خود اپنے سامنے آجاؤں گا میں

نوید ناظم

محفلین
مفاعیلن مفاعیلن فعولن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خیالوں کی زمیں چاہے کہیں ہو
وہیں سے بھاگ کے آ جاؤں گا میں

جب اُس کو بھولنے کی بات ہو گی
خود اپنے سامنے آ جاؤں گا میں

دیے ہاتھوں میں لے کر کہہ رہا ہے
ذرا آندھی چلے آ جاؤں گا میں

کہو ویرانے سے یہ دشت مِیں ہوں
مِرے گھر میں رہے آ جاؤں گا میں

جو پاؤں میں ہیں زنجیریں تو پھر کیا
بلا لے وہ مجھے آ جاؤں گا میں

انہی ہاتھوں پہ سورج کو اُٹھائے
جو تجھ پر دن ڈھلے آجاؤں گا میں

بلا سے جو بھی ناصح کہہ رہا ہے
یوں کوچے سے تِرے آ جاؤں گا میں!!
 
Top