خیال کے گلستاں میں جانِ حزیں کو جھُولا جھُلا رہا ہوں - اختر انصاری دہلوی

کاشفی

محفلین
غزل
(اختر انصاری دہلوی)
خیال کے گلستاں میں جانِ حزیں کو جھُولا جھُلا رہا ہوں
بھری ہی رنج و محن سے دنیا، میں اس کو دل سے بُھلا رہا ہوں
کبھی دلوں کو غم و مصیبت کے تذکروں سے رُلا رہا ہوں
کبھی دماغوں کو عیش و عشرت کے قصّے کہہ کر سُلا رہا ہوں
پھر آرزوؤں کی دلفریبی پہ جان دینے لگا ہوں، یعنی
میں اپنی راحت نصیب دنیا میں آفتوں کو بُلا رہا ہوں
کبھی سنا تھا کہ جاں ہوتی ہے کم سے کم قیمت اک نظر کی
اسی سبب سے میں جاں دینے پہ زندگی بھر تُلا رہا ہوں
ہوا نہ تھا کوئی میرے دکھ میں شریک، اُس کا نتیجہ یہ ہے
کہ دوسروں کے غموں میں اختر ، میں اپنی جاں کو گھُلا رہا ہوں
 
Top