کبھی نواب سائل دہلوی اور ان کے بڑے بھائی شجاع الدین خاں تاباںؔ دہلوی کا کلام سنا جاتا اور کبھی میر باقر علی داستان گو سے کوئی قصہ۔ ان دنوں محلہ سوئی گران میں ایک زردوز عمو جان تھے جو کپڑوں کے ساتھ ساتھ گالیوں میں بھی زردوزی کرتے تھے۔ حکیم صاحب نے اپنی مخصوص محفل میں انھیں بلوایا اور فرمایا ’’عمو جان! ہم چاہتے ہیں کہ تم کوئی ایسی گالی سناؤ جس میں کوئی فحش اور بیہودہ لفظ نہ ہو، ہر گالی پر ایک روپیہ انعام ملے گا۔ عمو جان کچھ دیر خاموش رہے اور پھر تیزی سے اٹھے، الٹے قدموں دیوان خانے کے دروازے تک پہنچے اور جھک کر تین بار سلام کیا اور پھر کہا ’’عرض کرتا ہوں حکیم صاحب قبلہ! حضور میں آپ کا داماد …‘‘ ۔ اتنا کہہ جوتی پہن یہ جا وہ جا۔ محفل پر سکتہ طاری ہو گیا اور سب حکیم صاحب کا منھ دیکھنے لگے۔ اگلے لمحے حکیم صاحب مسکرائے ’’ہاں بھئی گالی ہے، مہذب گالی۔ عمو جان کو لے کر آؤ۔ ملازم دوڑا، مگر عمو جان واپس نہ آئے۔
دلی کے کوچہ چیلان میں مشہور ادیب مرزا فرحت اللہ بیگ کے ایک رشتے کے بھائی تھے رضاء اللہ انجینئر اور رضاء اللہ کے ایک قریبی عزیز ذکاء اللہ ان کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ یہ گالی دینے میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ ایک دفعہ آغا حشر کاشمیری سے ان کی جوڑ چھوٹ گئی۔ اتفاق سے آصف علی بیرسٹر گالیوں کی اس بزم میں تشریف لے آئے۔ آصف علی انتہائی مہذب، شائستہ، نفیس مزاج، گالیوں اور گالی دینے والوں دونوں سے سخت متنفر۔ انھوں نے ذکاء اللہ اور آغا حشر کاشمیری دونوں سے کہا ’’بس بہت ہوگیا، اب آپ لوگ ایک دوسرے کو آخری گالی دیں اور آئندہ کے لیے توبہ کریں۔‘‘ پہلے آغا حشر کاشمیری نے گالی دی ’’آپ کی والدہ محترمہ کے شکم میں کائنات …‘‘۔ ذکاء اللہ نے ترکی بہ ترکی گالی کا جواب دیا ’’حضور آپ کی والدہ کے شکم مبارک میں میری والدہ کا شکم مبارک۔‘‘ محفل زعفران زار ہوگئی۔
دلی کے بزرگوں ہی سے سنا ہے کہ دلی کے دو مولوں کے درمیان کسی بات پر شکر رنجی ہوگئی۔ نوبت یہ آئی کہ ایک دوسرے کا منھ دیکھنا بھی گوارا نہ تھا۔ ان میں ایک مولوی صاحب اکثر اپنے مدرسے کے لیے چندہ لینے دلی سے باہر جاتے اور دلی کے مخیر حضرات سے بھی چندہ لیتے۔ مخالف مولوی صاحب نے دلی کے ایک رئیس کو رقعہ بھیجا کہ جناب والا ’’چندہ ماموں‘‘ سے ذرا ہشیار رہیے۔ کارِ خیر میں کوئی دوسرا پہلو نہ پوشیدہ ہو۔ جب مولوی صاحب چندہ لینے پہنچے تو ان رئیس نے وہ خط دکھایا۔ مولوی صاحب نے خط غور سے پڑھا اور پھر فرمایا ’’عمر میں کچھ چھوٹا ہے تو دل و دماغ کا بھی چھوٹا ہے۔ پھبتی کستے وقت یہ بھی غور نہیں کیا کہ واقعی اس میں ایک دوسرا پہلو بھی ہے‘‘۔ رئیس نے پوچھا، وہ کیا؟ فرمایا کہ ’’چندہ ماموں‘‘ کہنے والے کو یہ نہیں معلوم کہ اس پھبتی میں ’’خواہر زادگی‘‘ کی بو آتی ہے۔ میں ماموں تو وہ بھانجا ہوا نا!
اب کہاں رہ گئے ایسے دلی والے۔ زندہ ہیں ’’دلی چھ‘‘ کی پھبتی کسنے والے۔ خدا آباد رکھے ان دلی میں رہنے والوں کو کہ ’’بچے کھچے دلی والے‘‘ ان کی بدولت کم از کم اس دلی کو یاد تو کر لیتے ہیں۔
دلی بگڑ کے بن گئیں اکثر ولائتیں
جس گھر میں دیکھو لوٹ اسی اجڑے گھر کی ہے
جاری ہے
آخری تدوین: