خوبی مری یہی تھی کہ اہل خطا تھا میں --غزل (مفتی تقی عثمانی)

یاسر شاہ

محفلین
غزل
(مفتی تقی عثمانی)

معصوم تھا نہ وقفِ سجود و دعا تھا میں
خوبی مری یہی تھی کہ اہلِ خطا تھا میں

اب تک میں اپنی ذات کے پنجرے میں بند ہوں
پل بھر کو تیری یاد سے غافل ہوا تھا میں

ابلیس ہے مرے لئے اک امتحاں تو کیا
ابلیس کے لئے بھی تو ایک ابتلا تھا میں

چل چل کے تھک چکے ہیں قدم پھر بھی اب تلک
ٹھیک اس جگہ کھڑا ہوں جہاں سے چلا تھا میں

حیرت نہ کر بدن کو مرے چور دیکھ کر
ان چوٹیوں کو دیکھ جہاں سے گرا تھا میں

اس لغزشِ حسیں پہ فدا لاکھ منزلیں
اپنا وجود کھو کے تمھیں پا گیا تھا میں


 
لاجواب غزل محترم مفتی صاحب کی۔ اللہ تعالیٰ ایمان و صحت سے بھرپور لمبی عمر عطا فرمائے۔ آمین۔
پوری غزل ہی خوب ہے، یہ دو اشعار تو دل میں اتر گئے۔
اب تک میں اپنی ذات کے پنجرے میں بند ہوں
پل بھر کو تیری یاد سے غافل ہوا تھا میں

ابلیس ہے مرے لئے اک امتحاں تو کیا
ابلیس کے لئے بھی تو ایک ابتلا تھا میں
 

یاسر شاہ

محفلین
ماشاءاللہ ماشاءاللہ، کیا ہی خوب غزل ہے۔

ماشاء اللہ
ماشاء اللہ
بہت خوبصورت غزل مفتی صاحب کی ۔

ماشاءاللہ۔ عمدہ غزل ۔
جزاکم اللہ خیر ا ۔
 
Top