فارسی شاعری در شناختِ خداوندِ پروردگار و رازق - یہودی فارسی شاعر مولانا عمرانی

حسان خان

لائبریرین
یہودی فارسی شاعری «عِمرانی» نے ۱۵۰۸ء میں «واجبات و ارکانِ سیزده‌گانهٔ ایمانِ اسرائیل» کے نام سے ایک مثنوی منظوم کی تھی، جس میں اُنہوں نے دینِ یہودیت کے تیرہ اُصول بیان کیے تھے۔ مثنوی کے بابِ پنجُم میں وہ لِکھتے ہیں:

(بابِ پنجُم در شناختِ خداوندِ پروردگار و رازق)
که خداوندِ قادر و اعظم
هست رزّاق و رازق و اکرم
او به تنها یقین خداوند است
بی زن و یار و خویش و پیوند است
خالقِ جِنّ و وحش و آدم اوست
رازقِ رزقِ کُلِّ عالَم اوست
اوست روزی دِهندهٔ آفاق
به‌جز او نیست خالق و خلّاق
سروَر جُملهٔ کریمان اوست
پدر و مادرِ یتیمان اوست
آن‌که دارد بُزُرگی و اقبال
وان‌که را هست سیم و جاه و مال
همه از رحمت و عنایتِ اوست
از کرم‌هایِ بی‌نهایتِ اوست
هرچه بینی ز فیضِ او برپاست
هر که دیدی ز لُطفِ او گویاست
کس جز او لایقِ پرستش نیست
که هزار است نامِ او و یکی‌ست
همچه او نیست پادیاوندی
ذوالجلال و حَی و خداوندی

(مولانا عمرانی)

(خداوندِ پروردگار و رازِق کی معرِفت کے بارے میں)
خداوندِ قادر و اعظم، رزّاق و رازق و اکرم ہے۔۔۔ بالیقین فقط وہ خداوند ہے۔۔۔ وہ کوئی زن و یار و قرابت دار نہیں رکھتا۔۔۔ جِنّ و حیوانات و آدم کا خالق وہ ہے۔۔۔ کُل عالَم کے رِزق کا رازق وہ ہے۔۔۔ وہ آفاق کا روزی دِہندہ ہے۔۔۔ اُس کے بجز کوئی خالِق و خلّاق نہیں ہے۔۔۔ جُملہ کریموں کا سروَر وہ ہے۔۔۔ یتیموں کا پدر و مادر وہ ہے۔۔۔ جو شخص بُزُرگی و سعادت مندی رکھتا ہے، اور جس شخص کے پاس زر و سِیم و جاہ و مال ہے، وہ سب اُس کی رحمت و عنایت اور اُس کے کرَم ہائے بے نہایت کے باعث ہے۔۔۔۔ تم جو چیز بھی دیکھو، وہ اُس کے فیض سے برپا ہے۔۔۔ تم نے جس کسی کو بھی دیکھا، وہ اُس کے لُطف سے تکلُّم کرتا ہے۔۔۔ اُس کے بجز کوئی لائقِ پرستِش نہیں ہے۔۔۔ کہ اُس کے نام ہزار ہیں، [لیکن خود] وہ ایک ہے۔۔۔ اُس جیسا کوئی ظفرمند و غالب نہیں ہے۔۔۔ اور نہ اُس جسا کوئی ذوالجلال و زندہ و خداوند ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
همچه او نیست پادیاوندی
«پادْیاونْد» پہلوی زبان کا لفظ ہے جو معیاری فارسی میں استعمال نہیں ہوا۔ مُختلف منابع میں اِس کا معنی پیروز، پیروزمند، نیرومند، پادشاه، زبردست، چِیره، غالب، مُظفّر، توانا، فیروزمند، زورمند، قوی، مُوفّق، ظافِر، غالب، قاہرِ وغیرہ نظر آیا ہے۔ لیکن ایک جگہ اِس کا معنی «تطهیرِ چیزی از راهِ دعا و نیاز» دیا ہوا تھا، جو مجھے، کم از کم اِس مندرجۂ بالا نظم میں، دُرُست معلوم نہ ہوا۔

تصحیح شُدہ متن میں «همچه» ہی ثبت ہے، جو «همچو» کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ شاید اُس دَور کے فارسی گو یہودیہوں کے گُفتاری لہجے میں «چو» کی مُتغیِّر شکل «چه» استعمال ہوتی ہو گی، اور شاعر نے بھی اِسی کو استعمال کیا ہو گا۔
 
Top