دلا کس کی لگن میں پھرتا ہے۔۔۔پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑہ شریف

دلا کس کی لگن میں پھرتا ہے وحشی تو بن بن میں​
پٹن میں منٹگمری میں علی حیدر کے موطن میں۔۔۔​
یہاں لاکر کیا قائل فسونِ سحر کا اپنے​
کمندِ زلف میں تیرِ مژہ میں چشمِ پر فن میں​
وہاں سوئے پڑے تھے خوش عدم کی نیند میں بے خود​
جگاکر جلوہ دکھلایا ہمیں مظہر دیوانن میں​
ارے ساقی ترے ممنون ہیںسب رند و مستانے​
پلادے جام بھر کر جس سے سب آجائیں آنن میں​
نگارے والضّحیٰ رُوئے، و والّلیل سجیٰ مُوئے​
ابھی گذرے ہیں اس راہ سے بھری خوشبو مشامن میں​
سنا کر میٹھی باتوں کو دکھا حُسنیٰ صفاتوں کو​
دلوں کے قافلے لُوٹے ہیں خود بیٹھے مکانن میں​
یہ کیسا ہے گداز و سوز کیسی ہے یہ بے خوابی​
جگر میں آنکھ میں دل میں سراپا جسم تن من میں​
دلِ حیراں کی تسکیں کو خیال انکا غنیمت ہے​
مجھے ڈر ہے نہ جائے انکی طرح لامکانن میں​
مدینے میں بلا بھیجو قریبِ وادی ءِ حمراء​
تڑپ کر ڈال لوں میں ہاتھ پھر سیمین ساقن میں​
حریفِ ساغرومئے ہوں غریقِ بحرِ عصیاں ہوں​
سہارا ہے فترضیٰ کا مجھے محشر مکانن میں​
مجھے کیا غم ہے محشر کا مرا حامی ہے جب وہ شاہ​
کہا لولاک و طٰہٰ و مزمّل انکی شانن میں​
دلا مت رو غلام ہو کر محی الدّین جیلی کا​
مریدی لاتخف بس ہے سہارا ہر دو کونن میں​
یہ غزل حضرت پیر مہر علی شاہ نے اپنے دوست دیوان سید صاحب کی ملاقات کو جاتے وقت لکھی تھی جو پاکپتن کے سجادہ نشین تھے۔۔۔اور اس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اسکے ہر شعر کے پہلے حرف سے دیوان سید صاحب کا نام نکل آتا ہے​
 
Top