خوف آتا ہے پیار سے مجھ کو

ایم اے راجا

محفلین
ایک اور ٹوٹی پھوٹی غزل کی آمد ہوئی جو آج آپکی خدمت میں برائے اصلاح و رائے پیش کرتا ہوں۔

خوف آتا ہے پیار سے مجھ کو
پھول، خوشبو، بہار سے مجھ کو

مر نہ جاؤں کہیں، کسی دن یوں
ڈر لگے انتظار سے مجھ کو

دشت کا باسی ہوں محبت ہے
تشنگی اور خار سے مجھ کو

رہتا ہوں حادثوں کی بستی میں
غرض کب ہے قرار سے مجھ کو

میرے مولا نکال دے اب تو
عشق کے اس خمار سے مجھ کو

مل بھی جائے نجات اب راجا
درد اور غم کے بار سے مجھ کو
 

الف عین

لائبریرین
خوف آتا ہے پیار سے مجھ کو
پھول، خوشبو، بہار سے مجھ کو
مر نہ جاؤں کہیں، کسی دن یوں
ڈر لگے انتظار سے مجھ کو
۔۔۔۔ دونوں درست

دشت کا باسی ہوں محبت ہے
تشنگی اور خار سے مجھ کو
/// باسی کی ’ی ‘کا دبنا خوشگوار تاثر نہیں چھوڑتا، اس کے علاوہ ’محبت ہے‘ کا تعلق بھی کچھ چاہئے، مثلاً
دشت کا ہوں، سو مجھ کو الفت ہے

رہتا ہوں حادثوں کی بستی میں
غرض کب ہے قرار سے مجھ کو
/// ’رہتا‘ کے الف کا اسقاط ہو رہا ہے جو خوش گوار نہیں یہاں۔ اس کا کچھ سوچو۔
غرض کا تلفظ غلط باندھا گیا، درست ’ر‘ پر جزم/ سکون ہے، بر وزن درد۔ یوں درست ہو سکتا ہے
کب غرض ہے قرار سے مجھ کو

میرے مولا نکال دے اب تو
عشق کے اس خمار سے مجھ کو
///نکلنا کیوں چاہ رہے ہو راجا، سارے شعراء تو اس خمار میں ڈوب جانا چاہتے ہیں؟ شعر البتہ درست ہے

مل بھی جائے نجات اب راجا
درد اور غم کے بار سے مجھ کو
یہ شعر درست تو ہے لیکن بہت کمزور ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
میں نے اس غزل میں کافی تبدیلی کی اشعار کی ترتیب سمیت، اب ملاحظہ ہو۔

خوف آتا ہے پیار سے مجھ کو
پھول، خوشبو، بہار سے مجھ کو

میرے مولا نکال دے اب تُو
عشق کے اِس خمار سے مجھ کو

دشت میں ہے مکاں سو الفت ہے
تشنگی اور خار سے مجھ کو

مر نہ جاؤں کہیں، کسی دن یوں
ڈر لگے انتظار سے مجھ کو

حادثوں کی زمیں پہ رہتا ہوں
کب غرض ہے قرار سے مجھ کو

کاش کوئی نجات دے راجا
درد اور غم کے بار سے مجھ کو
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت بہت شکریہ، کاش کہ آپ کے قریب ہوتا تو آپکے پاؤں چھو لیتا، اور وارث صاحب کے بھی شاید اسی ڈر کیوجہ سے وہ آجکل یہاں آتے ہی نہیں ! :)
 
Top