دعوت جہاد اور ایک حقیقی واقعہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
نوٹ: ’’فضائل جہاد کامل‘‘ علامہ ابن النحاس شہیدؒ (متوفی 814ھ؁) کی ایمان افروز اور مقبول کتاب ’’مشارع الاشواق الی مصارع العشاق و مشیر الغرام الی دار السلام‘‘ کی اردو تلخیص و تشریف ہے۔

تلخیص و تشریح کے دوران کہیں خالص ترجمے اور کہیں خالص تشریح کا انداز اختیار کیا گیا ہے اور بعض مقامات پر مفید تبدیلیاں اور اضافے بھی کئے گئے ہیں -
اول اور آخر میں یہ نشان [ ] دیا گیا ہے

چوتھاباب
دعوت جہاد کی فضیلت
اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے۔
(1) وَحَرِّضِ الْمُؤمِنِیْنَ عَسٰی اللہ اَنْ یَّکْفَّ بَأْسَ الَّلذِیْنَ کَفَرُوْا وَ اللہ اَشَدُّ بَأْسًا وَّاَشَدُّ تَنْکِیْلًا. (النساء۔
84) اور مسلمانوں کو (جہاد ) کی تاکید کیجئے۔ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ کافروں کے جنگی زور کو روک دے اور اللہ تعالیٰ بہت سخت ہیں لڑائی میں اور بہت سخت سزا دینے میں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
(2)یایھا النبی حرض المومنین علی القتال ۔ ان یکن منکم عشرون صابرون یغلبومائتین وان یکن منکم مائۃ یغلبو الفا من اللذین کفروا بانھم قوم لا یفقھون ۔ (الانفال۔65)
اے نبی آپ مسلمانوں کو جہاد کا شوق دلائیے (یعنی خوب ترغیب دیجئے) اگر تم میں سے بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آجائیں گے اور اگر تمہارے سوآدمی ہوں گے تو ایک ہزارکفار پر غالب آجائیں گے اس وجہ سے کہ وہ لوگ (یعنی کفار)سمجھ نہیں رکھتے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
(3)یایھا الذین امنو ھل اذلکم علی تجارۃ تنجیکم من عذاب الیم تومنون با اللہ ورسولہ وتجا ھدون فی سبیل اللہ باموالکم وانفسکم ذلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون۔ (الصف19۔11)
اے ایمان والوکیا تم کو ایسی تجارت نہ بتادوں جو تم کو ایک درد ناک عذاب سے بچا لے تم لوگ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے جان اور مال سے جہاد کرو یہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔
[یہ تین آیات بطور مثال کے ذکر کی گی ہیں ] ورنہ وہ آیات جن میں اللہ تعالیٰ نے خود اپنے بندوں کو شوق جہاد اور جذبہ دلایا ہے بہت زیادہیں۔
٭ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان فرماتے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کیا تم میں سے کوئی جنت کا قصد کرنے والا ہے ۔ بے شک جنت کے ہم پلہ کوئی چیز نہیں ہے اللہ کی قسم جنت ایک چمکتانور اور لہلہاتا گلدستہ ہے اس میں مضبوط محل ، بہتی ہوئی نہریں ، پکے ہوئے پھل، حسین و جمیل بیویاں بے شمار زیور ہیں وہ ہمیشگی اور سلامتی کا گھر ،پھلوں والی سر سبز جگہ اور عیش عشرت کا بلند اور بے حد خوبصورت مقام ہے ۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم جنت کا قصد کرنے والے ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا تم انشاء اللہ کہو ہم نے کہا انشاء اللہ اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کا تذکرہ فرمایا اور اس کی خوب ترغیب دی ۔(ابن ماجہ ۔بزار ۔ ابن حبان )
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے [دینا میں]جہاد کی دعوت اور ترغیب دی ہوگی وہ چپکے سے جنت میں داخل ہو جائے گا جبکہ لوگ حسا ب کی سختی میں پھنسے ہوئے ہوں گے ۔
(شفاء الصدور موقوفا)

٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے اپنے [کسی مسلمان ]بھائی کو جہاد کی ترغیب دی اسے اس [مجاہد]جیسا اجر ملے گا اور اسے ہر قدم کے بدلے ایک سال کی عبادت کا اجر ملے گا۔(شفاء الصدور مو قوفاً )
مصنف فرماتے ہیں کہ جہاد پر ابھارنے اور ترغیب دینے کا خدائی دستور پہلے سے چلا آ رہا ہے قرآن مجید میں کتنے ہی مقامات پر یہ مضمون موجود ہے اور اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں بھی اس کے تذکرے سے بھری پڑی ہیں ہماری یہ کتاب اول سے آخر تک جہاد کی دعوت اور ترغیب کے مضامین پر ہی مشتمل ہے ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرات صحابہ کرام ، حضرات تابعین ، تبع تابعین اور ہمارے تمام اسلاف لوگوں کو جہاد کی ترغیب بڑی شدت سے دیتے رہے اس بارے میں ان حضرات سے جو منقول ہے اس کو شمار کرنا بھی ایک ناممکن کام ہے ۔
٭ اے مسلمان تیرے لئے تو اس بارے میں صحیح مسلم شریف کی یہ حدیث کافی ہے جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص کسی نیکی کی دعوت دے گا اس کو نیکی کرنے والے جتنا اجر ملے گا ۔(مسلم)
٭ غزوہ بدر کے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات صحابہ کرام کو جہاد کا خوب شوق دلایا اور پھر ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے آج کے دن جو شخص ثابت قدمی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھتے ہوئے پیٹھ پھیرے بغیر آگے بڑھ کر لڑے گا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرماے گا یہ سن کر حضرت عمیر بن حمام رضی اللہ عنہ جو کھجوریں کھا رہے تھے فرمانے لگے بخ بخ [واہ واہ ] میرے اور جنت کے درمیان بس اتنا سا فاصلہ ہے کہ یہ [مشرک ] مجھے قتل کر دیں ۔یہ کہہ کر انہوں نے کھجوریں پھینک دی اور تلوار لے کر لڑتے لڑتے شہید ہو گئے اس وقت وہ کچھ اشعار پڑھ رہے تھے جن کا مفہوم یہ ہے ۔
اللہ کی طرف بغیر توشہ ہی کے دوڑو ۔ مگر تقوی ، عمل اور جہاد پر ثابت قدمی کا توشہ ضرور اپنے ہمراہ لے لو اور ہر توشہ فنا ہونے والا ہے مگر تقوی ، نیکی اور ہدایت کا توشہ کبھی فنا نہیں ہوتا ۔(شفاء الصدور ۔صحیح مسلم میں کچھ فرق کے ساتھ مروی ہے )
علامہ ذہبی رحمہ اللہ تاریخ الاسلام میں حکایت کرتے ہیں کہ علامہ ابن الجوزیؒ 1697 ء میں ایک مرتبہ دمشق کی جامع مسجد میں لوگوں کو دعوت و ترغیب دے رہے تھے خود علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس دن مسجد میں تیس ہزار مسلمان کا مجمع تھا اور ایسے جوش اور ولولے والا دن دمشق میں نہ اس پہلے دیکھا گیا نہ بعد میں ۔ ابو قدامہ رحمہ اللہ کا وہ واقعہ جس میں ایک عورت نے انہیں اپنے بالوں کی چوٹیاں کاٹ کر دی تھیں تاکہ وہ جہاد میں اسے اپنے گھوڑے کی لگام میں شا مل کرلیں ، بھی مجھے معلوم تھا اور خود میرے پاس ایسے بالوں کی ایک بڑی تعداد جمع تھی میں نے ان بالوں سے مجاہدین کے گھوڑوں کے لئے تین سو رسیاں بنالی تھیں اس دن مجمع کے سامنے وہ رسیاں لائی گئیں تو لوگ جذبہ جہاد سے سرشار ہوکر دھاڑیں مار مار کر رونے لگے اور اپنے بال کاٹ کاٹ کر رسیاں بنانے لگے جذبات کا ایسا طوفان برپا تھا کہ گویا قیامت کا منظر ہے جب میں نے تشکیل شروع کی میرے ساتھ لشکر میں بے شمار لوگ شامل ہو گئے صرف ایک چھوٹے سے گاؤں میں تین سو آدمی اسلحے سمیت نکلے یہ سارا لشکر اللہ کی رضا کے لئے جہاد کی نیت سے دمشق نکلا ان دنوں انگریزوں کی طرف سے حملے کا خطرہ رہتا تھا ہمارا لشکر جب نابلس پہنچا تو امیر المومنین سے ہماری ملاقات ہوئی وہ ہمارا لشکر دیکھ کر خوش ہوئے جب ہم نابلس کی جامع پہنچے تو میں نے بالوں کی وہ رسیاں امیرالمؤمنین کو دکھائیں وہ ان رسیوں کو چہرے پر رکھ کر رونے لگے اس کے بعد ہم نے انگریزوں کے ایک شہر پر حملہ کیا اور پورے شہر کو تباہ وبرباد کر دیا بہت سارے انگریز ہمارے ہاتھوں مارے گئے اور بہت سارے ہم نے گرفتار کرلئے اور ہم صحیح سالم واپس آگئے۔اسی بارے میں علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے حضرت خنساء رضی اللہ عنہ بنت عمرو کا واقعہ لکھا ہے یہ صحابیہ خاتون بہت اچھی شاعرہ تھیں وہ قادسیہ کی جنگ میں اپنے چار بیٹوں کے ساتھ نکلیں اور جنگ کے دوران اپنے فصیح و بلیغ کلام کے ذریعے اپنے بیٹوں کو دشمنوں سے لڑنے پر ابھارتی رہیں اورانہیں جنت کی یاد دلاتی رہیں چنانچہ ان چاروں نوجوانوں نے اس دن شاندار کارنامے سر انجام دیئے اور وہ چاروں شہید ہو گئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس خاتون کو ان کے چاروں[شہد] بیٹوں کا وظیفہ بھی دیا کرتے تھے ۔ (تجرید اسماء الصحابہ)
ہم اس باب کو [ایک قابل رشک خاتون ]ام ابراھیم الھاشمیہ کی مشہور حکایت پر ختم کر رہے ہیں۔
بصرہ میں کچھ عبادت گزار بیباں تھیں جن میں سے ایک کا نام ابراھیم الھاشمیہ تھا انہی دنوں دشمنوں نے مسلمانوں کی کسی سرحد پر حملہ کر دیا اس حملے سے دفاع کے لئے مجاہدین کی ضرورت تھی [ایک عالم دین بزرگ ]عبدالواحد بن زید بصری رحمہ اللہ نے لوگوں میں جذبہ جہاد پیدا کرنے کے لئے تقریر کے دوران ۔۔۔۔۔۔۔حور عین کاتذکرہ چھیڑا اور ان کے اوصاف بیان فرمائے اور ان کی شان میں چند اشعار پڑھے [جن کا مفہوم یہ ہے] وہ نوجوان لڑکیاں ہیں ۔ نازو نخرے میں پلی ہوئیں خوبصورت چال چلنے والی ۔ ان سے وہ سب کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے جس کی چاہت کی جائے وہ حسن پاکیزگی سے بنی ہیں اور ہر تمنا اورہر خواہش ان سے پوری کی جا سکتی ہے وہ خوبصورت جسم والی کالی آنکھوں والی ہیں اور مشک کی خوشبو ان کے رخساروں سے چھلکتی ہے ان کے چہروں پر خوشی کی چمک اور ناز و نعمت کی دمک رقصاں رہتی ہے جب نرگسی باغوں میں پیالوں کا دور چل رہاہوگا اور وہاں کی ہوا میں خوشبو مہک رہی ہو گی تب وہ اپنے پیغام دینے والے[خاوندوں] کو اپنی خوبصورت آواز میں کہتی ہیں اور ان کی آواز میں ایسی محبت بھری ہوتی ہے جو سچی اور دل کو خوش کرنے والی ہے۔ اے میرے محبوب میں تمہارے علاوہ کسی کو نہیں چاہتی اور جب تمہاری دنیا سے جدائی ہوگی تب ہمارے ملاپ کا آغاز ہوگاتم ان لوگوں کی طرح مت ہوجاناجو منزل کے قریب پہنچ کر سر کشی اختیار کر لیتے ہیں ۔ اے محبوب مجھے غافل لوگ پیغام نکاح نہیں دے سکتے مجھے تو وہ لوگ پیغام دیتے ہیں جو اللہ کے سامنے گڑاگڑنے والے ہوتے ہیں ۔ یہ اشعار سن کر مجمع [شوق آخرت میں ] بیقرار ہو گیا اور وہ خاتون اچانک کھڑی ہو گئیں اور کہنے لگیں اے ابو عبیدہ [یہ شیخ عبدالواحد کی کنیت ہے ]کیا تم میرے بیٹے ابراہیم کو نہیں جانتے بصرہ کے بڑے بڑے مالدارلوگوں نے اس کے لئے اپنی لڑکیوں کے پیغام بھیجے مگر میں نے کسی لڑکی کو پسند نہیں کیا لیکن آج آپ نے جس لڑکی [یعنی حور عین ]کا تذکرہ کیا وہ مجھے پسند آئی ہے اور میں اسے اپنی دلہن بنانا چاہتی ہوں مہربانی کر کے آپ دوبارہ اس کی خوبیاں اور اس کا حسن جمال بیان فرمائیں ۔ یہ سن کر شیخ عبدالواحد رحمہ اللہ نے پھر حور عین کی خوبیاں بیان فرمائیں اور پھر یہ اشعار پڑھے [جن کا مفہوم یہ ہے ]
ان کے چہرے کے نورسے اصلی نور پیدا ہوتا ہے اور ان کے خوشبو دار بدن سے لگنے والی ہوا عطر کے مقابلے میں فخر کرتی ہے اگر وہ پتھروں اور کنکریوں پر اپنا جوتا رکھ دیں تو بارش کے بغیر مشرق ومغرب سر سبز وشاداب ہو جائیں اگر تم ان کی کمر کو گرہ لگانا چاہو تو ریحان کی سبزپتوں والی ڈالی کی طرح تم آسانی سے گرہ لگا لو گے اگر وہ اپنا لعاب سمندر میں ڈال دیں تو زمین کے لوگ ان سمندروں کومزے سے پی جائیں قریب ہے کہ آنکھ کی جھپک ان کے نازک رخساروں کو زخمی کردے اور دل کے خیالات ان کی پیشانی پر پڑھے جائیں۔
یہ اشعارسن کر لوگوں کا شوق اور بے چینی اور زیادہ بڑھ گئی اور خاتون دوبارہ کھڑی ہوئیں اور کہنے لگیں مجھے یہ لڑکی پسند آئی ہے میں دس ہزار دینار مہر دے کر اسے اپنے بیٹے کی دلہن بنانا چاہتی ہوں ۔اے شیخ عبدالواحد میرے بیٹے کا اس لڑکی سے نکاح کرا دیجئے وہ اس لڑائی میں آپ کے ساتھ نکلے گا ممکن ہے اللہ تعالی اسے شہادت نصیب فرما دے اور قیامت کے دن میری اور اپنے والد کی شفاعت کا ذریعہ بن جائے ۔ شیخ عبدالواحد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اے خاتون اگر آپ نے اپنے بیٹے کو جہاد میں بھیج دیا تو وہ بھی کامیاب ہوجائے گا اور آپ اور اس کا والد بھی بڑی کامیابی پائیں گے ۔پھر اس خاتون نے اپنے بیٹے کو آواز دی ۔ بیٹا ابراہیم !
آواز سن کر مجمع میں سے ایک نوجوان تیزی سے کھڑا ہوگیااور کہنے لگا میں حاضر ہوں امی جان خاتون نے کہا اے بیٹے کیا تو اس لڑکی [یعنی حور عین ]کو اس شرط پر بیوی بنانے کے لئے تیار ہے کہ تو اپنی جان اللہ کے راستے میں قربان کرے گا اور گناہوں میں واپس نہیں لوٹے گا ؟ جوان کہنے لگا امی جان ! اللہ کی قسم میں بخوشی اس شادی پر راضی ہوں یہ سن کر وہ خاتون کہنے لگیں ۔
اے میر ے پروردگار تو گواہ رہنا کہ میں نے اپنے بیٹے کی شادی اس لڑکی سے اس شرط پر کر دی ہے کہ میرا بیٹا اپنی جان تیری راہ میں قربان کرے گا اور گناہوں کی طرف کبھی نہیں لوٹے گا ۔ اے ارحم الراحمین! میری طرف سے اسے قبول فرما لیجئے۔
اس کے بعد وہ خاتون گھر گئیں اور دس ہزار دینار لا کر شیخ عبدالواحد کو دیئے اور فرمانے لگیں یہ اس لڑکی کا مہر ہے ۔ آپ اپنے لئے اور دوسرے مجاہدین کے لئے اس سے سامان جہاد خریدیں۔ پھر وہ واپس ہو گئیں اور انہوں نے اپنے بیٹے کے لئے عمدہ گھوڑا خریدا اور بہترین اسلحہ اسے دیا پھر جب شیخ عبداالواحد اس لشکر کو لے کر روانہ ہوئے تو ابراہیم بھی دوڑتا ہوا ساتھ نکلا اور کچھ قرآن مجید کے قاری اس کے ارد گرد یہ آیت پڑھتے ہوئے جا رہے تھے ۔
ان اللہ اشتری من المومنین انفسہم واموالہم بان لہم الجنۃ ۔(سورۃ توبہ۔111)
(ترجمہ ) بے شک اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کی جان اور مال کو جنت کے بدلے خرید لیا ہے۔
وہ خاتون بھی لشکر کو رخصت کرنے کے لئے نکلیں جب وہ واپس ہونے لگیں تو انہو ں نے اپنے بیٹے کو کفن اور خوشبو دی اور فرمایا اے پیارے بیٹے جب دشمن سے مقابلے کے لئے نکلنا تو یہ کفن باندھ لینااور خوشبو لگا لینا اور اللہ کے راستے میں لڑتے ہوئے کوتاہی مت کرنا پھر انہوں نے اسے سینے سے لگایا اور اس کی پیشانی کا بوسہ لیا اور فرمایا پیارے بیٹے میری دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ اب ہم دونوں کو قیامت کے میدان میں ہی ملائے۔ عبدالواحد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب ہم محاذ پر پہنچ گئے اور جنگ کا اعلان ہو گیا تو کچھ لوگ آگے لڑنے کے لئے نکلے ان میں ابراہیم سب سے آگے تھا اس نے بہت سارے دشمنوں کو قتل کیا مگر پھر دشمنوں نے اسے گھیر کر شہید کردیا ۔جب ہم بصرہ کی طرف واپس آنے لگے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابراہیم کی والدہ کو اس کے بیٹے کی شہادت کی خبر نہ کرنا کہیں ایسا نہ ہو وہ غم میں اپنا اجر ضائع کر بیٹھے جب ہم بصرہ پہنچ گئے تو لوگ آکرہم سے ملنے لگے ۔ ان لوگوں میں ابراہیم کی والدہ بھی تھیں ۔ انہوں نے جیسے ہی مجھے دیکھا فرمانے لگیں اے ابو عبیدہ ! اگر اللہ تعالیٰ نے میرا ہدیہ قبول کر لیا ہے تو میں خوشی مناؤں ۔ اور اگر واپس لوٹا دیا ہے تو مجھ سے تعزیت کی جائے ۔
میں نے کہا!
بخدا اللہ تعالیٰ نے تمہارا ہدیہ قبول کر لیا ہے اور تمہارا بیٹا حقیقی زندگی پا کر شہداء کے ساتھ کھا پی رہا ہے ۔ یہ سنتے ہی وہ شکر اداء کرتی ہوئی سجدے میں گر گئیں اور کہنے لگیں ۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے مایوس نہیں کیا اور میری قربانی کوقبول فرمایا ۔ اس کے بعد وہ واپس چلی گئیں ۔ اگلے دن وہ پھر مسجد میں آگئیں اور سلام کر کے کہنے لگیں۔ مبارک ہو اے ابو عبیدہ !رات خواب میں میں نے اپنے بیٹے کو ایک خوبصورت باغ میں ایک سبز محل میں دیکھا ۔ وہ موتیوں کی مسہری پر تاج پہنے بیٹھا مجھے کہہ رہاتھا۔
مبارک ہو امی جان آپ کا دیا ہوا مہر قبول کرلیا گیا اور دلہن کی رخصتی ہوگئی۔
[یہ سچا واقعہ ماضی ایک مسلمان ماں کا ہے اور یہ واقعہ پکار پکار کر ہمیں بتارہا ہے کہ اگر کل ایسی مائیں پیدا ہو سکتی تھیں تو آج بھی امت مسلمہ بانجھ نہیں ہو گئیں بلکہ آج بھی ایسی مائیں پیدا ہو سکتی ہیں بلکہ موجود ہیں جو ابراہیم کی والدہ کی طرح اپنے بیٹوں کا نکاح حور عین سے کرانا چاہتی ہیں اور اپنے لئے اللہ کی محبت اور جنت کے باغات کی طلب گار ہیں ۔ اگر کل کی اس ماں کی گود میں ابراہیم جیسا ایک بیٹا تھا تو آج کی ماں کی گود بھی خالی نہیں ہے ۔ آج کی مائیں بھی کئی کئی جوان بیٹے پال رہی ہیں کل کی وہ ماں اگر دس ہزار سونے کے دینار دیکر اپنے بیٹے کو عزت و عظمت کی راہوں پر چلا رہی تھی تو آج کی ماں کے پاس بھی سونے کی کمی نہیں ہے البتہ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج کی ماں کو جہاد کی حقیقت سمجھائی جائے ، آج کی ماں کو بھی آخرت کی فکر دلائی جائے ، آج کی ماں میں غیرت ایمانی کو بیدار کیا جائے ۔ اللہ کی قسم اگر آج بھی شیخ عبدالواحد کی طرح کوئی عملی مجاہد اور عالم دین مسجدوں اور محلوں میں جاکر مسلمانوں کو دردل کے ساتھ جہاد کی دعوت دے تو ہماری ہر گلی سے ابراہیم کی والدہ جیسی خواتین اپنے ابراہیم جیسے جوان بیٹوں کو سونے چاندی کی لڑیوں میں تول کر اس دعوت دینے والے کے حوالے کریں گی اور اللہ تعالیٰ سے کہیں گی اے میرے پرودگار گواہ رہنا میں نے اپنے بیٹے کی شادی حور عین سے کردی ہے ۔ اور اے مجاہدو ! میرے جوان بیٹے کے کٹ جانے سے عراق ، افعانستان ،کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کو آزادی دلا سکتے ہو اگر میرے لخت جگر کے ٹکڑے ہونے سے اسلام دینا میں نافذ ہو سکتا ہے اور فلسطین کے مسلمانوں کو آزادی مل سکتی ہے تو پھر میرے بیٹے کو اپنے ساتھ لے جاؤ ۔ میں نے اسے اللہ کے حوالے کر دیا ہے ۔ میں نے اسے اسلام کی عظمت کے لئے وقف کر دیا ہے مجھے اب اس کی زندگی کی نہیں بلکہ اسلام کی فتح کی خبر سنانا اور میرے بیٹے کو میرے پاس زندہ واپس نہ لانا ۔ میں اب اس سے آخرت کے میدان میں ملنا چاہتی ہوں ۔
اے مسلمانوں ہماری مائیں کل بھی عظم تھیں آج بھی عظیم ہیں مگر آج ہم نے انہیں جہاد کا سبق سنایا ہی نہیں ورنہ وہ ماضی کی ماں سے ایک قدم آگے تو بڑھ جائیں گی پیچھے نہیں ہٹیں گی ۔ مگر دعوت جہاد اب پھیکی پڑ چکی ہے منبرو محراب کی گرج دھیمی ہو چکی ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس دعوت کو ایک رسم نہیں ذمہ داری سمجھ کر اداء کیا جائے اسے ایک پیشہ نہیں بلکہ عبادت کی شان سے اداء کیا جائے اور وہ لوگ دعوت دینے کے لئے آگے بڑھیں جن کی بات سنی اور سمجھی جاتی ہے اور وہ خود بھی جہاد کی لذت سے آشنا اور شوق شہادت سے سرشار ہوں اور اپنے دل میں اسلام اور مسلمانوں کا درد پیدا کریں ۔
یاد رکھئے جہاد کی دعوت دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے اس لئے اسے نہ تو غیر اہم سمجھیں اور نہ اس میں سستی کریں جہاد کی دعوت دینا ہمارا کام ہے اس دعوت کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور یہ بات سچ ہے کہ جہاد کی دعوت سورج کی شعاعوں کی طرح حیرت ناک انداز سے ہر طرف پھیل جاتی ہے اس باب میں مذکورہ فضائل کو پڑھنے کے بعد جہاد کی دعوت دینے کا عزم کر لیجئے اور اتنی دعوت دیجئے کہ جہاد آپ کی اور آپ جہاد کی پہچان بن جائیں اور ایسے درد سے دعوت دینے کا عزم کر لیجئے کہ کلیجے ہل جائیں اور جما ہوا خون دوبارہ جسم میں دوڑنے لگے ایسی مضبوط دعوت دیجئے کہ سرد جذبات میں حرارت پیدا ہو جائے اور ایسے اخلاص سے دعوت دیجئے کہ تصنع اور بناوٹ کا شائبہ تک نہ رہے یہ دعوت بچوں کو بھی سکھایئے تاکہ وہ بھی اسے آگے بڑھا سکیںآج کئی عرب ممالک میں معصوم بچے جمعہ کے دن نماز کے بعد کھڑے ہوکر جہاد کی ایسی موثر دعوت دیتے ہیں کہ لوگوں کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور وہ مجاہدین کی مالی امداد کے لئے فوراً تیار ہو جاتے ہیں ۔
دعوت دینے کا یہ سلیقہ عورتوں کو بھی سکھایئے کیونکہ اگر ان میں یہ خیر پھیل گئی تو پھر پورا معاشرہ اس سے متاثر ہو گا ۔ جہاد کی دعوت دینے والے ایک دو ہوں یا لاکھوں ۔ لاوڈاسپیکر مہیا ہوں یا نہ ہوں لوگ رغبت سے سنیں یا بے رغبتی سے ،دعوت دینے کے لئے جہاز یا ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر جانا پڑے یاپیدل ہر موقع پر والہانہ انداز میںاخلاص کے ساتھ ڈٹ کر دعوت دیجئے اور مسلمانوں کے ایک ایک فرد کو بیدار کر دیجئے ۔ ایک زمانے میں عیسائیوں کو شکست کا سامنا تھا تو ان کا ایک نیم برہنہ پادری گدھے پر صلیب رکھ کر نکلا تھا اور اس نے پوری عیسائی دنیا کو متحد کرلیا تھا ۔ جب ایک باطل پرست عیسائی ایسا کر سکتا ہے تو کیا آج کے اس دور میں جبکہ مسلمانوں کو سانس سے زیادہ جہاد کی ضرورت ہے ، مسلمانوں کے با عمل موثر افراد ہاتھوں میں قرآن مجید لے کر پوری امت مسلمہ کو جگانے کے لئے نہیں نکل سکتے ؟
اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر رحم فرمائے اور ہم سب کو دعوت جہاد اور عملی جہاد کی ادائیگی کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ آمین ]
 

اظہرالحق

محفلین
قرآن کہتا ہے ۔ ۔۔ انکے دلوں ، پر مہریں لگیں ہیں ، انکے کان بند ہیں اور وہ گویائی سے معذور ہیں ۔ ۔ ۔اور وہ ناسمجھ ہیں ۔ ۔ ۔

اب اور کیا کہوں کہ قرآن نے ہمارے بارے میں خود ہی کہ دیا ہے :cry:
 
جہاد کی طرف سبقت کی فضیلت کا بیان


جہاد کی طرف سبقت کی فضیلت کا بیان
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے ۔
(۱) سابقوا الی مغفرہ من ربکم وجنۃ عرضھا کعرض السمآ ولارض (الحدید۔۲۱)
لپکو بندو اپنے پرودگار کی بخشش کی طرف اور جنت کی (طرف) جس کا عرض آسمان اور زمین کاسا ہے ۔
اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔
(۲) والسبقون الاولون من المھجرین والانصار والذین اتبعو ھم باحسان رضی اﷲ عنھم ورضوا عنہ واعدلھم جنت تجری تحتا الانھر خلدین فیھا ابدا ذلک الفوز العظیم (التوبۃ۔ ۱۰۰)
جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے )پہلے مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنھوں نے نیکوں کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی اﷲ تعالیٰ ان سے خوش ہے اور وہ اﷲ تعالیٰ سے خوش ہیں اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (اور ) ہمیشہ ان میں رہیں گے ۔ یہ بڑی کامیابی ہے ۔
اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔
(۳)واسا بقون السابقون اولٓئک المقربون فی جنت النعیم۔(الواقعہ۱۰۔۱۱۔۲۱)
اور جو آگے بڑھنے والے ہیں (ان کا کیا کہنا)وہ آگے ہی بڑھنے والے ہیں وہی(اﷲ تعالیٰ کے) مقرب ہیں نعمت کی بہشتوں میں۔
٭ عثمان ابن ابو سودہ ؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ السّٰابِقُوْنَ السّٰابِقُوْن سے مرادوہ لوگ ہیں جو دوسروں سے پہلے جہاد اور نماز کے لئے نکلتے ہیں ۔(مصنف عبدرزاق رجالہ رجال الصحیح)
عثمان ابن ابو سودہ ؒ حضرات تابعین کے آئمہ اور مجاہدین میں سے ہیں اور ان کایہ مقولہ مشہور ہے کہ میں ایک لاکھ [سونے کے ]دیناروں عوض بھی ایک سال جہاد سے ناغہ کو پسند نہیں کرتا۔ ( تہذیب الکمال)
٭ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت مجاہدین کے ایک دستے کو روانگی کا حکم فرمایا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا رات ہی کو نکلے یا صبح تک ٹہرنے کی اجازت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا تم پسند نہیں کرتے کہ تم جنت کے باغات میں رات گزارو ۔ (المستدرک ۔السنن الکبریٰ بہیقی)
٭ حسن بن ابوالحسن سے روایت ہے کہ حضور اکر م ﷺ نے ایک لشکر روانہ فرمایا اس میں حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ بھی تھے سارا لشکر صبح کے وقت روانہ ہو گیا حضرت معاذ رضی اﷲ عنہ حضور اکرم ﷺکے ساتھ ظہر کی نماز پڑھنے کے لئے رک گئے جب حضور اکرم ﷺ نے انہیں دیکھا تو فرمایا جاو اپنے لشکر میں شامل ہو جاؤ تمہارے ساتھی تم سے جنت جانے میں ایک ماہ کی سبقت لے گئے ۔ حضرت معاذ رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا اے اﷲ کے رسول ! میرا ااردہ تو یہ تھا کہ میں آپ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھوںگا اور آپ سے دعائیں لوں گا اسطرح سے میں اپنے ساتھیوں پر [اجر وفضیلت میں ] سبقت لے جاوں گا ۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا بلکہ تیرے ساتھی تجھ سے سبقت لے گئے جاؤ ان کے ساتھ شامل ہو جاؤ ۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا ایک شام اﷲ کے راستے میں لگا دینا دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہے اور اسی طرح ایک صبح اﷲ کے راستے میں لگا دینا دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے افضل ہے ۔ ( کتاب السنن لسعید بن منصور )
٭ مسند احمد میں یہ روایت اس طرح سے ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت معاذرضی اﷲ عنہ سے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے ساتھی تم سے کتنا آگے نکل گئے انہوں نے عرض کیا وہ مجھ سے ایک صبح کی سبقت لے گئے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا مشرق ومغرب کے درمیان جتنا فاصلہ ہے اس سے بھی زیادہ فضیلت انہوں نے تجھ پر پا لی ہے ۔ (مسند احمد)
٭ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ حضوور اکرم ﷺ نے حضرت عبداﷲبن رواحہ کو جہاد کے لئے ایک لشکر میں روانہ فرمایا یہ روانگی جمعہ کے دن تھی چنانچہ لشکر روانہ ہو گیا ۔ حضرت عبداﷲ بن رواحہ نے سوچا کہ میں حضور اکرم ﷺ کے پیچھے جمعہ کی نماز پڑھ کر اپنے لشکر سے جا ملوں گا چنانچہ وہ رک گئے جب حضور اکرم ﷺ جمعہ کی نماز سے فارغ ہوئے اور آپ ﷺ نے انہں دیکھا تو ارشاد فرمایا اگر تم زمین کے تمام خزانے خرچ کر ڈالو تب بھی اپنے ساتھیوں کی ایک صبح کی فضیلت کو نہیں پا سکتے ۔ (ترمذی )
٭ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :جلد بازی نہ کرنا ہر چیز میں بہتر ہے سوائے تین چیزوں کے [کہ ان میں عجلت اور جلدی بہتر ہے ](۱)جب جہاد کے لئے پکارا جائے تو تم سب سے پہلے نکلنے والے بنو (۲)جب نماز کے لئے اذان دی جائے تو تم سب سے پہلے نکلو (۳)جب جنازہ آجائے تو اس میں جلدی کرو ۔
ان تین کے علاوہ باقی کاموں میں جلد بازی نہ کر نا بہتر ہے ۔ یہ آپ ﷺ نے تین بار دھرائی ۔ (شفاء الصدور)
[اﷲ تعالیٰ ہم سب کوجہاد کا ایسا جذبہ اور ولولہ عطا فرمائے کہ ہمارے لئے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جہاد میں نکلنا بلکہ سبقت کرنا آسان ہوجائے آمین ۔ حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ کے لئے سب کچھ چھوڑنا آسان ہو گیا تھا لیکن حضور اکرم ﷺ کی جدائی ا نہیں گوارہ نہیں تھی کیونکہ انہوں نے حضور ﷺ کی خاطر سب کچھ قربان کردیا اور انہیں حضور اکرم ﷺسے اس قدر سچا عشق تھا کہ وہ آپ ﷺکی طرف چلائے جانے والے تیروں کو اپنے سینے اور ہاتھوں سے رو کتے تھے اور آپ ﷺسے جدائی کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے مگر جب جہاد کا حکم نازل ہوا تو انہیں جہاد کی خاطر آپ کی جدائی بھی سہنی پڑی ۔ بہت ممکن تھاکہ حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ کے لئے یہ بہت مشکل ثابت ہوتا کیونکہ وہ تو ،رات کے وقت جب آقا سے جدا ہوتے تھے انہیں صرف صبح کا انتظار ہوتا تھا کہ کب صبح ہو اور ہم حضور اکر م ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کرنظروں اور دلوں کی پیاس بجھائیں مگر حضور اکرم ﷺنے جب ان کے سامنے جہاد کی حقیقت اور اہمیت بیان فرمائی تو ان کے لئے یہ امتحان بھی آسان ہوگیا اور انہوں نے جہاد کی خاطر حضور ﷺ کی جدائی کو بھی برداشت کیا ۔ ایک بار نہیں باربار انہیں یہ برداشت کرنا پڑا س دوران اگر کوئی صحابی عشق و محبت سے مغلوب ہو کر حضور اکرم ﷺ کی صحبت کے لئے چند لمحے مزید حاصل کرنے کے لئے پیچھے رہ جاتے تو آپﷺانہیں تنبہیہ فرماتے ۔
مذکورہ بالا واقعات میں حضرت عبداﷲ بن رواحہ رضی اﷲ عنہ کا واقعہ بھی ہے انہیں موتہ کی طرف روانگی سے پہلے حضور اکرم ﷺ کی باتوں سے معلوم ہو گیا تھا کہ وہ اس لڑائی میں شہید ہوجائیں گے چنانچہ وہ اپنی زندگی کا آخری جمعہ حضور اکرم ﷺکی معیت میں اداء کرنے کے لئے لشکر سے پیچھے رہ گئے اور ان کا ارادہ تھاکہ وہ اپنی تیز رفتار سواری پر اپنے لشکر سے جا ملیں گے مگر پھر بھی آنحضرت ﷺ نے انہیں تنبہیہ فرمائی اور صبح روانہ ہونے والے لشکر کی فضیلت بیان فرمائی ۔ آنحضرت کی انہی تعلیمات اور ترغیب کا نتیجہ تھا کہ حضرات کرام رضی اﷲ عنہم نے جہاد کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنالیا اور جہاد سے بڑھ کر کوئی چیز انہیں مرغوب و محبوب نہیں تھی ۔
آج بھی اگر مسلمان حضور ﷺکے ارشادات کو پڑھیں ، سمجھیں اور ان پر یقین کریں وہ بھی جذبہ جہاد کی نعمت سے سر شار ہوسکتے ہیں۔ ]
 
جزاک اللہ واجد بھائی خدا تمھیں جزائے خیر دے خدا کی قسم میری بھی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی
کہ ہے کیا اور ہو کیا رہا ہے ؟
 

زین

لائبریرین
آجکل تو جہاد کو نہ جانے کن کن مقاصد کے لئے استعمال کیاجارہا ہے اور جہاد کو اس حد تک بدنام کردیا گیا ہے اب عام زندگی میں اس کے حق میں بات کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
 

arifkarim

معطل
آجکل تو جہاد کو نہ جانے کن کن مقاصد کے لئے استعمال کیاجارہا ہے اور جہاد کو اس حد تک بدنام کردیا گیا ہے اب عام زندگی میں اس کے حق میں بات کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

بالکل نہیں۔ میں خود جہاد بالنفس کا قائل ہوں جو کہ جہاد اکبر ہے!
 

ساقی۔

محفلین
تو ہمیشہ پہلے چھوٹی چیز سیکھی جاتی ہے پھر سٹیپ بائی اسٹیپ بڑی کی طرف بڑھتے ہیں . اگر نفس کا جہاد اکبر ہے تو پہلے جہاد اصغر کریں تا کہ بڑے کی ہمت پیدا ہو.

لیکن مجھے معلوم ہے آپ اب بھی غلام احمد کا فلسفہ پیش ضرور کریں گئے. اور اللہ تعالیٰ بھی یہی فرماتے ہیں کہ:
ہم نے (اللہ نے) ان کے دلوں پر مہریں لگا دی ہیں . آپ جتنی بھی کوشش کیجیئے وہ نہیں سمجھنے والے . تا آنکہ آپ انہی کے مذہب پر چلنے والے نہ بن جائیں.
 

faqintel

محفلین
طالبان کے متعلق کچھ نہیں جانتا کوں کہ میں ان سے کبھی ملاہی نہی کہ وہ کس کس کام کو جہاد کہ تے ہیں
کیا کسی کو معلوم ہے کہ جہاد کی کتنی اقسام ہیں؟
 
Top