دشمن کون اور دوست کون ؟

علی ذاکر

محفلین
نقصان کس کا ہو رہا ہے اور فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے؟ مسلم ممالک کے جسم اور اہل اسلام کی جاں پاکستان کے طول و عرض میں کئے جا رہے بم دھماکوں اور خودکش حملوں سے کسی بھی مسلم ملک اور اہل ایمان کو تو کسی بھی حوالے سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا ہرگز نہیں پہنچ سکتا کوئی فائدہ جان و مال اور خون و خستہ حالی کا جو بھی نقصان ہو رہا ہے پاکستان کا ہو رہا ہے‘ پاکستان کے عوام کا ہو رہا ہے‘ پاکستان کی مسلح افواج کا ہو رہا ہے اور جس بھی کسی کا ایمان ہے کہ سب اہل ایمان ملتِ واحد ہیں وہ جہاں بھی کہیں رہتا ہے دنیا کے کسی بھی ملک کا باسی ہے اس کا ہو رہا ہے اور جو بھی کوئی ملک فرد یا ادارہ ملت اسلامیہ کا دشمن ہے اس کو فائدہ پہنچ رہا ہے اس تباہی اور بربادی سے۔ کیا فلسطین کے مسلمانوں کے دکھ درد کو پاکستان کے مسلمانوں نے ہمیشہ اپنا دکھ نہیں سمجھا؟ افغانستان پر روس کے قبضہ کے وقت سے پاکستان لاکھوں بے گھر ہو جانے والے افغان مسلمان بھائیوں کو اپنے سینے سے نہیں لگائے ہوئے؟ کیا بھارت کے جبرو جارحیت کے محبوس اپنے کشمیری بھائیوں کے دکھ سے کبھی پاکستان الگ ہوا ہے؟ کوئی بولے یا خاموش رہے جو بھی کوئی ملت اسلام کا ہمدرد ہے وہ لازماً اس ہمارے نقصان کو اپنا نقصان سمجھ رہا ہوگا۔ مگر کوئی کتنی بھی ہمدردی ظاہر کرے ملت اسلام کا جو بھی دشمن ہے وہ اس نقصان پر دل سے خوش ہے کہ اس کا سارا فائدہ اسے پہنچ رہا ہے اگر ایسا ہے اور اس سے صوفی محمد قبلہ بھی اختلاف نہیں کرسکتے کہ ایسا ہی ہے تو پھر کوئی بھی مسلمان اپنی ملت کے دشمنوں کے فائدے اور سب مسلمانوں کے نقصان کی جنگ میں کسی بھی طرح سے شامل ہو سکتا ہے کوئی بھی حصہ لے سکتا ہے؟ امریکہ اور اس کے سارے اتحادی دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف حیلے بہانوں سے مسلمانوں کے خلاف جو صلیبی جنگ لڑ رہے ہیں ایسے دھماکے اور خودکش حملے کرنے والے اس کے جواز اور مفاد کو مستحکم کر رہے؟ ایسے دھماکوں اور خودکش حملوں سے پاکستان کے عام و خاص کی کیا رائے مستحکم ہو رہی ہے؟ یہی ناکہ ایسے حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کا خاتمہ ضروری ہو گیا ہے۔ یہ حملے کیا ان کا مکمل خاتمہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پرانی منصوبہ بندی نہیں؟ تو پھر کیا ایسے حملے کرنے کروانے والے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی اس پرانی منصوبہ بندی کی تکمیل کے حق میں تو پاکستان کے خاص و عام کی رائے عامہ ہموار اور مستحکم نہیں کر رہے؟ اس صلیبی منصوبہ بندی کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کی جنگ تو نہیں لڑ رہے؟ اسی حوالے سے ہمیں تو یقین کی حد تک شبہ سا ہو رہا ہے کہ ان سارے حملوں کے پیچھے کہیں نہ کہیں امریکہ اور اس کے منصوبہ سازوں کا ہاتھ ہے کہ اس سے اسی کے حق میں رائے عامہ ہموار ہو رہی ہے۔ اس کے ماہرین نے اس مہارت سے منصوبہ بندی کی ہوئی ہے ایسی کامیابی سے اس پر عمل کر کرا رہے ہیں کہ ہمیں اپنے ملک عوام اور ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کے لئے اس جنگ میں شریک ہونا پڑ رہا ہے۔ صلیبیوں اور ان کے اتحادیوں کے مقاصد کے حصول اور تحفظ کی اس جنگ میں ہمیں کس نے دھکیلا ہے اور کون دھکیل رہا ہے؟ ہمارے لئے نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کی سی حالت زار ہمارے دشمنوں نے پیدا کر دی ہے یا دوستوں نے؟ دوست تو ایسا کر ہی نہیں سکتا۔ محاذوں یعنی ملک کی سرحدوں پر لڑی جانے والی جنگ میں دشمن سامنے ہوتا ہے مگر ملک کے اندر ملک اور قوم کے دشمنوں کے ساتھ لڑی جانے والی اس جنگ میں تو یہ بھی پتہ نہیں چل رہا کہ کون دشمن ہے اور کون دشمن نہیں ہے۔ ہماری مسلح افواج کے چیف کمانڈر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر اور حکمران اتحاد کے مالک و مختار آصف علی زرداری صاحب فرماتے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف اس جنگ کو ہم جیت کر دم لیں گے۔ ان کی جمہوریت کے چیف ایگزیکٹو بھی یہی عزم ظاہر کرتے ہیں اور مسلح افواج کے چیف آف دی سٹاف جنرل کیانی بھی۔ ہمیں اس مقام تک پہنچا دیا گیا ہے کہ اس جنگ کو جیتے بغیر ہمارے لئے اب کوئی چارہ کار نہیں رہ گیا۔ اس جنگ کو جیتنا ہماری مجبوری بنا دیا گیا ہے۔ قومی مجبوری ہے یہ ہماری‘ مگر اس جیت کے بعد کیا ہوگا؟ کیا امریکہ اور اس کے اتحادی ہماری جان اور آن چھوڑ دیں گے؟ ہم اپنے ملک کے لئے آزاد اور خود مختار خارجہ اور دفاعی پالیسی بنا اور چلا سکیں گے؟ پاکستان کی سرحدوں سے باہر جاری صلیبی جنگ سے علیحدہ ہو جائیں گے؟ صدر مکرم کے ماضی اور حال کو‘ انداز و نیاز کو‘ ذاتی اور سیاسی خواہشات اور مجبوریوں کو سامنے رکھیں تو کیا ہم اہل پاکستان ان سے کہہ سکتے ہیں کہ:
آقا و زردارِما
سرخوش و سرکارِ ما
بے بس و لاچار ما
تیز ترک گامزن
منزل ما دور نیست
وہ ہمارے زادار آقا تو ہیں ہماری خوش مزاج سرکار عالی مقام بھی وہی ہیں۔ بارک حسین اوباما اور ان کی انتظامیہ سے کئے خفیہ اور کھلے عہد و پیماں کے حوالے سے ہم سب میں بے بس اور لاچار بھی وہی ہیں مگر ان کی منزل تو ہماری قومی منزل نہیں۔ اس مسلط کی گئی مجبوری کی خانہ جنگی تک تو ہمیں مل کر چلنا ہے اس کے بعد تو ابھی سے ہماری اور ان کی منزل الگ الگ ہوتی دکھائی دے رہی ہے پھر ہم ان سے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہماری منزل دور نہیں تیز چلو ان کے ذاتی حوالوں سے یہ جنگ ان کے فائدے میں ہے یا نقصان میں؟ حال تو یہ ہے کہ…ع
بھکھے جٹ کٹورا لبھا پانی پی پی آپھریا
 
Top