دلربائی میں جو تلوار بھی بن سکتے ہیں

مزمل

محفلین
دلربائی میں جو تلوار بھی بن سکتے ہیں
کیا وہ قسمت سے مرے یار بھی بن سکتے ہیں

پارساؤں کے خط و خال سے گمراہ نہ ہو
صاحب ذوق ہیں میخوار بھی بن سکتے ہیں

رحم کھا کر تو چلا آئے عیادت کو تو ہم
اس خوشی کے لیئے بیمار بھی بن سکتے ہیں

سنگدل اتنی حقارت سے نہ ٹھکرا ہم کو
ہم اگر چاہیں تو خودار بھی بن سکتے ہیں

اب تو یزداں بھی تجھے دیکھے تو پہروں سوچے
کیا کہیں یہ لب و رخسار بھی بن سکتے ہیں

تو مرے گھر میں چلا آئے تو جنت کیا ہے
اس سے بھتر درِ دیوار بھی بن سکتے ہیں

ہم کو رغبت ہی نہیں خلق فریبی سے عدّم
ورنہ ہم کاشف اسرار بھی بن سکتے ہیں
 
Top