خواتین پارلیمنٹ میں


۔۔۔فائل فوٹو۔
اپریل 1999ء میں سامیہ سرور کو مبینہ طور پر اپنے ہی اہل خانہ نے صرف اس وجہ سے مار ڈالا تھا کہ وہ اپنے بدسلوکی کرنے والے شوہر کو طلاق دینا چاہتی تھی۔ اس وقت کی سینٹ نے انکے قتل کی مذمت تک نہیں کی تھی۔ 2011ء میں ملک کی پارلیمنٹ نے اتفاق رائے سے ایک بل کی منظوری دی جسکے تحت جبری شادی، وراثت سے محروم کردینا اور قرآن سے شادی کروادینے جیسے خواتین دشمن اقدامات پر پابندی لگادی گئی۔
1999ء کی پارلیمنٹ میں خواتین کی بمشکل کوئی آواز تھی۔ انکے لیے کوئی مخصوص نشستیں نہیں تھیں حالانکہ اس سے پہلے والی پالیمنٹوں میں مخصوص نشستوں کا وجود ہوا کرتا تھا۔ 2002ء میں صدر مشرف نے سابقہ کوٹہ جو کہ بیس ہوا کرتا تھا اسے بڑھا کر ساٹھ کردیا جس کے باعث بڑی تعداد میں خواتین پارلیمنٹ کا حصہ بنیں۔ اب انکی تعداد پالیمنٹ میں 22٫5 فیصد ہے جو کہ نیپال کے بعد جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔
انتخابات کی آمد آمد ہے۔ اس موقع پر اس بات کا تجزیہ کی جاسکتا ہے کہ خواتین کی پارلیمنٹ میں اضافی موجودگی نے پاکستان کی خواتین کے لیے کیا کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے قانون ساز ادارے نے گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران سب سے زیادہ خواتین کے حامی قوانین کی منظوری دی ہے۔ یہ قوانین زیادتی، کاروکاری، جنسی طور پر ہراساں کرنا، جبری شادی اور قرآن سے شادی سے متعلق تھے۔
2006ء میں حدود آرڈینینس میں ترمیم کی گئی جسکے بعد زیادتی کا مقدمہ اب پاکستان پینل کوڈ کے تحت لڑا جائے گا۔ اس پیش رفت کی وجہ سے جیلوں میں بند ہزاروں خواتین جو اپنے خلاف زیادتی کا کیس لڑ رہی تھیں اور اسے زنا کا معاملہ بنادیا گیا تھا کو رہا کردیا گیا۔ اب زیادتی کے معاملے کو زنا میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ 2011ء کے ایک سروے کے مطابق، پاکستانی جیلوں میں زنا کے الزامات کی وجہ سے ایک بھی خاتون بند نہیں تھیں۔
تاہم 2004ء میں کریمنل ایکٹ ترمیم جس میں غیرت کے نام پر جرائم کی وضاحت کی گئی ہے، کی وجہ سے کئی قانونی خامیاں پیدا ہوگئی ہیں جس میں دونوں پارٹیوں کے درمیان سمجھوتہ بھی شامل ہے۔ عورت فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں پچھلے سال کے دوران پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل میں 26 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
حال ہی میں کچھ ملزمان کو نئے تیزاب میں جلانے سے متعلق قوانین کے تحت پہلے کے مقابلے میں بڑی سزائیں ہوئی ہیں۔ تاہم یہ قانون کافی نہیں ہے۔ ہر سال رپورٹ ہونے والے 150 کیسز میں سے صرف چھ فیصد کو سزائیں ہوتی ہیں جبکہ ایک بڑی تعداد میں کیسز تو رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے۔ اس حوالے سے ایک جامع بل جس میں تمام امور بشمول تحقیقات، تیزاب کی خریداری کی روک تھام اور متاثرہ شخص کے علاج شامل ہوں ابھی تک صوبائی اسمبلیوں سے منظور نہیں ہوا۔
دوسری جانب جنسی طور پر ہراساں کیے جانے سے متعلق بل کا اثر بہتر انداز میں ہوا ہے۔ نافذ کیے جانے کے بعد سے کئی معاملات میں اس بل کی وجہ سے کامیابی ہوئی ہے جس میں خود کار کمیٹیوں نے کئی پاکستانی جامعات میں کام کرنے والے افراد کو ملازمت سے فارغ کیا ہے۔
گھریلو تشدد بل کا منظور نہ ہونا ایک بڑا دھچکا تھا۔ اس بل کی مذہبی حلقوں کی جانب سے تنقید کی گئی کیوں کہ ان کے مطابق اس سے ‘شادی کی حرمت تباہ ہوجائے گی’۔ مخالفت کے باوجود خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کو اس بات پر یقین ہے کہ اگر کیری لوگر بل پر تنازعہ کھڑا نہ ہوتا تو اس بل پر اتفاق کیا جاسکتا تھا۔ کاکن انیس ہارون کے مطابق، حکومت نے مذہبی حلقوں کو خوش کرنے کے لیے بل کو پشت پر ڈال دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پیش رفت خواتین کے حقوق کا سودہ کرکے کی گئی۔
اب صورت حال یہ ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد اس حوالے سے قانون سازی صوبائی اسمبلیوں میں ہوسکتی ہے جو کہ الیکشن کے سال مشکل ہی نظر آتا ہے۔
ابھی بھی خواتین کے حقوق کے لیے بہت کچھ کیا جانا باقی تاکہ اس حوالے سے قانون سازی کو زیادہ موثر بنایا جاسکے جبکہ اس حوالے سے کئی رکاوٹیں بھی موجود ہیں۔ تاہم قانون سازی کا عمل بھی ایک بڑی پیشرفت ہے جس سے خواتین رکن پارلیمنٹ کو اپنے ایجنڈے پر کام کرنے کے لیے جگہ ملی۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان کا کہنا تھا کہ خواتین قانون ساز پورے عمل کے لیے بہت اہم تھیں جبکہ کچھ مرد قانون سازوں نے بھی حمایت کی۔ انہوں اپنی پارٹیوں کی پرواہ کیے بغیر ایک دوسرے کا ساتھ دیا اور اپنے مرد ہم منصبوں کے خلاف لابی قائم کرتے ہوئے انکی حمایت حاصل کی۔ امید کی جاسکتی ہے کہ انکے کاوشوں کا اثر صوبائی اسمبلیوں پر بھی پڑے گا جسے اس عمل کو آگے بڑھانا ہے۔

تحریر کا ربط
 
Top