فارسی شاعری در ایمان آوردنِ پیغمبران - یہودی فارسی شاعر مولانا عمرانی

حسان خان

لائبریرین
یہودی فارسی شاعری «عِمرانی» نے ۱۵۰۸ء میں «واجبات و ارکانِ سیزده‌گانهٔ ایمانِ اسرائیل» کے نام سے ایک مثنوی منظوم کی تھی، جس میں اُنہوں نے دینِ یہودیت کے تیرہ اُصول بیان کیے تھے۔ مثنوی کے بابِ ششُم میں وہ لِکھتے ہیں:

(بابِ ششُم در ایمان آوردنِ پیغمبران)
واجب است این به هر که هست دین‌دار
که بِیارد به این سُخن اقرار
که نبُوآی ناویان اصلی‌ست
وای بر آن که اعتقادش نیست
جُمله هستند خادمِ جبّار
برِ حقّند جُمله اندر کار
برترند از جمیعِ موجودات
نیست‌شان را به‌هیچ وجْه آفات
روز و شب محرَمانِ درگاهند
همه از جان مُطیعِ الله‌اند
همه پیغمبرانِ جبّارند
همه از رازها خبردارند
سُخنانْشان تمام برحق است
هیچ شک نیست کاین سُخن حق است
هر که زان امرها بِتابد سر
هست گُم‌راه و مُلحِد و کافر

(مولانا عمرانی)

(پیغمبروں پر ایمان لانے کے بارے میں)
جو بھی شخص دین دار ہے، اُس کے لیے واجب ہے کہ وہ اِس سُخن پر ایمان لائے کہ: نبیوں کی نُبُوّت حقیقی و اصلی و بُنیادی ہے (یا یہ کہ یہ دین کی ایک اصل ہے)، اُس شخص پر وائے جس کو اِس پر اعتقاد نہیں ہے!۔۔۔ جُملہ انبیاء خدائے جبّار کے خادم ہیں، اور حق تعالیٰ کے نزدیک مشغولِ کار ہیں۔ وہ تمام موجودات سے برتر ہیں۔۔۔ کسی بھی رُو سے آفات اُن کے ہمراہ نہیں ہیں۔۔۔ وہ روز و شب درگاہِ خدواندی کے محرَم ہیں۔۔۔ وہ سب جان و دل سے اللہ کے مُطیع ہیں۔۔۔ وہ سب خدائے جبّار کے پیغمبران ہیں۔۔۔ جُملہ انبیاء رازوں سے باخبر ہیں۔۔۔ اُن کے تمام اقوال برحق ہیں۔۔۔ کوئی شک نہیں کہ یہ قول حق ہے۔۔۔ جو بھی شخص اُن اوامِر سے سر موڑتا ہے، وہ گُمراہ و مُلحِد و کافر ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
که نبُوآی ناویان اصلی‌ست
«نبُوآ» (نبُوئا) اور «ناوی» عبرانی الفاظ ہیں، اور بالترتیب «نُبُوّت» اور «نبی» معنی رکھتے ہیں۔
هیچ شک نیست کاین سُخن حق است
قلمی نُسخے میں یہ مصرع اِس طرح ثبت ہے:
هیچ شک باین سُخن حق است
مصرع کا وزن و مفہوم خراب ہونے کے باعث مثنوی کے تصحیح کُنندہ «آمنون نتضر» کا ظَنّ ہے کہ مصرع کچھ اِس طرح ہونا چاہیے تھا:
هیچ شک نیست کاین سُخن حق است
 
Top