دسمبر 2012 مفروضات؛ نظریات اور حقائق

اشتیاق علی

لائبریرین
ایک نظریاتی دھوکا : ایک مفروضات پر مشتمل التباس، جس کی کڑیاں چند ایک خود ساختہ سائینٹفک حقائق پر مشتمل ہیں ۔ جیسا کہ دنیا جہاں کے سائنسدان اس بات پر تحقیق کر رہے ہیں کیا زمین پر زندگی اپنے اختتام کے قریب ہوتی جارہی ہے؛ جبکہ کچھ مفروضات یہ بھی ہیں کہ انسان خود ہی اپنے ہاتھوں اپنے انجام سے دوچار ہو گا؛ مذید برآں کچھ مفروضات یہ ہیں کہ اختتام بھی مظاہر قدرت میں سے ایک مظہر ہے ؛ اور اسی طرح مذاہب کے گروہوں میں یہ سوچ ہے کہ اللہ ہی زمین پر دنیا کا نظام ختم کرنے کو ہے۔
بہر حال سوچ کچھ بھی ہو نظریات کچھ بھی ہوں حقائق کے ماخذ اپنی دو رخی پر گامزن ہیں ؛ کیونکہ انسانی زندگی جن تجربات سے گزرتی ہے انکے پیش نظر کچھ نہ کچھ مفروضات ضرور قائم کیے جاتے ہیں یا پھر الہامی ذرائع کی روشنی میں نظریات اپنا وجود پاتے ہیں ۔ بہر حال معاملہ کچھ بھی ہو آج جبکہ یہ عقیدہ جنم لے چکا کہ دنیا اپنے انجام کو پہنچ چکی اور 12 دسمبر 2012 عیسوی کیلنڈر کا وہ دن ہے کہ جس دن زمین پر زندگی اپنی آخری سانسیں لے رہی ہو گی، مگر اسکے منطقی انجام پر جو نت نئے مفروضات پیش کئے جا رہے ہیں انکا سب سے پہلے جائزہ لیتے ہیں کہ اس نظریہ کا مفاد کس مکتبہ فکر کو بلاواسطہ پہنچے گا اور اس زمن میں بننے والی فلم جوکہ آج دنیا بھر کے سینما گھروں میں نمائش کیلئے پیش کر دی گئی ہے ؛ اسکا درون پردہ کیا کردار ہے ؟ البتہ پیشتر اسکے کہ ان مراحل سے گزرا جائے ؛ ایک اور اہم بات کا جائزہ بھی ضروری ہے کہ اس بساط پر مہرے کون سے پٹ رہے ہیں اور کھلاڑی کون سے ہیں؟
چند ایک حقائق کی آنچ سے گزرتے ہیں تاکہ کچھ بنیادی ڈھانچہ تشکیل پائے ؛ جبکہ بلا شبہ انسانیت کی نہج کبھی بھی ایک ڈگر پر گامزن نہیں رہی بلکہ تغیر و تبدل کا عمل دخل ہر لحظہ نظر آتا ہے جبکہ فطرت بھی کچھ اسی تقاضے کو مد نظر رکھتے ہوئے مہربان نظر آتی ہے کہ اگر ایک طرف دن ہے تو دوسری طرف رات، ایک طرف دھوپ ہے تو دوسری طرف چھاوں ، ایک طرف آفتاب ہے تو دوسری طرف مہتاب، ایک طرف آہ ہے تو دوسری طرف قاہ حتیٰ کہ ایک طرف اگر قربتوں پر وصل کی مہربانی ہے تو دوسرے ہی لمحے فراق کا قہر۔ماحول ، آب و ہوا ، بلندی و پستی ہر حال میں نہ صرف انسان پر اپنے اثرات چھوڑتے ہیں بلکہ اسکے چاہتے نہ چاہتے لحظہ بہ لحظہ اپنا تاثر قائم رکھے ہوئے ہیں۔ تبدیلی کا عنصر افراد پر کیونکر اثر انداز ہوتا ہے ؟ ایک دلچسپ اور چونکا دینے والا انکشاف ہے کیونکہ یکسانیت کے گرداب سے دوری ایک صحتمند انسانی فطری تقاضا ہے جبکہ تبدیلی کے محرکات جابجا موجود ہیں جسکے باعث اسے پھلنے پھولنے کا موقع غیر ارادی طور پر بھی ملتا رہتا ہے۔لہذا، ا گر افراد کی تربیت نہ کی جائے تو کیا ایک بچہ چلنا ، بولنا اور کھانا پینا کیسے سیکھ سکتا ہے، حالانکہ تمام محرکات موجود ہیں؟
بظاہر زندگی کا کاروبار بطور ردِعمل نظر آتا ہے جو بعد میں انسانی رویوں کی صورت اختیار کر لیتا ہے جبکہ تربیت ایک ایسا عنصر ہے جو جبلی تقاضوں سے بالاتر ا پنے نقوش چھوڑتا چلا جاتا ہے جسکے باعث مثبت تبدیلی جنم لیتی ہے ۔ یہ ایک ایسا ہی عمل ہے جیسے جنگلات کے مقابلے میں باغات ا گائے جائیں ، چاہے جنگلات کتنے ہی بھلے معلوم کیوں نہ ہو جو حسن انسانی ہاتھوں کے ترتیب دیئے باغات میں ہے وہ جنگلات میں کہاں؟ اکتسابی عمل ، تربیت کا اعجاز ہے کہ ایک ہی جیسے افراد دنیا کے مختلف شعبوں کے بانی و سربراہ ہیں حالانکہ انکی طبعی حالت ایک جیسی ہے ، اگر ایک ڈاکٹر ہے تو دوسرا انجنیئر ، ایک آرٹسٹ ہے تو دوسرا پہلوان، جبکہ کوئی گلوکار ہے تو کوئی موسیقار، کوئی کمپیوٹر پروگرامر ہے تو کوئی کمپیوٹر انجنیئر وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ یہ تربیتِ اختیاری کا شاخسانہ ہے کہ ایک جیسے افراد مختلف شعبہ زندگی پر حکومت کر رہے ہیں۔
مگر ایک انکشاف جو کہ اس متن کو آگے بڑھاتا ہے کہ افراد کی ایک غیر ارادی ، غیر اختیاری تربیت بھی ہو رہی ہے جسکے اہداف انسانی چور دروازے سے پورے ہوتے ہیں!!! ۔۔۔۔جی ہاں۔۔۔ یہ ایسا چور دروازہ ہے جسکا کہ بعض اوقات متاثر ہونے والے کو بھی علم نہیں ہوتا ، وہ ایک سلسلہ ہے تسلسل کے ساتھ ترغیب کا یعنی مسلسل ترغیب کا عمل ایک ایسا جادو اثر نتائج کا حامل عنصر ہے کہ جو تیر کبھی خطا نہیں جاتا۔ کیونکہ ترغیب ؛ یعنی جو ہپناٹزم کے ماہر ہیں وہ اپنی ترغیب کے ہتھیار سے وہ جادو اثر نتائج حاصل کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ اسی دروازے کے سہارے وہ لاکھوں کے مجمعے کو مبہوت کر دیتے ہیں کہ جسکا جواب نہیں۔ اسی کے بل بوتے وہ لوگوں کے اندر روابط تلاش کرتے ہیں اور اس زبان کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں جو اپنے راستے میں آنے والی کسی رکاوٹ کو آسانی سے عبور کر لیتی ہے ، لہذا انکی معاملات پر گرفت اور کامیابی کا گراف ہمیشہ آسمان کی بلندیوں پر رہتا ہے۔
انسانی ذہنوں کی ارادی قوت کو اپنی مرضی کے مطابق ردعمل میں تبدیل کرنے والی صلاحیت کے بل بوتے بہت سے لوگوں نے دنیا پر حکمرانی کی ہے جبکہ آج کے میڈیا کا ہتھیا ر بھی یہی قوت ہے۔ اگر ایک طرف کسی بھی خوبصورت انداز میں فلمائی گئی اشتہاری فلم، ایڈورٹائزمنٹ اپنا کام اس وقت کرتی ہے کہ جب آپ خریداری کرتے وقت کسی بھی چیز کو غیر ارادی طور پر چن لیتے ہیں تو دوسری طرف خوبصورت انداز میں فلمائے گئے ڈرامے ہیں جوکہ کسی بھی تہذیب کے زہر آلودہ رسم و رواج کو اسباق کی شکل دے کر اقساط میں فلم بند کئے جاتے ہیں اور اپنی رنگینی کے باعث دلربا ہوتے ہوئے روزمرہ کا حصہ بن جاتے ہیں۔
زمین پر زندگی کے دسمبر 2012 میں اختتام کی اس بساط پر مہرے وہ انسانی اذہان ہیں جنکی قلا بیں کسی نہ کسی طرح اسلام کی طرف رغبت رکھنے والوں سے ملتی ہیں؛ جبکہ اسی طور پہلا نظریاتی سلسلہ اس وقت قائم کیا گیا جب دنیا بھر میں اسلام کی طرف مختلف اقوام عالم کا رجوع بڑھا اور اسکے مقابل نظریاتی سرحدوں سے اسلام دشمن میڈیا نے انتہا پسند اور جنگجو کی لیبل کے ساتھ جو تصویر پیش کی وہ کہ ایک مسلم کی آئڈیل صورت بنتی ہے ؛تاکہ اذہان عالم اسطرح کے لوگوں کی طرف راغب ہونے سے غیر ارادی طور پر احتراز کریں اور دور رہیں ۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اسلام میں قیامت کا تصور پایا جاتا ہے جسکے مطابق دنیا مکافات عمل ہے اور آج جو بویا جائے گا کل اسی کو کاٹنا ہے، مگر یہ معاملہ زندگی کے مکمل خاتمہ پر ہو گا یعنی حیات بعد از مرگ ۔ اب دنیا کے خاتمے کے اس نئے مفروضے میں دوسرا نیا سلسلہ یہ ہے کہ زمین پر تباہی اور بربادی کا منطقی انجام قیامت پر نہیں ہوگا بلکہ وقت اپنے آپ کو روک کر نئے سرے سے مرتب Reset کرے گا ناکہ زندگی کا خاتمہ ہو گا اور افراد اپنی تدبیر سے اپنے وجود کو قائم رکھیں گے اور موت تدبیر کے ہاتھوں شکست کھا ئے گی جبکہ زندگی کا وجود برقرار رہے گا جو کہ کسی ایک سلسلہ کی کڑی ہو گی ۔اسی طرح اس نظرئیے کو بھی پانی ملتا ہے کہ جنکی نظر میں صرف آج ہی آج ہے کل کا کوئی وجود نہیں ، آج کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر کسی بھی مدھر مستی کو موج میں زندگی کو عیاشی کی راہوں پر ڈالنے والے تو کبھی بھی قیامت کے وجود کا تصور قائم نہیں کر سکتے ۔ زندگی کو کسی گمنام تنگ گلی میں موج مستی کی نظر کرنے والے اس خرام خوابی میں ہیں کہ زندگی کو دوام ہے اور آج کو کل نہیں جبکہ یہ صرف اور صرف التباس الحواسی اور خام خیالی ہے جسکی کوئی حیثیت نہیں۔
ازلوں سے اسلام کا بول بالا رہا ہے اور رہے گا کیونکہ ان تمام مفروضات کی کوئی بنیاد نہیں ہے جبکہ الہامی ذرائع ازل سے وہ معلومات دے رہی ہیں جو ہر حال میں اپنی حقانیت برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔ یہ بات چڑھتے سورج کی طرح عیاں ہے کہ سائنس آج جن بلندیوں کو چھو رہی ہے اور جو انکشافات کے ڈھیر لگا رہی ہے انکی تصویر الہامی ذرائع نے چودہ سو سال پہلے دکھا دی تھی ؛ البتہ دنیا کے اختتام کی اس نئی تصویر والی کو جنم دینے میں ٹیکنالوجی کا استعمال اپنی مثال آپ ہے ۔سراب نظر کو حقیقت کا رنگ دینے والی بدلتے تجربات اور حالات کی نہج ہر بہتی سائنس کی پیش بینی کا جواز کسی بھی طرح سے التباس الحواس تو پیدا کر سکتا ہے مگر حقائق سے آنکھیں ملانے کی جرات نہیں رکھتا ۔
ہمارے موجودہ سلسلہ زندگی کی روش میں تباہی اور بربادی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ جہاں آئے روز ناگہانی اموات اور معاشی مسائل کی چکی چل رہی ہو وہاں پسنے والی قوم کو اس طرح کے شوشے سے کسی طرح کے خدشے کا احتمال نہیں ہو سکتا؛ کیونکہ افراد خوف کی وہ حد پار کر چکے ہیں جہاں ناگہانی جیسے الفاظ دم توڑ دیتے ہیں بلکہ معاملہ کچھ یوں ہے کہ صبح سے شام تک کسی بھی لمحے کچھ بھی ہو سکتا ہے ؛ اسکی ذہنی تیاری پہلے سے ہی موجود ہے۔بوڑھوں؛ جوانوں ؛خواتین اور سکول جاتے بچوں کی بات ایک طرف ؛ کم سن بچے اسی دنیا کی تباہی کی فلم کو ” فلمیں” سمجھتے ہوئے اچھل اچھل کر انجوائے کرتے ہیں ناکہ کہ کسی خوف کا شکار ہوتے ہیں۔ خوف زدہ ہو نا یا گمراہی کے نظریات کا شکار ہونا کسی مسلم کا شیوا ء نہیں ۔ اسلامی عقائد کی اپنی سرحدیں ہیں جن پر ہر حملہ کا منہ توڑ جواب دینے کی سکت ایک ادنیٰ سے مسلم میں بھی موجود ہے جبکہ اسکا ایک چھوٹا سا اندازہ اس دنیا کے منطقی خاتمے کی فلمبندی میں واضع نظر آتا ہے کہ تباہی و بربادی کی مناظر فلماتے ہوئے اسلامی شعائر کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات بھی نہیں کی گئی جبکہ دیگر تمام مذاہب و نظریات کا انجام ضرور فلمایا گیا ہے ۔
مسلم عقائد ان تمام چور دروازوں سے گھسنے والے معاملات کو پہلے سے ہی قلع قمع کر چکے ہیں اور ایک واضع بنیادی اشارہ بھی موجود ہے کہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (5:51)
اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا بیشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا (5:51)
O ye who believe! take not the Jews and the Christians for your friends and protectors: They are but friends and protectors to each other. And he amongst you that turns to them (for friendship) is of them. Verily Allah guide th not a people unjustاسلام دشمن قوتیں آپس میں ایک ہیں چاہے معاملہ کوئی بھی اور دوستی کا معیار بھی قرآن نے واضع طور پر بتلا دیا ہے؛ لہذا کسی بھی نظریاتی رخنہ اندازی میں جو ممکنات موجود ہیں اسکا کے تدارک اور سد باب بتلا دیا گیا ہے البتہ اگر ہم کسی نئے مفروضے کی گمراہی کا مزہ چکھنا چاہتے ہیں تو فیصلہ صرف انفرادی حیثیت کا حامل ہوگا ۔


21 دسمبر 2012 کے بارے میں جن نظریات پر مبنی فلم بندی کی گئی اسکا ایک طرف تو کاروباری مفاد اپنی ایک جداگانہ حیثیت رکھتا ہے اور جسکا ظہور اس فلم کے ریلیز ہونے کے پہلے ہفتہ میں ہو چکا ۔ جبکہ نفسیاتی اور سماجی پہلو بھی وضاحت سے بیان ہو چکا ۔ البتہ اقوام عالم کو جس نئی جہت پر گامزن کرنے کی سوچ ہے اسکی تشکیلات میں سے یہ پہلو بھی نظر آرہا ہے کہ زندگی کو دوام ہے اور یہ سلسلہ ہر بار دنیا کی تباہی کی کھو کھ سے جنم لے گا اور ہر بار نیا سفر ہوگا جس کو انجام نہیں ؛ یا پھر ہر بار زندگی ایک نئے طوفان نوح سے دوچار ہو گی اور اپنے آپ کو از سرنو ترتیب دینے کا سلسلہ جاری رکھے گی ۔ مگر یہ تمام روش جو فقط قیاسی مفروضات پر مبنی ہے کبھی بھی امت مسلمہ کے بنیادی عقائد کو کبھی متزلزل نہیں کر سکتی کہ جہاں قرآن و احادیث مبارکہ میں ہر طرح کی وضاحت موجود ہے ؛ جسکے سامنے یہ نظریات پانی کے بلبلے کی مانند ہیں ۔يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي ۖ لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ۚ ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً ۗ يَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللَّهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
(7:187)


یہ لوگ تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس کے واقع ہونے کا وقت کب ہے۔ کہہ دو کہ اس کا علم تو میرے پروردگار ہی کو ہے۔ وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کردےگا۔ وہ آسمان وزمین میں ایک بھاری بات ہوگی اور ناگہاں تم پر آجائے گی۔ یہ تم سے اس طرح دریافت کرتے ہیں کہ گویا تم اس سے بخوبی واقف ہو۔ کہو کہ اس کا علم تو خدا ہی کو ہے لیکن اکثر لوگ یہ نہیں جانتے


تحریر تحقیق: محمد الطاف گوہر
 
Top