خیال کی اہمیت

نور وجدان

لائبریرین
کاش پوچھے کوئی لطف محبت،
لمحوں میں ہوتی ہے شَناسائی


انسان انسان سے مخاطب ہوتا ہے اور پتا نہیں چلتا ہمیں کہ درمیان میں حجاب ہے اور خدا کلام کرتا ہے ۔ جب نفس کا حجاب اٹھتا ہے یا اٹھتا چلا جاتا ہے یا وہ خود چلمنوں سے جھانکے تو لطفِ آشنائی سے واسطہ پڑجاتا ہے. خدا سے ہمکلامی گرچہ عام نہیں مگر یہ یہ محیط مکان سے لامحیط لامکان تک چلتی ہے. انسان چاہے جتنا گنہگار ہو، جس پر لطافت کی باریکیاں عیاں ہوجاتی ہیں وہ جان لیتا ہے ۔۔۔ ایسے اوقات جب وہ عیاں ہو تب تب کیفیات استعارہ بن جاتی ہیں ۔۔۔ ذات خود صاحبِ استعارہ ہوجاتی ہے ۔۔۔ کتنے اداکار ہیں جو کھیل میں شامل ہیں ... دیکھو مگر جب تک اداکاروں میں سچ چھپا نہ ہو تو فریب ہو جاتا سب کام اور اللہ فرماتا ہے

واللہ خیر الماکرین
خیال ملنے لگ جاتے ہیں، حق کے خیالات صورت صورت مل جاتے ہیں ۔۔ کسی کو جذب صابر پیا کلیری سے مل جاتا ہے تو کسی کے قلم میں ہجر کی آتش رومی سے کہیں خسرو سے مل جاتی ہے ... خیال فیض ہوتے ہیں. جب برتن صاف کردیا جاتا ہے تب منسلک کا اتصال ہوجاتا ہے یعنی کہ نسبتوں کا فیض، نسبتوں کو مکمل کردیتا ہے ۔۔۔۔۔ فیض کیسے مکمل ہوتا ہے؟ جب نفس پر روح کا خیال غالب آجائے ۔۔۔ نفس کہتا ہے لا الہ ۔۔۔ روح کہتی ہے الا اللہ ۔۔۔۔ فنا مکمل ہوجاتا ہے جب یہ خیال کو شاہِ دو جہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کچھ مل جاتا ہے ۔۔۔۔۔
ذات کی پریتم اچھی ہے اور خود کی نفی ذات کیجانب لیجاتی ہے ۔۔۔۔۔ تب وجدان رہنما ہوجاتا ہے ... تحت الشعور کی روشنی پھیلنے لگ جاتی ہے ۔۔۔۔ وجدان مانند عرق نیساں کا موتی ۔۔۔ جس پر نور کے چھینٹے اسکو ایسی روشنی دیتے کہ سب حجابات ہٹا دیے جاتے ہیں ۔۔۔۔ یہ مقام ایسا ہے کہ افلاک کے گرد زمین کی گردش تھم جاتی ہے اور سکتہ حیرت میں وہ وہ دکھا دیا جاتا ہے جسے کبھی شعور دیکھ نہیں سکتا

وسعی کرسیہ السماوات والارض
اسکی کُرسی کیا ہے؟ جب کہ وہ یہ بھی فرماتا ہے کہ

اللہ نور السماوات والارض

کرسی ۔۔۔ استعارہ ہے اسکے اختیار کا کہ جَہاں چاہے جیسے چاہے وہ چلائے کہ ہرشے میں نور اسکا ہے ۔۔۔ ہر شے میں خیال اسکا ہے ۔۔۔ ہر شے میں اختیار اسکا ہے ۔۔۔ کرسی کا درک و فہم ان پر کھلتا ہے جن کو وہ صاحب امر و دلِ بینا عطا کردیتا ہے ۔۔ دل بینا کا شعور ایسی فراست عطا کرتا ہے جس کے لیے فرمایا گیا

مومن کی فراست سے ڈرو ۔۔۔ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے

تب بادل کا گرجنا الگ اور برسنا یعنی رحمان و رحیم سے قہاری وجباری کی فہم مل جاتی ہے تو کہیں بجلیاں نشیمن گرادیتی ہیں ..کتنے دل ٹوٹ کے تسلیم کا وضو کرلیتے ہیں ..چاہے وہ شہد جیسا میٹھا گھونٹ بن کے ملے.یا نیزے پر سرکٹانا پڑے ۔۔۔ بندہ اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر کہتا ہے.

انسانوں کی کہیں مثال پہاڑ سے دی جاتی ہے تو کہیں شجر سے دی جاتی ہے ۔۔۔۔ شجر زیتون ایسا درخت ہے جسکو الہام سے شبیہ دی جاتی ہے ۔۔۔ جب انسان کا قطبی ستارہ تاریکی سے سحر میں طلوع ہوجاتا ہے یعنی کہ رابطہ مکمل پختہ ہو جاتا ہے تب الہام ذرائع سے ملتا جاتا ہے ۔۔۔۔ جب ذریعہ ذریعہ رہنما ہونے لگتا ہے تب یہ سمجھ لگتا ہے کہ آیت اللہ ۔۔۔ اصل میں وجہ اللہ ہے ۔۔۔۔۔ جس کو صورت صورت میں یار کی جلوہ گری مل جائے تو اس سے بڑی کامیابی کیا ہو!اس لیے عارفوں کی زمین کا آسمان خدا بذات خود ہوتا ہے

اللہ نور السماوات والارض


لن ترانی سے من رانی کا سفر طے ہوجاتا ہے اور آنکھ کو بینائی مل جاتی ہے جب دیکھنے والے ہمیں دیکھیں ... آنکھیں اسکو پہنچ نہیں سکتیں مگر وہ آنکھوں کو پالیتا ہے اور نور.عطا کرتا ہے ۔۔۔۔ جس سے دل دید کے قابل ہو جاتا ہے


انسان کا دل عرش جیسا ہے اور جب جلوے کا احساس ہو تو علم ہوتا ہے وہی محرمِ راز ہے ۔۔۔ جہاں جہاں الہام ہے ۔۔۔ جب وہ پرواز دیتا ہے تو بیضائی ہالے دل پر کیے رکھتا ہے...جہاں جہاں اسکا جلوہ ہو ۔۔۔ وہ مانند پانی.شفاف ہوتی ہے ۔۔۔ دراصل یہ راستے وہ خود طے کرتا ہے تاکہ وہ اپنی دید کرے ۔۔۔ اسلیے اسکا دل پر مجلی ہونا.راز ہے! یہ راز کی بات ہے نا وہ محرم راز ہے! وہ دکھ سکھ کا ساجھی ہے ۔۔ وہی ماہی ہے ۔۔۔۔ ذریعہ ذریعہ اس سے نور چھلکتا ہے چاہے یہ صورت ہو، چاہے کوئی تحریر ہو، چاہے پتھر ہو چاہے تصویر ۔۔ جب نور ملتا ہے تب دل وضو کرتا ہے، پانی مل جاتا ہے اور بندہ کہتا ہے کہ پانی ہے! پاکیزگی ہے! طہارت ہے!

قران کا لفظ لفظ آیت ہے اور روح خود اک آیت ہے ۔ آیت آیت سے مل جائے تو نور علی النور کی مثال سب در وا ہونے لگتے ہیں ..
 

سیما علی

لائبریرین
کاش پوچھے کوئی لطف محبت،
لمحوں میں ہوتی ہے شَناسائی


انسان انسان سے مخاطب ہوتا ہے اور پتا نہیں چلتا ہمیں کہ درمیان میں حجاب ہے اور خدا کلام کرتا ہے ۔ جب نفس کا حجاب اٹھتا ہے یا اٹھتا چلا جاتا ہے یا وہ خود چلمنوں سے جھانکے تو لطفِ آشنائی سے واسطہ پڑجاتا ہے. خدا سے ہمکلامی گرچہ عام نہیں مگر یہ یہ محیط مکان سے لامحیط لامکان تک چلتی ہے. انسان چاہے جتنا گنہگار ہو، جس پر لطافت کی باریکیاں عیاں ہوجاتی ہیں وہ جان لیتا ہے ۔۔۔ ایسے اوقات جب وہ عیاں ہو تب تب کیفیات استعارہ بن جاتی ہیں ۔۔۔ ذات خود صاحبِ استعارہ ہوجاتی ہے ۔۔۔ کتنے اداکار ہیں جو کھیل میں شامل ہیں ... دیکھو مگر جب تک اداکاروں میں سچ چھپا نہ ہو تو فریب ہو جاتا سب کام اور اللہ فرماتا ہے

واللہ خیر الماکرین
خیال ملنے لگ جاتے ہیں، حق کے خیالات صورت صورت مل جاتے ہیں ۔۔ کسی کو جذب صابر پیا کلیری سے مل جاتا ہے تو کسی کے قلم میں ہجر کی آتش رومی سے کہیں خسرو سے مل جاتی ہے ... خیال فیض ہوتے ہیں. جب برتن صاف کردیا جاتا ہے تب منسلک کا اتصال ہوجاتا ہے یعنی کہ نسبتوں کا فیض، نسبتوں کو مکمل کردیتا ہے ۔۔۔۔۔ فیض کیسے مکمل ہوتا ہے؟ جب نفس پر روح کا خیال غالب آجائے ۔۔۔ نفس کہتا ہے لا الہ ۔۔۔ روح کہتی ہے الا اللہ ۔۔۔۔ فنا مکمل ہوجاتا ہے جب یہ خیال کو شاہِ دو جہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کچھ مل جاتا ہے ۔۔۔۔۔
ذات کی پریتم اچھی ہے اور خود کی نفی ذات کیجانب لیجاتی ہے ۔۔۔۔۔ تب وجدان رہنما ہوجاتا ہے ... تحت الشعور کی روشنی پھیلنے لگ جاتی ہے ۔۔۔۔ وجدان مانند عرق نیساں کا موتی ۔۔۔ جس پر نور کے چھینٹے اسکو ایسی روشنی دیتے کہ سب حجابات ہٹا دیے جاتے ہیں ۔۔۔۔ یہ مقام ایسا ہے کہ افلاک کے گرد زمین کی گردش تھم جاتی ہے اور سکتہ حیرت میں وہ وہ دکھا دیا جاتا ہے جسے کبھی شعور دیکھ نہیں سکتا

وسعی کرسیہ السماوات والارض
اسکی کُرسی کیا ہے؟ جب کہ وہ یہ بھی فرماتا ہے کہ

اللہ نور السماوات والارض

کرسی ۔۔۔ استعارہ ہے اسکے اختیار کا کہ جَہاں چاہے جیسے چاہے وہ چلائے کہ ہرشے میں نور اسکا ہے ۔۔۔ ہر شے میں خیال اسکا ہے ۔۔۔ ہر شے میں اختیار اسکا ہے ۔۔۔ کرسی کا درک و فہم ان پر کھلتا ہے جن کو وہ صاحب امر و دلِ بینا عطا کردیتا ہے ۔۔ دل بینا کا شعور ایسی فراست عطا کرتا ہے جس کے لیے فرمایا گیا

مومن کی فراست سے ڈرو ۔۔۔ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے

تب بادل کا گرجنا الگ اور برسنا یعنی رحمان و رحیم سے قہاری وجباری کی فہم مل جاتی ہے تو کہیں بجلیاں نشیمن گرادیتی ہیں ..کتنے دل ٹوٹ کے تسلیم کا وضو کرلیتے ہیں ..چاہے وہ شہد جیسا میٹھا گھونٹ بن کے ملے.یا نیزے پر سرکٹانا پڑے ۔۔۔ بندہ اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر کہتا ہے.

انسانوں کی کہیں مثال پہاڑ سے دی جاتی ہے تو کہیں شجر سے دی جاتی ہے ۔۔۔۔ شجر زیتون ایسا درخت ہے جسکو الہام سے شبیہ دی جاتی ہے ۔۔۔ جب انسان کا قطبی ستارہ تاریکی سے سحر میں طلوع ہوجاتا ہے یعنی کہ رابطہ مکمل پختہ ہو جاتا ہے تب الہام ذرائع سے ملتا جاتا ہے ۔۔۔۔ جب ذریعہ ذریعہ رہنما ہونے لگتا ہے تب یہ سمجھ لگتا ہے کہ آیت اللہ ۔۔۔ اصل میں وجہ اللہ ہے ۔۔۔۔۔ جس کو صورت صورت میں یار کی جلوہ گری مل جائے تو اس سے بڑی کامیابی کیا ہو!اس لیے عارفوں کی زمین کا آسمان خدا بذات خود ہوتا ہے

اللہ نور السماوات والارض


لن ترانی سے من رانی کا سفر طے ہوجاتا ہے اور آنکھ کو بینائی مل جاتی ہے جب دیکھنے والے ہمیں دیکھیں ... آنکھیں اسکو پہنچ نہیں سکتیں مگر وہ آنکھوں کو پالیتا ہے اور نور.عطا کرتا ہے ۔۔۔۔ جس سے دل دید کے قابل ہو جاتا ہے


انسان کا دل عرش جیسا ہے اور جب جلوے کا احساس ہو تو علم ہوتا ہے وہی محرمِ راز ہے ۔۔۔ جہاں جہاں الہام ہے ۔۔۔ جب وہ پرواز دیتا ہے تو بیضائی ہالے دل پر کیے رکھتا ہے...جہاں جہاں اسکا جلوہ ہو ۔۔۔ وہ مانند پانی.شفاف ہوتی ہے ۔۔۔ دراصل یہ راستے وہ خود طے کرتا ہے تاکہ وہ اپنی دید کرے ۔۔۔ اسلیے اسکا دل پر مجلی ہونا.راز ہے! یہ راز کی بات ہے نا وہ محرم راز ہے! وہ دکھ سکھ کا ساجھی ہے ۔۔ وہی ماہی ہے ۔۔۔۔ ذریعہ ذریعہ اس سے نور چھلکتا ہے چاہے یہ صورت ہو، چاہے کوئی تحریر ہو، چاہے پتھر ہو چاہے تصویر ۔۔ جب نور ملتا ہے تب دل وضو کرتا ہے، پانی مل جاتا ہے اور بندہ کہتا ہے کہ پانی ہے! پاکیزگی ہے! طہارت ہے!

قران کا لفظ لفظ آیت ہے اور روح خود اک آیت ہے ۔ آیت آیت سے مل جائے تو نور علی النور کی مثال سب در وا ہونے لگتے ہیں ..
 

سیما علی

لائبریرین
انتہائ خوب صورت پیرائے میں مدعا بیان کیا گیا ہے اللہ کر ے زور قلم اور زیادہ نور وجدان صاحب بے شک مومن کی فراست سے ڈرنا چاہیے کیونکہ ایک تو وہ اللہ کے نور کو دیکھتاہے اور اسکی فہم و فراست ہر ایک سمجھ سے بالا تر ہے
لن ترانی سے من رانی بے حد دل موھ لینے والی بات میں آپ کی تعریف کے لیے الفاظ کم محسوس کر رہی ہوں سلامت رہیے شادوآباد رہیے آمین
 

نور وجدان

لائبریرین
انتہائ خوب صورت پیرائے میں مدعا بیان کیا گیا ہے اللہ کر ے زور قلم اور زیادہ نور وجدان صاحب بے شک مومن کی فراست سے ڈرنا چاہیے کیونکہ ایک تو وہ اللہ کے نور کو دیکھتاہے اور اسکی فہم و فراست ہر ایک سمجھ سے بالا تر ہے
لن ترانی سے من رانی بے حد دل موھ لینے والی بات میں آپ کی تعریف کے لیے الفاظ کم محسوس کر رہی ہوں سلامت رہیے شادوآباد رہیے آمین
بہت بہت شکریہ اس قدر قیمتی الفاظ پر
کہتے ہیں تحریر آئنہ ہوتی ۔۔۔ آپ کی یہ تحریر / تبصرہ بھی میرے لیے ایسی اہمیت کا حامل ہے ....دعا آپ کے لیے کہ یونہی دعا دیتی رہیے اور امن وسکون پاتی رہیے ۔۔۔ جزاک اللہ
 

فہد مقصود

محفلین
وسعی کرسیہ السماوات والارض
اسکی کُرسی کیا ہے؟ جب کہ وہ یہ بھی فرماتا ہے کہ

اللہ نور السماوات والارض

کرسی ۔۔۔ استعارہ ہے اسکے اختیار کا کہ جَہاں چاہے جیسے چاہے وہ چلائے کہ ہرشے میں نور اسکا ہے ۔۔۔ ہر شے میں خیال اسکا ہے ۔۔۔ ہر شے میں اختیار اسکا ہے ۔۔۔ کرسی کا درک و فہم ان پر کھلتا ہے جن کو وہ صاحب امر و دلِ بینا عطا کردیتا ہے ۔۔

اس حدیث کے بارے میں کیا خیال ہے:

Al-Kursi-1.jpg


Al-Kursi-2.jpg

Al-Kursi-3.jpg


https://kitabosunnat.com/kutub-library/ayat-al-kursi-k-fazail-w-tafseer

یعنی آپ وحدت الوجود، ہمہ اوست کی ترویج فرما رہے ہیں؟؟؟ آپ کو مشورہ دوں گا کہ اس کتاب کا ضرور مطالعہ فرمائیں ہو سکتا ہے خیالات میں تبدیلی آجائے۔ اور بہتر یہی ہوگا کہ اب جب میں نے آپ کی توجہ اس جانب مبذول کروا دی ہے تو آپ مخالف مکتبہ فکر کے عقائد کا بھی ضرور مطالعہ فرمائیں اور پھر اپنے خیالات کا پرچار کریں!!! ہو سکتا ہے جو آپ سمجھتے ہوں وہ درست نہ ہو اور ہو سکتا ہے وہ کتاب و سنت کے مخالف ہو!!!

شریعت و طریقت | Shariat wa Tariqat | کتاب و سنت

عطاء اللہ ڈیروی صاحب کی کتاب کا مطالعہ
 
Top