درد سے، یادوں سے، اشکوں سے شناسائی ہے۔ مفتی تقی عثمانی

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
درد سے، یادوں سے، اشکوں سے شناسائی ہے
کتنا آباد مرا گوشۂ تنہائی ہے

خار تو خار ہیں، کچھ گل بھی خفا ہیں مجھ سے
میں نے کانٹوں سے الجھنے کی سزا پائی ہے

میرے پیچھے تو ہے ہر آن یہ خلقت کا ہجوم
اب خدا جانے یہ عزت ہے کہ رسوائی ہے

ہاتھ نیکی سے تہی، سر پہ گناہوں کے پہاڑ
سب سہی، دل یہ مگر تیرا ہی شیدائی ہے

پھونک کر ساری تمناؤں کے دفتر، یہ دل
اب تو بس تیری تمنّا کا تمنائی ہے

اُن کا دیدار تقیؔ کیسا قیامت ہوگا
جب فقط اُن کے تصور میں یہ رعنائی ہے
 
مفتی صاحب دامت برکاتہ کی شخصیت واقعی نابغہ روزگار ہے... جو کام بھی کرتےہیں، کمال کر دیتے ہیں... سبحان اللہ
واقعی ایسے لوگ صدیوں میں ایک آدھ ہی پیدا ہوتے ہیں. ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے ان کا زمانہ پایا.
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ! خوبصورت غزل! مطلع کی کیا بات ہے!

اُن کا دیدار تقیؔ کیسا قیامت ہوگا
جب فقط اُن کے تصور میں یہ رعنائی ہے

بہت خوب!
 
Top