دستاویز کا ادبی رسائل و جرائد نمبر-اک ولولہ نو کی طرح

Rashid Ashraf

محفلین
دستاویز کا ادبی رسائل و جرائد نمبر
اک ولولہ نو کی طرح
خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے
جناب عزیز نبیل کی زیر ادارت دستاویز(دوحہ/دہلی) کا "اردو کے اہم ادبی رسائل و جرائد نمبر۔2011 ۔2012 " شائع ہوگیا ہے ۔750 صفحات پر مشتمل سالانہ عالمی اردو ادب کے سلسلے کی اس اہم ترین کڑی کو محض ایک ادبی مجلہ کہنا درست نہ ہوگا، گزشتہ ایک سو دس برس پر مشتمل اردو زبان کے ادبی رسائل و جرائد کا احاطہ کرتی یہ ایک تاریخی دستاویز ہے ۔ اس سے قبل سال 2011 میں دستاویز کا پہلا مجلہ شائع ہوا تھا۔​
بقول شخصے اتنا ضخیم پرچہ نکالنا اپنے آپ پر پرچہ دینے کے مترادف ہے!​
مذکورہ شمارے میں اردو کے اہم جرائد سے منتخب مضامین شامل کیے گیے ہیں۔ آغاز شیخ عبدالقادر کے مخزن کے پہلے شمارے سے ہوا ہے جو 1903 میں منظر عام پر آیا تھا جبکہ شب خون کے جون 1966 میں شائع ہونے والے اولین شمارے پر اختتام کیا گیا ہے۔ زیر نظر تحریر کی مدد سے اس پرچے کی ایک ہلکی سی جھلک ہی دکھانا ممکن ہے۔ دوحہ قطر میں بیٹھ کر یہ جناتی کام کیسے کیا گیا ہوگا، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ پاک و ہند میں رابطوں کو متحرک کیے بغیر یہ کام ناممکن تھا، گمان ہے کہ اس کام کے لیے نیک نیت اشخاص پر مبنی ایک گروہ نے اپنا آپ مدیر اعلی اور ان کے رفقاء کو سونپ دیا ہوگا، مختلف کتب خانوں میں جاکر جرائد کے نایاب نسخے حاصل کیے ہوں گے اور ان کی نقل بنوا کر سائل کو روانہ کیا ہوگا۔ عام آدمی سے اس کی امید رکھنا عبث ہے، یہ تو دیوانوں کے کرنے کا کام ہے۔ اردو کے تمام اہم ادبی جرائد و رسائل کے سرورق کے عکس بھی مجلے میں شامل کیے گئے ہیں۔ دستاویز کے اس شمارے میں پاک و ہند کے جن مشاہیر ادب کی تخلیقات کا انتخاب کیا گیا ہے ان میں علامہ اقبال، داغ، سیماب اکبر آبادی، استاد اختر انصاری اکبر آبادی، خواجہ حسن نظامی، حالی، شاد عظیم آبادی، راشد الخیری، وحشت، یھانہ، نیاز فتحپوری، اکبر، حسرت، جوش، فانی، اختر شیرانی، مجاز، اخترالایمان، منٹو، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، ماہر القادری، فیض، فراق، ناصر کاظمی، سردار جعفری، میرا جی، مجروح، محی الدین قادری زور، غیاث احمد گدی، قدرت اللہ شہاب، احتشام حسین، احمد ندیم قاسمی اور وزیر آغا شامل ہیں۔​
پرچے کے اولین صفحے پر موضوع کی مناسبت سے حفیظ میرٹھی کا یہ شعر اپنی بہار دکھا تا نظر آتا ہے:​
اف یہ جادہ کہ جسے دیکھ کے جی ڈرتا ہے​
کیا مسافر تھے جو اس راہ گزر سے گزرے​
زیر موضوع مجلے میں اردو کے جن رسائل و جرائد سے نثر و شاعری پر مبنی انتخاب شامل کیا گیا ہے ان کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے:​
مخزن۔ لاہور / دہلی اجراء: اپریل ۱۹۰۳
زمانہ ۔ کانپور اجراء: فروری ۱۹۰۳
عصمت ۔ دہلی/کراچی اجراء: جون ۱۹۰۸
الناظر۔لکھنؤ اجراء: ۱۹۰۹
علی گڑھ میگزین اجراء: ۱۹۲۰
ہمایوں۔ لاہور اجراء: جنوری ۱۹۲۱
نگار ۔ بھوپال/ لکھنؤ/ کراچی اجراء: اپریل ۱۹۰۳
نیرنگ خیال۔لاہور/ راولپنڈی اجراء: جون ۱۹۲۴
ادبی دنیا ۔لاہور اجراء: مئی ۱۹۲۹
ساقی۔دہلی / کراچی اجراء: جنوری ۱۹۳۰
شاعر۔آگرہ/ ممبئی اجراء: فروری ۱۹۳۰
ادب لطیف۔لاہور اجراء: مارچ ۱۹۳۵
ایشاء۔میرٹھ /ممبئی اجراء: اگست ۱۹۳۵
سب رس۔حیدرآباد دکن اجراء: جنوری ۱۹۳۸
آج کل۔دہلی اجراء: نومبر ۱۹۴۲
افکار۔بھوپال/کراچی اجراء: اپریل ۱۹۴۵
سویرا۔لاہور اجراء: جنوری ۱۹۴۷
نقوش۔لاہور اجراء: مارچ ۱۹۴۸
ماہ نو۔کراچی اجراء: ۱۹۴۸
شاہراہ۔ دہلی اجراء: ۱۹۴۹
تحریک ۔دہلی اجراء: مارچ ۱۹۵۳
نیا دور۔لکھنؤ اجراء: اپریل ۱۹۵۵
سوغات۔بنگلور اجراء: ۱۹۵۹
فنون۔لاہور اجراء: ۱۹۶۳
سیب۔کراچی اجراء: ستمبر ۱۹۶۴
اوراق۔لاہور اجراء: جنوری ۱۹۶۶
شب خون۔الہ آباد اجراء: جون ۱۹۶۶
دستاویز کے ابتدا میں چند اہم مضامین شامل کیے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے:​
اردو کے علمی و ادبی رسائل ۔ محی الدین قادری زور​
پاکستان کے معاصر ادبی رسائل و جرائد ۔ ڈاکٹر زیب النساء​
آن لائن ادبی رسائل و جرائد ۔ اعجاز عبید​
الہ آباد یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی صدر ڈاکٹر زیب النساء نے اپنے مضمون میں جن پاکستانی جرائد کا مختصر جائزہ پیش کیا ہے ان میں آئندہ ، ادبیات، دنیا زاد، آج، اجراء، اسالیب، الحمراء، تخلیق، چہارسو، بادبان، سمبل، مکالمہ، روشنائی، سویرا، ارتقاء، ماہ نو، قومی زبان، جریدہ، تسطیر، خیال، نقاط، ادب لطیف، فنون، نیرنگ خیال، نگار، اردو نامہ، بیلاگ، تجدید نو، ادب دوست، معاصر، انشاء، کاغذی پیرہن، سفید چھڑی، الاقربا، عطاء اور اجمال شامل ہیں۔​
دکن سے تعلق رکھنے والے میرے کرم فرما جناب اعجاز عبید اردو کی برقی کتابیں کے تحت ایک دنیا بسائے بیٹھے جہاں ۔ موجود کتابیں ’’ متن۔ کاپی لیفٹ۔ حوالے کے ساتھ نقل کرنے کی مکمل اجازت ہے۔‘‘ کی معصومانہ سی شرط کے ساتھ دستیاب رہتی ہیں، یہ الگ بات ہے کہ اس شرط کو اکثریت نظر انداز کرجاتی ہے۔ اعجاز عبید نے اپنے مضمون ’’ آن لائن ادبی رسائل و جرائد‘‘ میں انٹرنیٹ پر دستیاب ادبی جرائد ، بلاگز اور مختلف ویب اوراق کا جائزہ پیش کیا ہے۔ مذکورہ مضمون میں آن لائن جرائد کو مختلف زمروں میں نہایت موزوں طریقے سے تقسیم کیا گیا ہے یعنی وہ جرائد جو کلیتا ادبی ہیں، وہ جو رنگا رنگ نوعیت کے ہیں لیکن جن میں ادب کا گوشہ بھی موجود رہتا ہے، وہ جرائد جو پرنٹ اور انٹرنیٹ دونوں پر موجود ہیں اور وہ جرائد جو محض انٹرنیٹ ہی پر موجود ہیں۔ ان جرائد میں شامل نام یہ ہیں۔ سمت، دیدہ ور، شعر و سخن، کائنات، تخلیق نو، ادب لطیف، جدید ادب، دستاویز، اثبات، اردو کیمپس، کسوٹی جدید، نیا ورق، اسالیب، دستک، تحریر نو، مضراب، الا قربا ،، بزم سہارا، گلدستہ، سنگت، اردو دنیا، فکر و تحقیق، وسیلہ، سب رس، سائبان، حیات، اردو امکانات۔​
محی الدین قادری نے اپنے اہم مضمون ’’ اردو کے علمی و ادبی رسائل‘‘ میں اردو زبان میں شائع ہونے والے جریدوں کی تاریخ بیان کی ہے اور ان رسائل کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ ان کے مطابق پہلے دور کا آغاز 1850 میں اخبار خلائق، خیر خواہ ہند، محب ہند، نور علی نور، تحفتہ الحدائق، تعلیم الخلائق، زبدۃ الاخبار، سراج ا لاخبار،سید الاخبار، مظہر الاخبار اور اعظم الاخبار سے ہوا تھا۔​
دستاویز کے اس شمارے میں برصغیر کے معاصر ادبی رسائل کے مدیران سے انٹرویو بھی لیے گئے ہیں جن میں یکساں نوعیت کے سوالات پوچھے گئے ہیں۔ مدیران میں ماہنامہ شاعر ممبئی کے افتخار امام صدیقی، ماہنامہ آج کل دہلی کے ڈاکٹر ابرار رحمانی، ماہنامہ کتاب نما دہلی کے ڈاکٹر خالد محمود، ایوان اردو دہلی کے انیس اعظمی، سہ ماہی آج کراچی کے اجمل کمال، پرواز و سفیر اردو کے سید معراج جامی، رنگ دھنبا جھار کھنڈ کے مشتاق صدف، کسوٹی جدید کے انور شمیم، عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد کے ارشد خالد، جدید ادب جرمنی کے حیدر قریشی، اور سہ ماہی اثبات ممبئی کے اشعر نجمی شامل ہیں ۔ مختلف مدیروں نے ’ کیا کسی ادبی رسالے کا مدیر ہونے کے لیے شاعر یا ادیب ہونا ضروری ہے؟ ‘‘ اور ’’ کیا آپ کو اپنے رسالے کے زیادہ تر نسخے اعزازی طور پر روانہ کرنے پڑتے ہیں‘‘ جیسے دلچسپ سوالات کے جوابات بھی دلچسپ اور مختلف النوع دیے ہیں۔​
دستاویز کے آخر میں چوبیس صفحات پر مشتمل ’’ اردو کے اہم ادبی رسائل و جرائد کا اشاریہ‘‘ مرتب کرکے ایک نہایت اہم کام سرانجام دیا گیا ہے۔ یہ اشاریہ 600 ادبی رسائل و جرائد پر مشتمل ہے۔ اشاریے میں شامل نام رسالہ، مقام اشاعت، وقفہ اشاعت، جاری یا موقوف ، سن اجراء، مدیر اول اور موجودہ مدیر/آخری مدیر جیسی نایاب معلومات کو یکجا کردیا ہے ۔​
دستاویز کے مدیر اعلی اپنے اداریے میں کہتے ہیں ’’ ہم نے گزشتہ شمارے میں وعدہ کیا تھا کہ ہماری کوشش ہوگی کہ ہر شمارہ ایک مختلف دستاویز ہو، اپنی مثال آپ ہو، ہم اپنی کوشش میں کہاں تک کامیاب ہو سکے ہیں ، یہ فیصلہ اب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔‘‘​
مدیر محترم کی خدمت میں عرض ہے کہ آپ ایک ایسے ملک سے تعلق رکھتے ہیں جہاں اردو زبان کا مستقبل کچھ غیریقینی سا ہے، اردو زبان سے محبت اور وابستگی و پابستگی کی تمام منزلیں تو آپ طے کرگئے ہیں، گمان ہے کہ اس دوران شاید آپ اور آپ کے آشفتہ سر رفقاء نے اردو کی محبت میں ’ وہ قرض بھی اتار ڈالے ہوں جو واجب بھی نہیں تھے ‘۔ ۔ ۔ ۔ لیکن اس کے عوض جو ’دام‘ آپ کو اردو سے محبت کرنے والے قاری کی جانب سے ملیں گے، ان کا کوئی مول ہوگا نہیں۔ ۔۔۔فیصلہ تو کب کا ہوچکا، راقم کے یہ چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ شاید پہلا رد عمل کہلائیں کہ پرچہ کل ہی موصول ہوا ہے، دنیا بھر سے ستائش کا آنا باقی ہے، خلوص نیت پر قبولیت کی مہر ثبت ہوتی ابھی سے نظر آرہی ہے۔​


 

الف عین

لائبریرین
عزیز نبیل نے اطلاع دی تھی کہ پرچہ پچھلے ماہ ہی پوسٹ کیا جا رہا ہے۔ شاید حیدر آباد پہنچ چکا ہو گا۔ اس کی جھلک تمہارے توسط سے دیکھ لی راشد، جزاک اللہ خیر۔
پہلا شمارہ آن لائن دستیاب ہے، میری برقی کتابوں میں شامل ہے، اگر اب تک نہ دیکھا ہو تو!!
 

Rashid Ashraf

محفلین
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=21626
اعجاز صاحب! تصاویرکے ہمراہ خط نستعلیق میں یہ روداد آپ مندجہ بالا لنک پر پڑھ سکتے ہیں
عرض کروں کہ زیر نظر مضمون کئی فورمز پر شامل کیا گیا ہے، ایک غلغلہ ہر جو ہر جانب سے بلند ہورہاہے، چہار سو فرمائشیں چلی آرہی ہیں، ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب نے خصوصی طور پر فرمائش کی ہے۔ تازہ اطلاع یہ ہے کہ عزیز نبیل نے کراچی میں پرچے کے حصول کے لیے خاکسار کا پتہ دینے کا عندیہ دیا ہے جسے سن کر آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ہے، چشم تصور میں طلبگاران دستاویز کے پرے کے پرے اپنے گھر کا رخ کرتے دیکھ رہا ہوں ۔ ۔ ۔ بقول ابن صفی، اس واہ واہ کے چکر میں میں اپنے 'دھندے' سے بھی جاؤں گا۔ (جاسوسی دنیا: ٹھنڈی آگ کا آخری جملہ)
 

محمد وارث

لائبریرین
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=21626
اعجاز صاحب! تصاویرکے ہمراہ خط نستعلیق میں یہ روداد آپ مندجہ بالا لنک پر پڑھ سکتے ہیں
عرض کروں کہ زیر نظر مضمون کئی فورمز پر شامل کیا گیا ہے، ایک غلغلہ ہر جو ہر جانب سے بلند ہورہاہے، چہار سو فرمائشیں چلی آرہی ہیں، ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب نے خصوصی طور پر فرمائش کی ہے۔ تازہ اطلاع یہ ہے کہ عزیز نبیل نے کراچی میں پرچے کے حصول کے لیے خاکسار کا پتہ دینے کا عندیہ دیا ہے جسے سن کر آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ہے، چشم تصور میں طلبگاران دستاویز کے پرے کے پرے اپنے گھر کا رخ کرتے دیکھ رہا ہوں ۔ ۔ ۔ بقول ابن صفی، اس واہ واہ کے چکر میں میں اپنے 'دھندے' سے بھی جاؤں گا۔ (جاسوسی دنیا: ٹھنڈی آگ کا آخری جملہ)

اجی صاحب فکر نہ کریں میں آپ سے نہیں مانگوں گا :)
 

Rashid Ashraf

محفلین
وارث بھائی
عنقریب یہ شمارہ انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہوگا، دستاویز کا پہلا شمارہ تو ویب سائٹ پر موجود ہے
 
Top