دشمن کاسامنانہ کرنے کی آرزو اور جنت تلواروں کے سائےتلے۔۔۔۔۔

فرخ

محفلین
السلام و علیکم
بہت عرصہ پہلے میں نے اس حدیث کا صرف اتنا حصہ سُنا تھا "جنت تلواروں کے سائے تلے ہے" یا "جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے ہیں"۔ مگر پوری حدیث اب ملی اور شدت سے محسوس ہوا کہ اس حدیث میں*اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فراست و حکمت کی جو مثال ہےوہ بھی لوگوں تک بدرجہ اتم پہنچنی چاہیئے۔:
حدیث کا ترجمہ (جو زیادہ تر مفہومی ہوتاہے) پیشِ خدمت ہے۔ (کمی بیشی اللہ جل شانہ معاف فرمائیں ۔ آمین:

ابو ابر اہیم عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بعض ایام میں ، جن میں آپ کا دشمن سے سامنا ہو ا، انتظار فر ما یا ، ( یعنی لڑائی شروع نہیں کی ) حتیٰ کہ جب سو رج ڈھل گیا تو آپ ان ( صحابہ رضوان اللہم اجمعین) میں کھڑے ہوئے اور فر ما یا :'' اے لو گو ! دشمن سے ملا قات کی تمنا نہ کرو ، بلکہ اللہ تعالیٰ سے عافیت ما نگو ، لیکن جب دشمن سے آمنا سا منا ہو جا ئے تو پھر ثابت قدم رہو اور جا ن لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے ۔'' پھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعا فر مائی :'' اے اللہ !کتا ب کے نا زل کرنے والے ! بادلوں کو چلانے والے! فوجوں کو شکست دینے والے !انہیں شکست سے دو چار کردے اور ان کےخلاف ہماری مدد فر ما ۔'' ( متفق علیہ )
توثیق الحدیث :أخرجہ البخاری (٦/٣٣۔فتح)'و مسلم(١٧٤٦)


اسی سے متعلق ایک دوسری حدیث بھی ملاحظہ فرمائیے جو صحیح مسلم (مختصر ) کے مطالعے کے دوران سامنے آئی:

باب: دشمن کے ساتھ آمنا سامنا کرنے کی آرزو نہ کرنا، لیکن جب آمنا سامنا ہو، تو صبر کرنا چاہیئے
حدیث نمبر 1126
ابو النضر سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی جو کہ قبیلہ اسلم سے تعلق رکھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے، کی کتاب سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نےعمر بن عبیداللہ کو کہ جب وہ حروریہ کی طرف (لڑائی) کے لیئے نکلے، تو لکھا اور وہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل کی خبر دینا چاہتے تھے کہ جن دنوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دشمن سے لڑائی کی حالت میں*تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زوالِ آفتاب تک انتظار کیا پھر لوگوں (صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم اجمیعن) میں*کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! دشمن سے (لڑائی) ملاقات کی آرزو مت کرو اور اللہ تعالٰی سے سلامتی کی آرزو کرو۔ (لیکن)جب آمنا سامنا ہو جائے تو صبر سے کام لو اور جان رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور یوں*دعا فرمائی کہ اے اللہ! کتاب نازل فرمانے والے، بادلوں کو چلانے والے، اور جتھوں*کو بھگانے والے، ان کو بھگا دے اور ان پر ہماری مدد فرما۔
(آمین ثم آمین)
واللہ اعلم


نوٹ : جنت کے تلواروں کے سائے تلے ہونے سے متعلق شائید اور احادیث بھی مل جائیں۔۔۔۔

اللہ تعالٰی کمی بیشی کو معاف فرمائے۔ آمین، ثم آمین۔۔
 

Saraah

محفلین
وااعلیکم السلام
جی میں نے بھی آدھا حصہ پڑھا تھا
مزید تفصیل کے لیے بہت شکریہ
جزاک اللہ
 
Top