خواہش کا مارا ہی اسے پڑھے ۔

سحرش سحر

محفلین
بقول مرزا صاحب (غالب) ....ہزاروں خواہشیں ایسی کہ.......(بس) ہر خواہش پہ دم نکلے ...
غالب صاحب بھی زیادہ سے زیادہ ارمانوں کے نکلنے کی خواہش لیے، اس دنیا سے چلے گئے۔ بے شک ہر انسان خواہشات کا اسیر ہے ۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ ان سے نبرد آزما ہوتے ہوتے زندگی کی اسیری سے خلاصی پا لیتا ہے ۔
ہر صاحب دل کی طرح میں بھی بچپن ہی سے بھانت بھانت کی خواہشات پالتی پوستی رہی ہوں ۔ صد شکر کہ کچھ تو بچپن سے جوانی تک کی بھول بھلیوں میں کہیں کھو گئیں یا پھر بھٹک گئیں اور کچھ ڈھیٹ قسم کی جو تھیں، وہ اب جوانی کی دہلیز پار کر چکی ہیں ۔لہذا میں نے اب یہ معمول بنا لیا ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد اپنے دل میں ایک جھانکی ضرور مار لیتی ہوں کہ کہیں خواہشات کا پیمانہ لبریز تو نہیں ہو گیا ہے ؟ کہیں معاملہ قابو سے باہرتو نہیں ہو گیا ہے؟ ؟؟
میرا اندازہ درست ثابت ہو تا ہے ۔ ہر بار بس پیمانہ چھلکنے ہی والا ہوتا ہے کیونکہ میری ان پالتو خواہشات میں سے کئی ایک فالتو بھی ہو چکی ہوتی ہیں ۔ تومیں ان کی تکمیل کا انتظار کیے بنا ان کا گلا گھونٹ کر مار دینا بہتر سمجھتی ہوں ...آخر کار منزل پر پہنچ کر بھی تو انھیں مرنا ہی ہوتا ہے ...اور جب منزل ہی کوئی نہ ہو تو مر جانا ہی بہتر یے...ویسے بھی اتنی مہنگائی میں بندہ خود کو ہی پالے تو غنیمت ہے
کچھ تو ایسی خطرناک ہیں کہ ان کا ذکر کرتے ہوئے بھی ڈرتی ہوں کیونکہ میرے اکثر ہمدرد اور رازدار ان کے متعلق جان کر کانوں کو ہاتھ لگا دیتے ہیں ۔ اور ان سے دستبردار ہو نے اور ان کا گلا کاٹنے کا خونی مشورہ بھی دے دیتے ہیں ۔
اب میں آپ کو بتاتی ہوں کہ مجھ سا کمزور انسان کس قسم کی خواہشات کا شکار ہے ۔
تو محترم قارئین! کچھ تو بہت ہی خونخوار اور ڈراونی قسم کی خواہشات ہیں میری ۔ ان کو میں زنجیریں ڈال کر دل کی ایک کوٹھڑی میں بند کر کے بڑا سا قفل ڈال کر رکھتی ہوں تاکہ یہ مجھے یا کسی اور کو نقصان نہ پہنچا دے ...یہ خواہشات خطرناک درندوں کی سی خصلت رکھتی ہیں ...چیر پھاڑ کر کھانے والی ۔ ان کو میں نے بہت مارنے کی کوشش کی مگر یہ کمبخت سخت جان بہت ہیں ۔ ان میں سے کچھ کو تو میں بچپن سے ہی پالنے پر مجبور ہوں ۔ نجانےکیوں! میں اب تک ان کو پالنے پر مجبور ہوں ۔ شاید انہوں نے ناصر کاظمی کا یہ شعر سن رکھا ہو:
وقت اچھا بھی آ ئے گا ناصر
زندگی پڑی ہے ابھی
یا پھر شاید ان کا سدھانا میرے لیے ایک چیلنج ہے .... شاید کبھی ان میں مہذب پن آ ہی جائے اور اپنی منزل پا لیں ۔(ویسے آپس کی بات ہے ان خونخواروں کی منزل اتنی بری نہیں، نہ ہی کسی گناہ پر مبنی ہیں .... پر کیا کریں اس سماج کے معیار کے مطابق نہیں اسلیے تو لوگ ان سے باز رہنے کی تلقین کرتےرہتے ہیں ۔)
کچھ میری خواہشات ہوس ناک اور حریص قسم کی ہیں ۔ یہ کتوں کی سی خصلت رکھتی ہیں ۔
ہر وقت بھونکتی رہتی ہیں ۔ دوسروں کے پاس کوئی بھی نعمت دیکھ کر زبان نکال کر ، منہ سے رال ٹپکانا شروع کر دیتی ہیں ۔ ہر چیز کو دیدے پھاڑ پھاڑ کر حریص نگاہوں سے دیکھتی رہتی ہیں اور بے بسی کے عالم میں پھر سے بھونکنے لگتی ہیں ۔ یہ بھی دوسروں کو کاٹ کھانے کے لیے دوڑتی ہیں ۔ خیر میں نے ان کے گلے میں بھی ایک رسی ڈالی تو ہے مگر کبھی کبھار یہ رسا تڑوا کر میرا دم ہی نکال دیتی ہیں ۔ میں انھیں بڑی مشکل سے قابو کر کے درندوں کی کوٹھڑی سے باہر باندھ کر رکھتی ہوں ۔ یہ کمبخت بھی سخت جان ہیں ۔ ان کتّا و کمینہ صفت خواہشات سے کوئی بھی انسان، چاہ کر بھی، جان نہیں چھڑا سکتا ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ان بڑی بڑی خواہشات کے شانہ بشانہ کچھ چھوٹی چھوٹی سی اور بہت ہی شریر قسم کی خواہشات بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہتی ہیں ۔ کسی شریر شیطان بچہ کی طرح ...... یہ مجھے سکون سے بیٹھنے ہی نہیں دیتیں بلکہ مجھے جلد ہی انھیں عملی جامہ پہنانے کے لیے اکساتی رہتی ہیں ۔ میں بھی جلدی جلدی انھیں نہلا دھلا کر جامہ تو پہنا دیتی ہوں چونکہ " جلدی کا کام شیطان کا"اسلیے میں ان کو بے ڈھنگا سا جامہ ہی پہنادیتی ہوں ۔ عموماان شریروں سے تو میں جلد ہی چھٹکارا پاتی ہوں کیونکہ عملی جامہ زیب تن کر کے ہی یہ مر جاتی ہیں " خس کم، جہاں پاک "
اور چند تو بہت ہی معصوم ہیں.... بہت پیاری... بہت حسیں ہیں ...ان کو میں بہت پیار سے پالتی ہوں ۔ ان کےلاڈ اٹھاتی ہوں ۔ انھیں میں جلد یا بدیر تکمیل سے ہمکنار ہونے کی لوری سنا سنا کر سلا کے رکھتی ہوں ۔ یہ ہیں اتنی خوبصورت تو تکمیل کا جامہ اور زیور پہن کر یہ کتنی حسین لگیں گی ۔ ان کی موت(تکمیل) بھی شاید شہید ہی کی موت ہو گی ۔ اعزاز کے قابل ....یادگار ۔
قارئین کرام! آپ لوگوں کی بھی مختلف خواہشات ہوں گی ۔ کچھ سے آپ کا دم نکلتا ہوگا اور کچھ کو شاید آنسووں میں بھی بہاتے ہوں گے اور کچھ بہت خوبصورت ہوتی ہوںگی ۔
میرے خیال میں انھیں حسین خواہشات کی بدولت ہی انسان کو زندگی حسین لگنے لگتی ہے ۔ انسان ان سے ہمکنار ہونے کے انتطار میں ہر لمحہ بھر پور طریقے سے جیتا ہے ۔ اگر زندگی میں سے خواہشات کی رنگا رنگی نکال دے جائے تو زندگی بے رنگ، بے کیف ہو جائے گی انسان زندگی کو بوجھ سمجھنے لگے گا۔ اس سے دور بھاگنے کی کوشش کرے گا ۔
خواہش" ایک طرح سے" آس" کا دوسرا نام ہے اور آس" زندگی" ہے ۔
زندگی سے فرار کے بجائے اسے گلے سے لگا کر پیار کریں کیونکہ یہ چلبلی اکلوتی ہے، بہت قیمتی ہے، اگر یہ روٹھ گئ تو دوسری نہیں ملنے کی ۔
حسین خواہشات سے سجی سجائی زندگی کا ہاتھ پکڑ کر جینا سیکھیں ۔

سحرش سحر
 
آخری تدوین:
بقول مرزا صاحب، غالب کے....ہزاروں خواہشیں ایسی کہ.......(بس) ہر خواہش پہ دم نکلے ...
غالب صاحب بھی زیادہ سے زیادہ ارمانوں کے نکلنے کی خواہش لیے، اس دنیا سے چلے گئے۔ بے شک ہر انسان خواہشات کا اسیر ہے ۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ ان سے نبرد آزما ہوتے ہوتے زندگی کی اسیری سے خلاصی پا لیتا ہے ۔
ہر صاحب دل کی طرح میں بھی بچپن ہی سے بھانت بھانت کی خواہشات پالتی پوستی رہی ہوں ۔ صد شکر کہ کچھ تو بچپن سے جوانی تک کی بھول بھلیوں میں کہیں کھو گئیں یا پھر بھٹک گئیں اور کچھ ڈھیٹ قسم کی جو تھیں، وہ اب جوانی کی دہلیز پار کر چکی ہیں ۔لہذا میں نے اب یہ معمول بنا لیا ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد اپنے دل میں ایک جھانکی ضرور مار لیتی ہوں کہ کہیں خواہشات کا پیمانہ لبریز تو نہیں ہو گیا ہے ؟ کہیں معاملہ قابو سے باہرتو نہیں ہو گیا ہے؟ ؟؟
میرا اندازہ درست ثابت ہو تا ہے ۔ ہر بار بس پیمانہ چھلکنے ہی والا ہوتا ہے کیونکہ میری ان پالتو خواہشات میں سے کئی ایک فالتو بھی ہو چکی ہوتی ہیں ۔ تومیں ان کی تکمیل کا انتظار کیے بنا ان کا گلا گھونٹ کر مار دینا بہتر سمجھتی ہوں ...آخر کار منزل پر پہنچ کر بھی تو انھیں مرنا ہی ہوتا ہے ...اور جب منزل ہی کوئی نہ ہو تو مر جانا ہی بہتر یے...ویسے بھی اتنی مہنگائی میں بندہ خود کو ہی پالے تو غنیمت ہے
کچھ تو ایسی خطرناک ہیں کہ ان کا ذکر کرتے ہوئے بھی ڈرتی ہوں کیونکہ میرے اکثر ہمدرد اور رازدار ان کے متعلق جان کر کانوں کو ہاتھ لگا دیتے ہیں ۔ اور ان سے دستبردار ہو نے اور ان کا گلا کاٹنے کا خونی مشورہ بھی دے دیتے ہیں ۔
اب میں آپ کو بتاتی ہوں کہ مجھ سا کمزور انسان کس قسم کی خواہشات کا شکار ہے ۔
تو محترم قارئین! کچھ تو بہت ہی خونخوار اور ڈراونی قسم کی خواہشات ہیں میری ۔ ان کو میں زنجیریں ڈال کر دل کی ایک کوٹھڑی میں بند کر کے بڑا سا قفل ڈال کر رکھتی ہوں تاکہ یہ مجھے یا کسی اور کو نقصان نہ پہنچا دے ...یہ خواہشات خطرناک درندوں کی سی خصلت رکھتی ہیں ...چیر پھاڑ کر کھانے والی ۔ ان کو میں نے بہت مارنے کی کوشش کی مگر یہ کمبخت سخت جان بہت ہیں ۔ ان میں سے کچھ کو تو میں بچپن سے ہی پالنے پر مجبور ہوں ۔ نجانےکیوں! میں اب تک ان کو پالنے پر مجبور ہوں ۔ شاید انہوں نے ناصر کاظمی کا یہ شعر سن رکھا ہو:
وقت اچھا بھی آ ئے گا ناصر
زندگی پڑی ہے ابھی
یا پھر شاید ان کا سدھانا میرے لیے ایک چیلنج ہے .... شاید کبھی ان میں مہذب پن آ ہی جائے اور اپنی منزل پا لیں ۔(ویسے آپس کی بات ہے ان خونخواروں کی منزل اتنی بری نہیں، نہ ہی کسی گناہ پر مبنی ہیں .... پر کیا کریں اس سماج کے معیار کے مطابق نہیں اسلیے تو لوگ ان سے باز رہنے کی تلقین کرتےرہتے ہیں ۔)
کچھ میری خواہشات ہوس ناک اور حریص قسم کی ہیں ۔ یہ کتوں کی سی خصلت رکھتی ہیں ۔
ہر وقت بھونکتی رہتی ہیں ۔ دوسروں کے پاس کوئی بھی نعمت دیکھ کر زبان نکال کر ، منہ سے رال ٹپکانا شروع کر دیتی ہیں ۔ ہر چیز کو دیدے پھاڑ پھاڑ کر حریص نگاہوں سے دیکھتی رہتی ہیں اور بے بسی کے عالم میں پھر سے بھونکنے لگتی ہیں ۔ یہ بھی دوسروں کو کاٹ کھانے کے لیے دوڑتی ہیں ۔ خیر میں نے ان کے گلے میں بھی ایک رسی ڈالی تو ہے مگر کبھی کبھار یہ رسا تڑوا کر میرا دم ہی نکال دیتی ہیں ۔ میں انھیں بڑی مشکل سے قابو کر کے درندوں کی کوٹھڑی سے باہر باندھ کر رکھتی ہوں ۔ یہ کمبخت بھی سخت جان ہیں ۔ ان کتّا و کمینہ صفت خواہشات سے کوئی بھی انسان، چاہ کر بھی، جان نہیں چھڑا سکتا ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ان بڑی بڑی خواہشات کے شانہ بشانہ کچھ چھوٹی چھوٹی سی اور بہت ہی شریر قسم کی خواہشات بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہتی ہیں ۔ کسی شریر شیطان بچہ کی طرح ...... یہ مجھے سکون سے بیٹھنے ہی نہیں دیتیں بلکہ مجھے جلد ہی انھیں عملی جامہ پہنانے کے لیے اکساتی رہتی ہیں ۔ میں بھی جلدی جلدی انھیں نہلا دھلا کر جامہ تو پہنا دیتی ہوں چونکہ " جلدی کا کام شیطان کا"اسلیے میں ان کو بے ڈھنگا سا جامہ ہی پہنادیتی ہوں ۔ عموماان شریروں سے تو میں جلد ہی چھٹکارا پاتی ہوں کیونکہ عملی جامہ زیب تن کر کے ہی یہ مر جاتی ہیں " خس کم، جہاں پاک "
اور چند تو بہت ہی معصوم ہیں.... بہت پیاری... بہت حسیں ہیں ...ان کو میں بہت پیار سے پالتی ہوں ۔ ان کےلاڈ اٹھاتی ہوں ۔ انھیں میں جلد یا بدیر تکمیل سے ہمکنار ہونے کی لوری سنا سنا کر سلا کے رکھتی ہوں ۔ یہ ہیں اتنی خوبصورت تو تکمیل کا جامہ اور زیور پہن کر یہ کتنی حسین لگیں گی ۔ ان کی موت(تکمیل) بھی شاید شہید ہی کی موت ہو گی ۔ اعزاز کے قابل ....یادگار ۔
قارئین کرام! آپ لوگوں کی بھی مختلف خواہشات ہوں گی ۔ کچھ سے آپ کا دم نکلتا ہوگا اور کچھ کو شاید آنسووں میں بھی بہاتے ہوں گے اور کچھ بہت خوبصورت ہوتی ہوںگی ۔
میرے خیال میں انھیں حسین خواہشات کی بدولت ہی انسان کو زندگی حسین لگنے لگتی ہے ۔ انسان ان سے ہمکنار ہونے کے انتطار میں ہر لمحہ بھر پور طریقے سے جیتا ہے ۔ اگر زندگی میں سے خواہشات کی رنگا رنگی نکال دے جائے تو زندگی بے رنگ، بے کیف ہو جائے گی انسان زندگی کو بوجھ سمجھنے لگے گا۔ اس سے دور بھاگنے کی کوشش کرے گا ۔
خواہش" ایک طرح سے" آس" کا دوسرا نام ہے اور آس" زندگی" ہے ۔
زندگی سے فرار کے بجائے اسے گلے سے لگا کر پیار کریں کیونکہ یہ چلبلی اکلوتی ہے، بہت قیمتی ہے، اگر یہ روٹھ گئ تو دوسری نہیں ملنے کی ۔
حسین خواہشات سے سجی سجائی زندگی کا ہاتھ پکڑ کر جینا سیکھیں ۔

سحرش سحر

بہت محترمہ

اپنی خواہشات کے بارے میں کافی خوش ہو کر لکھا ہے آپ نے اور بہت اچھے انداز سے اپنی خواہشات کو اپنی خواہش کے مطابق ہم تک پہنچا دیا ہے۔

خواہشات تو میری بھی اتنی ہیں کہ ان کو پورا کرنے کے لیے عمر نوح بھی کم ہو مگر چند ایک کو ضرور پورا کر لوں گا اور جو خواہشات پوری ہو گئیں ہیں ان کے لیے اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا شکر گزار ہوں
 

سحرش سحر

محفلین
محترم ! میں نے اپنی اس تحریر میں " میں " کا صیغہ اسلیے استعمال کیا ہے کہ کوئی حضرت انسان ان میں سے کسی آرزو، تمنا ،چاہت، خواہش کا برا نہ مان جائے ۔ اسلیے میں نے سارا ملبہ خود پر ڈال دیا ہے ۔
 
جی بلکل کیوں کہ جس طرح آپ نے کچھ خواہشات کو ڈراؤنا اور عجیب و غریب طریقے سے پیش کیا ہے کسی انسان کو برا لگے یانہیں البتہ خواہشات کو لازمی برا لگتا
قصہ مختصر۔

یہ خواہشات کا پنچھی عجیب ہے ہر روز

نئی فضائیں نیا آب و دانا چاہتا ہے
 
Top