فرخ منظور
لائبریرین
دریچہ
آخری سانس لے رہی ہے رات
دن ابھی ٹوٹ کے دو ٹکڑوں میں آ نکلے گا
نامکمل کئی وعدوں کی طرح
دستِ افلاک سے لٹکے ہوئے دھندلے تارے
منتظر آنکھوں میں آ گرتے ہیں قطرہ قطرہ
گونج اُٹھتی ہے کہیں رنج میں ڈوبی آواز
صبح کے راز عیاں کرتا یہ پہلا پنچھی
جس کے پر میری نگاہوں کی طنابوں سے بندھے
کھینچ دیتا ہے وہاں ایک سرے سے لے کر
میری بے خوابی کی سُرخی سے اُفق پر پھیلی
ایک بے انت لکیر
شام تک کھوجتا پھرتا ہی رہے گا یہ کنارہ اِس کا
اِس سے پہلے کہ فلک نیلا، زمیں سبز ہو، اور
رنگ سب کھُل کے ہنسیں کرنوں کی اُنگلی تھامے
اور ذرا دیر میں یہ خالی سڑک
کاڑیوں، رکشوں، بسوں سے گونجے
شب کی افسردگی، درماندگی، شوریدگی سب
دل کی آشفتگی اور تشنگی، رنجیدگی سب
صبح کے قدموں کی دھمک آتے ہی گم ہو جائے
خواب کا سحر کھُلے،
دن کے کاموں میں اُلجھ کر نہ مجھے یاد رہے
رات کا آخری پل کیسا تھا۔ کب تھا، کیا تھا!
اِس سے پہلے کہ کرن جھانکے دریچے میں مرے
اُس کی نرمی مرے ہاتھوں کو چھوئے
اور یہ جادو ٹوٹے
اپنے ہاتھوں کو میں ساکت کہیں رکھ چھوڑوں گی
میں دریچہ ہی نہیں کھولوں گی!
(عنبرین صلاح الدین)
۔۔۔۔۔۔۔
آخری سانس لے رہی ہے رات
دن ابھی ٹوٹ کے دو ٹکڑوں میں آ نکلے گا
نامکمل کئی وعدوں کی طرح
دستِ افلاک سے لٹکے ہوئے دھندلے تارے
منتظر آنکھوں میں آ گرتے ہیں قطرہ قطرہ
گونج اُٹھتی ہے کہیں رنج میں ڈوبی آواز
صبح کے راز عیاں کرتا یہ پہلا پنچھی
جس کے پر میری نگاہوں کی طنابوں سے بندھے
کھینچ دیتا ہے وہاں ایک سرے سے لے کر
میری بے خوابی کی سُرخی سے اُفق پر پھیلی
ایک بے انت لکیر
شام تک کھوجتا پھرتا ہی رہے گا یہ کنارہ اِس کا
اِس سے پہلے کہ فلک نیلا، زمیں سبز ہو، اور
رنگ سب کھُل کے ہنسیں کرنوں کی اُنگلی تھامے
اور ذرا دیر میں یہ خالی سڑک
کاڑیوں، رکشوں، بسوں سے گونجے
شب کی افسردگی، درماندگی، شوریدگی سب
دل کی آشفتگی اور تشنگی، رنجیدگی سب
صبح کے قدموں کی دھمک آتے ہی گم ہو جائے
خواب کا سحر کھُلے،
دن کے کاموں میں اُلجھ کر نہ مجھے یاد رہے
رات کا آخری پل کیسا تھا۔ کب تھا، کیا تھا!
اِس سے پہلے کہ کرن جھانکے دریچے میں مرے
اُس کی نرمی مرے ہاتھوں کو چھوئے
اور یہ جادو ٹوٹے
اپنے ہاتھوں کو میں ساکت کہیں رکھ چھوڑوں گی
میں دریچہ ہی نہیں کھولوں گی!
(عنبرین صلاح الدین)
۔۔۔۔۔۔۔
Window
The night is breathing the last breath
The day will arise, breaking into two.
Like many unfulfilled promises,
The dim stars hanging from the hands of night
Fall down in waiting eyes, drop by drop
A despair drenched voice echoes somewhere
A bird, disclosing the first secrets of the morning,
Whose wings are tied to my sight
Draws there, from end to end,
With the redness of my sleepless eyes, on the horizon
An infinite line
It will keep on searching for its edge till evening
Before the times, when the sky will be blue and the earth will be green
And all colours will laugh heartily, holding the fingers of the sunrays
This empty road will resound
With cars, rickshaws and buses
The melancholy, distress and madness of the night
The misery, longing and sadness of the heart
Will disappear with the thumping steps of the morning
The magic of the dream will be revealed
And I will forget, entangled in the routine works of the day
About the last moment of the night
How was it? What was it? When was it?
Before the time when the first ray of the sun will peep into my window
And would touch my hands softly,
Breaking the spell
I will put my hands immobile, away somewhere
I will not open the window!
(Translated from Urdu into English by the poet)