دامِ ظلمت سے مرے دل کو چھڑایا جائے

loneliness4ever

محفلین
کیا خوب عرض کیا ہے جناب
ڈھیروں داد قبول فرمائیں اس عمدہ غزل پر
اللہ پاک مزید ترقی عطا فرمائے آپ کو
اور حاسدوں کی نظر سے محفوظ رکھے ۔۔۔۔۔ آمین
 

نور وجدان

لائبریرین
آپ کی غزل بہت خوب ہے ۔۔۔۔

میں نے پہلے ہی کئی زخمِ کہن پالے ہیں
دوستو اور نہ اب مجھ کو ستایا جائے

یہ شعر مجھے پسند آیا ۔۔۔۔۔ جزاک اللہ ۔۔۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
ترکیب "خونِ وفا" کا لفظی ترجمہ دھوکا دے گیا شاید۔ وفا کا خون بمعنی قتل؟ اردو محاورے میں خون بمعنی قتل یا موت (خون کرنا، خون ہونا، خون ہو جانا، محبت کا خون، وفا کا خون؛ وغیرہ) درست ہے۔ فارسی ترکیب میں یہ معانی محلِ نظر ہیں۔ سیدھا سیدھا "قتلِ وفا" لکھئے۔ پہلا مصرع چست ہو سکتا تھا: اب ہے بے لوث محبت کا سبق یاد کسے، کس کو بے لوث محبت کا سبق یاد رہا، وغیرہ۔ یا پھر اس کو سیدھا محبوب پر فٹ کیجئے: وہ تو بے لوث محبت کا سبق بھول چکے؛ کچھ نہ کچھ بہتری ہو رہے گی۔
یہیں سے اک سوال ذہن میں آیا۔۔۔۔
گرہ لگائے ۔۔۔سلسلے میں ۔۔
ڈالئے سر پہ خاک و خونِ وفا
یہ تیمم بھی ہے ، وضو بھی ہے
یہ شعر ۔۔۔۔
اس ترکیب پر کچھ روشنی کریں ۔۔۔ کیا یہ درست ہے '' خاک و خون ِ وفا ۔۔۔۔
 
یہیں سے اک سوال ذہن میں آیا۔۔۔۔
گرہ لگائے ۔۔۔سلسلے میں ۔۔
ڈالئے سر پہ خاک و خونِ وفا
یہ تیمم بھی ہے ، وضو بھی ہے

یہ شعر ۔۔۔۔
اس ترکیب پر کچھ روشنی کریں ۔۔۔ کیا یہ درست ہے '' خاک و خون ِ وفا ۔۔۔۔

یہ شعر میں نے پڑھا ہے گرہ لگانے کے دھاگے میں۔ تاہم وہاں تبصرے طلب نہیں کئے گئے۔
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
چند تبدیلیوں کے ساتھ

دلِ بسمل کا تماشا نہ بنایا جائے
رُخ سے چلمن کو کسی طور ہٹایا جائے

اُن کا یوں صرفِ نظر کرنا سر آنکھوں پہ مگر
کچھ ہمیں بھی تو سبب اس کا بتایا جائے

ہجر کا درد رگِ جاں میں اُتر آتا ہے
اُن کو کس طرح یہ احساس دلایا جائے؟

وہ اگر ترکِ مراسم پہ ہی آمادہ ہیں
تو یہ فرمان سرِ بزم سُنایا جائے

ہوچکا پاسِ وفا گردشِ دوراں کی نذر
ایک آنسو بھی نہ اب اِس پہ بہایا جائے

آپ لاتے جو نہیں ہم کو کبھی خاطر میں
کیوں نہ آج آپ کو آئینہ دِکھایا جائے

برائے توجہ اساتذہ
محمد یعقوب آسی صاحب و الف عین صاحب
 
آخری تدوین:
ہوچکا پاسِ وفا گردشِ دوراں کی نذر
ایک آنسو بھی نہ اب اِس پہ بہایا جائے

آپ لاتے جو نہیں ہم کو
کسی خاطر میں
کیوں نہ پھر آپ کو آئینہ دِکھایا جائے
نَذْر (قربانی، صدقہ، پیش کرنا) یہ وتد مفروق ہے۔ (نَ ذْ ۔ ر) ۔
نَظَرْ (نگاہ، دیکھنا) یہ وتد مجموع ہے (نَ ۔ ظَ رْ) ۔
اس مصرعے میں عروضی ٹیکنیک پر تو یہ درست ہے تاہم ذوقِ سلیم پر کسی قدر گراں گزرتا ہے۔

خاطر میں نہ لانا ۔ یہاں کسی کا محل نہیں ہے۔ یہاں کبھی رکھ کے دیکھ لیجئے،
اور ۔۔۔ کبھی کے ساتھ ۔۔۔ کیوں نہ آج آپ کو ۔۔ ۔۔ ۔۔
پسند آ جائے تو ٹھیک ہے نہیں تو اختیار تو آپ کا ہے ہی۔۔۔۔
 

نجف ناجی

محفلین
(وہ اگر ترکِ مراسم پہ ہی آمادہ ہیں
تو یہ فرمان سرِ بزم سنایا جائے)
اس کا جواب نہیں۔ ۔
اوزان سے میں نابلد ہوں لیکن اس شعر نے دل کی تاروں میں ساز چھیڑ دیا ھے۔

بعد از دعا داد حاضر ہے!!!
 
Top