خواتین اور ہمارہ معاشرہ

احمد محمد

محفلین
عصر اور مغرب کے درمیانی اوقات میں قریبی پارک میں چہل قدمی کے لیے جانا معمول کا حصہ ہے۔ اس سے دفتری خصوصاً کمپیوٹر پر گھنٹوں کام کرنے سے ہوئی تھکان اور اعصابی تناؤ سے کافی حد تک نجات مل جاتی ہے۔ اور پارک میں مستقل آنے والوں سے ہلکی پھلکی غیر رسمی گفتگو سے ذہین بھی تروتازہ ہو جاتا ہے۔ چہل قدمی کے اختتام پر تھوڑی دیر سستانے اور ہوا خوری کے لیے بینچ پر خاموشی سے بیٹھ جاتا ہوں۔ اس سے دن میں کچھ وقت بالکل خاموشی سے گذارنے کی عادت ڈالنے کی کوشش بھی کرتا ہوں۔

ابھی بینچ پر جا کر بیٹھا ہی تھا کہ کچھ دیر بعد چند لڑکیاں جو عمر کے لحاظ سے میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کی طالبات معلوم ہو رہی تھی (اور شاید اکیڈمی یا کسی ٹیوشن سینٹر سے واپسی پر پارک میں آ گئی تھیں) میرے نزدیکی بینچ کے پاس آ کر شور شرابا کرنے لگیں۔ پہلے میری تصویر بناؤ۔۔۔ نہیں پہلے میری / ہماری۔۔۔ اب میری باری۔۔۔ دیکھو میں نے تمہاری کتنی اچھی تصویر بنائی۔ دیکھاؤ دیکھاؤ۔۔۔ مجھے بھی دیکھاؤ۔۔۔ نہیں یار ذرا بھی اچھی نہیں ہے۔۔۔ دوبارہ بناؤ اور پلیز ٹھیک سے بنانا۔۔۔۔ خلافِ معمول اس ہنگامہ سے میں انکی طرف متوجہ ہوگیا اور دیکھنے لگا۔ وہ موبائل فونز سے باری باری ایک دوسرے کی تصاویر بنارہی ہیں۔ چونکہ میں تصاویر بنانے والی لڑکی کے عقب میں قریب ہی پڑے بینچ پر بیٹھا تھا لہٰذا بآسانی نظر آ رہا تھا۔

جن کی تصویر بن رہی ہوتی وہ اپنے مخصوص یا پسندیدہ اسٹائل میں کھڑی ہو جاتیں یا بینچ پر بیٹھ جاتیں اور ایک تصویر لیتی۔ جب تصویر بن جاتی تو وہ فوراً دیکھنے لپکتیں۔ ان مناظر کا بغور جائزہ لینے پر عجیب حیرت ہوئی جب مشاہدہ میں آیا کہ ان کا تصویر بنوانے کا انداز تو مختلف ہے مگر تقریباً سب میں ایک بات مشترک تھی اور وہ یہ کہ جس کی بھی تصویر بن رہی ہوتی اس کا منہ یا تو کیمرہ کے مخالف سمت میں ہوتا یا پھر سائیڈ پوز۔ گویا وہ اس زاویہ سے تصاویر بنا رہی تھیں کہ تصویر سے یہ تو پتہ چلے کہ کس کی ہے مگر چہرہ پوشیدہ رہے یا کم از کم واضع اور مکمل دیکھائی نہ دے۔ اور یوں ان کو اپنی ایک تصویر کئی کاوشوں کے بعد پسند آتی یہ یا ٹھیک لگتی۔

غالباً یہ تصاویر انہوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر یا استمعال کرنی ہوں گی اور ساتھ ہی ان کو خاندانی و سماجی پابندیوں یا ان کو سوشل میڈیا کے ذریعہ اپنی تصاویر کے ممکنہ غلط استمعال کا خوف بھی تھا جب ہی انہوں نے کیمرہ رُخ ہو کر تصاویر بنوانے سے اجتناب کیا۔ پھر خیال آیا کہ شاید آج کل ایسی تصاویر کا کوئی خاص ٹرینڈ یا رواج ہو جس کا مجھے علم نہیں۔

بہرحال وہ طالبات بظاہر بہت خوش لگ رہی تھیں مگر نجانے کیوں ان کا محدود اور محتاط انداز میں اپنی تصاویر لینا مجھے ان کی گُھٹن اور عدم تحفظ کا احساس دلا رہا تھا تو بحثیت مرد اور اس معاشرے کا ایک فرد، بے حد شرمندگی محسوس ہوئی۔

نوٹ:
دینی و ثقافتی لحاظ سے قطع نظر اس تحریر کو محض سماجی و معاشرتی تناظر میں لیا جائے۔
 
آخری تدوین:
Top