خود پسندی ، خود نمائشی اور خود ستائشی از سید عون شیرازی

سین خے

محفلین
خود پسندی ، خود نمائشی اور خود ستائشی

سید عون شیرازی

کمال جی کمال، واہ آپ تو چھا گئی يا گئے ، بہت قيمتی تحرير ، نرالا اچھوتا انداز ، ارے آپ نے تو ايک نئی جہت متعارف کروا دی ، بہت خوب ، لکھنے کا سٹائل جدا اور دل کو لبھانے والا ہے , لفظوں کا استعمال تو کوئی آپ سے سیکھے ، اگلی تحرير کا انتظار رہے گا ، مختصر مگر جامع ، آپ کی تحرير نے تو روح کو جھنجھوڑ ديا ہے ، کيا پختہ الفاظی کی ہے ،کاٹ دار، ايکسٹرا آرڈنری ، سپيچ ليس، اٹس اميزنگ، پرفيکٹ ،سميت درجنوں ايسے الفاظ اور فقرات ہيں جو ايک ہی وقت ميں ترياق کا کام بھی کرتے ہيں اور زہرقاتل بھی ثابت ہو سکتے ہيں۔صاحب! آپ بھی حيران ہوں گے ،،، ايک چيز مثبت ہوتی ہے يا منفی ،، ايک ہی وقت ميں کوئی چيز اچھی اور بری کس طرح ہو سکتی ہے۔

چلیے ہم ہی بتا ديتے ہيں ٹھہريے ، پڑھيے۔۔ممکن ہے آپ ہم سے متفق نہ ہوں ، اور ضروری بھی نہيں کہ آپ متفق ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ کيوں کہ آپ کی سوچ کا زاويہ جدا ہو سکتا ہے۔

ہاں صاحب! تو ميں کہہ رہا تھا کہ کس طرح ايک وقت ميں کوئی چيز سفيد بھی ہو سکتی ہے اورسياہ بھی ۔تو جناب! جتنی چيزوں کا ہم نے ابتداء ميں ذکر کيا ہے ، يہ وہ اظہار رائے ہيں ،، جو آج کل اکثر سوشل میڈِیا پرتحريروں کو پڑھنے والوں کی طرف سے مصنف کے ليے درج ہوتے ہيں۔تحرير ڈھيلی بھی ہو تو حوصلہ افزائی کے ليے تعريف کر دی جاتی ہے کہ لکھنے سے بيزاری نہ ہو۔جو ايک لکھاری کے ليے ترياق کا کام ديتی ہے ، ليکن اگر تعريف و توصيف کے يہ الفاظ ، فقرات ، لائنيں، جملے ، بے جا غرور،تکبراورخود پرستی کا باعث بننا شروع ہو جائيں تو پھر تحرير لکھنے والا ادب کی اصل حقيقت سے دور پستی کا سفر شروع کر ديتا ہے۔تو پھر کونسی ايسی کسوٹی ہے جو پرکھ کر بتائے کہ کب کوئی چيز ترياق بنتی ہے اور کب زہر قاتل ۔جی وہ کسوٹی ہے ’’ظرف‘‘جی وہی ظرف جس کی آج کل شديد قلت ہے۔صاحب! ہم نہ تو کوئی اديب ہيں اور نہ ہی مصنف ، نہ لکھاری ہيں اور نہ ہی تنقيد نگار،نثر نگار ہيں نہ شاعر۔

ہاں ، صحافی ہونے کی وجہ سے قلم کے ساتھ اٹوٹ انگ رشتہ قائم ہے ، خوش قسمتی اور اعزاز يہ بھی ہے کہ ہم ’’نہج البلاغہ‘‘ کے خالق کی اولاد سے ہيں ، انہی کے در س مانگتے ہيں،اگر کبھی تھوڑی بھيک مل جائے تو دو چار لفط لکھ ليتے ہيں۔صاحب! ادب لکھنے کے ليے ضروری ہے ، کہ انسان خود بھی مودب ہو ۔ ۔ ۔ جس طرح آنکھوں کو کسی ويزے کی ضرورت نہيں ہوتی اسی طرح ادب سيکھا نہيں جاتا ۔ ۔ جب خود پرستی، غرور ، انا ، تکبر موجود نہ ہو تو پھر ادب اور عاجزی خود ہی کھل کر محو رقص ہوتے ہيں ، اسے ڈھونڈنا نہيں پڑتايہ اپنا پتا خود ديتے ہيں ، اور پھر اعلیٰ پائے کا اديب جنم ليتا ہےاچھا ادب لکھنا ہے تو خود کو تھوڑا مودب بھی بناؤ;;اديب حاضر دماغ ہوتے ہيں جگت باز نہيں;ادب کو لکھنا ہے تو ادب کرنا بھی سيکھو،چند خوبصورت فقرے لکھنا کسی طور پر بھی ادب نہيں۔اچھوتا ، مشکل نام يا تخلص رکھ لينے سے کوئی لکھاری نہيں بنتا۔مشہور اديبوں کي چار کتابوں کا ذکر کر کے کوئي پارسا نہيں ہو جاتا،خير بات لمبی ہو گئی ۔تو صاحب! سوال يہ اٹھتا ہے کہ ظرف چيز کيا ہے ؟؟

يہ خاصی طويل بحث ہے ، اس کو پھر کسی دن پر رکھتے ہيں ،، ليکن شايد آسان الفاظ ميں ظرف اس سوچ ، فہم ، شعور ، عقل ، تدبر ، تخيل ، سوچ اور ادراک کو کہتے ہيں جو خود پسندی ، خود نمائشی اور خود ستائشی سے کوسوں دور ہو۔
 

سین خے

محفلین
ہمارے یہاں عام طور پر صحت مند تنقید کو بھی پرسنل لے لیا جاتا ہے۔ حوصلہ افزائی بس اتنی ہی اچھی لگتی ہے جتنا کوئی اس کا حقدار ہو۔
 
Top