دل، دسمبر اور درد

دل، دسمبر اور درد



"د" مشترک ہے دل، دسمبر اور درد میں۔ ویسے تو اور بھی بہت کچھا یک سا ہے تینوں میں جو صرف لفظوں کی حد تک نہیں ہے۔ مثلاً یہ تینوں متوجہ کرنے والے ہیں، دھیان کھینچ لینے والے۔

اور یہ سب کچھ اپنے اندر سمو لینے والے ہیں، جو ان کے دام میں آ جائے، پھر اُسے اور کچھ یاد نہیں رہتا۔

اور یہ تینوں بھری دنیا میں تنہائی کا بری طرح احساس دلاتے ہیں، کہ ان کی باتوں میں آکر اچھا بھلا انسان بھی خود کو تنہا محسوس کرنے لگتا ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ دل، دسمبر اور درد صرف غیر شادی شدہ کے لیے ہوتے ہیں، یا پھر اثرانداز زیادہ غیر شادی شدہ پر ہی ہوتے ہیں۔ بظاہر تو یہ بات صحیح معلوم ہوتی ہے کہ شریکِ حیات کی صورت میں کوئی غم گسار ساتھی پاس ہو تو بندہ کسی بات کو خاطر میں ہی کیوں لائے۔

بہت تحقیق کی لیکن میں نہیں نکال پایا وہ نقطہ کہ جس سے واضح ہو کہ ان تینوں میں سے کون زیادہ ظالم یا سخت ہے۔ اگر سامنے موجود نقطے پر اعتبار کیا جائے تو دسمبر ہی ہے۔ لیکن دل نہیں مانتا یہ بات، اور درد اُلٹا سیدھا لکھ کر بھی درد ہی ہے۔

جہاں تک تعلق ہے شاعری کا، دل کا جتنا خاص مقام ہے شاعری میں درد کا کسی طور کچھ کم مقام نہیں اس سے۔ لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جونہی دسمبر آتا ہے شاعری کو ایک نئی جہت مل جاتی ہے، نیا رنگ مل جاتا ہے۔ اور جو رنگ ان تینوں کی شاعری میں مشترک ہے، وہ ہے اداسی کا رنگ۔

دل ہو، دسمبر ہو، یا پھر درد ہو، اداسی تینوں میں بدرجہ اتم موجود ہے۔


اَز قلم: علی احمد صاحب
 
Top