اقتباسات خطبات حکیم الامّت (مولانا اشرف علی تھانویؒ )

یاسر شاہ

محفلین
مرچوں کا فساد

کم کھانے والا گناہوں سے بسہولت بچ سکتا ہے جیسے بڈھا زنا سے آسانی کے ساتھ بچ سکتا ہے - غور سے دیکھا جائے تو سب گناہ زیادہ کھانے ہی کی طرف لوٹتے ہیں -جیسے مولوی سالار بخش صاحب وعظ میں گناہوں کی فہرست گنوا کر فرمایا کرتے تھے کہ یہ سب فساد مرچوں کا ہے -ان کے نزدیک سب گناہ مرچوں ہی کی وجہ سے ہوتے تھے ،لوگ تو اس کو ہنسی میں اڑاتے ہیں مگر میں نے اس کلام کی یہ تاویل کی ہے کہ مرچ سے کھانا لذیذ ہو جاتا ہے اور لذّت کی وجہ سے بہت کھایا جاتا ہے اور بہت کھانا گناہوں کا سبب ہے-اس طرح مرچوں کو اس فساد میں دخل ہو گیا -
خیر مرچوں کا فساد ہو یا نہ ہو لیکن یہ کلام محقق ہے کہ اکثر گناہ زیادہ کھانے سے ہوتےہیں -یہ ساری باتیں مستی ہی میں سوجھتی ہیں کہ کسی کو گھور لیا ،کسی کو چھیڑ دیا -کسی کے عاشق ہوگئے -بھوکے کو یہ مستیاں نہیں سوجھتیں -جس کے گھر میں سال بھر کا غلہ بھرا ہوا ہو وہ تو عورتوں ہی کو گھورے گا اور کیا کرے گا کیونکہ معاش کی طرف سے بے فکری ہے ،کام کچھ ہے نہیں تو اب انھی قصوں میں وقت گزارتے ہیں، ہاں اگر کبھی ان مستوں پر مقدّمات ہو جاتے ہیں ،اس وقت ساری مستی نکل جاتی ہے ،اب نہ کسی کو گھورنے کی مہلت ہے، نہ عشق ظاہر کرنے کی ہمت ہے -ہر وقت مقدّمے کی فکر لگی رہتی ہے اور اس فکر میں کھانا پینا اور سونا بھی حرام ہو جاتا ہے -

اسی لیے بزرگوں نے لکھا ہے کہ انسان کو بے کار نہ رہنا چاہیے -کسی نہ کسی کام میں لگا رہنا چاہیے ،دین کا کام نہ ہو سکے تو دنیا ہی کے کسی مباح کام میں لگا رہے کیونکہ مشغولی میں نفس کو مستی نہیں سوجھتی ،توجہ کام کی طرف رہتی ہے اور بے کاری میں چاروں طرف ذہن دوڑتا ہے ،اس راز کو حکّام نے بھی سمجھا ہے -چنانچہ جو لوگ معطل و بیکار رہتے ہیں ،پولیس زیادہ تر انھی کی نگہداشت میں رہتی ہے اور ایسے ہی لوگوں کا نام آوارہ گردوں میں لکھا رہتا ہے اور جب کوئی واردات ہوتی ہے ایسے ہی لوگوں کو پکڑا جاتا ہے تو گویا حکّام کے نزدیک بھی بے کاری بدمعاشی کا سبب ہے -اور ظاہر بات ہے کہ جس شخص کو کوئی دھندہ ہوگا وہ فضول پھندوں میں کیا خاک پھنسے گا -اسے اپنے کام ہی سے فرصت نہ ہوگی -جس کو ہر روز گھاس کھودنے کی فکر ہے وہ عورتوں کو کہاں گھورنے جائے گا اور یہاں سے معلوم ہوا کہ مسلمان کے ساتھ کسی فکر کا لگا ہونا بڑی نعمت ہے -یہ بہت سے گناہوں کا وقایہ ہے خواہ دنیا ہی کا فکر ہو -پس غریبوں کو اس نعمت پر شکر کرنا چاہیے کہ حق تعالیٰ نے ان کو بے فکری نہیں دی -امیروں کو دیکھ دیکھ کر غریبوں کی رال ٹپکتی ہے کہ ہائے ہم بھی ایسے ہی بے فکر ہوتے مگر یہ خبر نہیں کہ وہ اس بے فکری سے سینکڑوں گناہوں میں مبتلا رہتے ہیں -اور تم روٹی کی فکر میں ہزاروں گناہوں سے بچے ہوئے ہو -
خوب کہا ہے :
آنکس کہ تو نگرت نمی گرداند
او مصلحت تو از تو بہتر داند
(جو ذات پاک تجھے امیر نہیں بناتی وہ تیری مصلحت کو تجھ سے زیادہ بہتر جانتی ہے )

زیادہ کھانے میں علاوہ اس نقصان کے کہ وہ گناہوں کا سبب ہوتا ہے اور بھی بہت نقصان ہیں ،چنانچہ اگر کوئی شخص ہمت کر کے گناہوں سے بچا بھی رہے تو یہ نقصان تو اسے بھی ہوگا کہ نیند زیادہ آئے گی -کم کھانے میں نیند کم آتی ہے -پیٹ تن کر جب سوؤ گے تو نیند بھی تن کر آئے گی اور کچھ بھوک رکھ کر کھاؤ گے تو رات میں دو تین دفعہ خود بخود آنکھ کھل جائے گی کیونکہ نیند سے وہ تھوڑا بہت کھانا بھی جو کھایا تھا جلدی ہضم ہو جائے گا پھر جب پیٹ کمر سے لگ جائے گا تو ایک کروٹ پر لیٹا نہ جائے گا-بار بار کروٹیں بدلو گے اور کئی بار آنکھ کھل کھل جائے گی پھر چونکہ یہ مسلمان ہے ،اس لیے ذکر الله میں لگ جائے گا اور سوچے گا کہ یہ وقت اور کسی کام کا تو ہے نہیں اور صبح ہونے میں دیر ہے تو بیکار کیوں جاگیں لاؤ کچھ الله الله ہی کر لو تو کم کھانے والے کو طاعات کی توفیق زیادہ ہوتی ہے اور زیادہ کھانے والا تو صبح کو بھی مشکل سے اٹھے گا ،اس لیے اس شخص کی طاعات بہت کم ہوں گی اور اگر بہت کھانے والا اتفاق سے کسی رات کو جاگ بھی گیا تو کھانے کا کسل ایسا ہوتا ہے کہ اس کو چار پائی سے اٹھنے کی ہمت نہیں ہوتی اور اگر اٹھ بھی گیا اور وضو کر کے نماز یا ذکر میں لگ گیا تو تھوڑی دیر میں نیند کے جھونکے ایسے آئیں گے کہ سجدہ میں پڑ کر خبر بھی نہ رہے گی یا گردن جھکا کر سوتا رہے گا -

شیخ سعدی نے لکھا ہے کہ ایک نصرانی بادشاہ نے حضور صلّی الله علیہ وسلّم کی خدمت میں ایک طبیب کو بھیجا تھا کہ یہ مدینہ والوں کا علاج کیا کرے گا ،آپ نے طبیب کو واپس کر دیا اور فرمایا کہ ہم لوگ بغیر بھوک کے کھاتے نہیں ہیں اور بھوک رکھ کر کھانا چھوڑ دیتے ہیں اس لیے ہم کو طبیب کی ضرورت نہیں -

واقعی اس دستور العمل پر عمل کر کے دیکھیے سب بیماریاں خود ہی بھاگ جائیں گی ،کبھی اتفاقی طور پر بیماری آ جائے تو اور بات ہے لیکن مجموعہ امراض تو نہ ہوگا مگر آج کل لوگوں کی عادت یہ ہے کہ بھوک لگنے کا کھانا کھانے میں انتظار نہیں کرتے بلکہ اکثر وقت آنے کی رعایت سے کھاتے ہیں کہ کھانا گرم گرم ہے دیر میں کھائیں گے تو ٹھنڈا ہو جائے گا لاؤ ابھی کھا لیں -جی ہاں اس وقت کھانا تو گرم ہے مگر کھانے والا سرد ہی ہو جائے گا کیونکہ بے بھوک کھانے سے حرارت غریزیہ منتفی ہو جاتی ہے معدہ میں تداخل ہو جاتا ہے پہلا کھانا ابھی ہضم نہیں ہوا تھا کہ دوسرا اور پہنچ گیا اب معدہ پریشان ہوتا ہے کہ کسے ہضم کروں
اور خصوصا یہ امراء کے مشیر اپنے پیٹ بھرنے کے لیے انھیں رائے دیتے ہیں کہ نہیں حضور کچھ تو کھا لیجیے ،فاقہ کرنا اچھا نہیں ،تھوڑا بہت کھا کر نمک سلیمانی استعمال کر لیجیے گا یا سوڈے کی بوتل پی لیجیے گا سب ہضم ہو جائے گا -اس پر چاروں طرف سے تائید ہوتی ہے -کثرت رائے کے بعد وہ کھانا آتا ہے -رئیس صاحب تو دو چار ہی لقمے کھاتے ہیں باقی سب ان مشیروں کے پیٹوں میں اترتا ہے پھر اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ رئیس صاحب کا معدہ بھاڑے کا ٹٹو ہو جاتا ہے کہ بدون نمک سلیمانی یا سوڈے کی بوتل کے کھانا ہضم ہی نہیں کر سکتا -بعضے یہ تدبیر کرتے ہیں کہ سالن میں لیموں نچوڑ دیتے ہیں اور کہتے ہیں حضور اب کھائیے ،دیکھیے کیسا مزہ آ گیا ہے -لیموں نچوڑنے سے رئیس صاحب کی بھی رال ٹپک پڑتی ہے اور وہ جوں توں کھا لیتے ہیں -

لیموں نچوڑنے پر مجھے ایک لیموں نچوڑ کی حکایت یاد آئی ایک شخص کی عادت تھی کہ وہ سرائے میں بیٹھا رہتا تھا اور دو تین لیموں اپنے پاس رکھتا تھا جب کوئی ذی ثروت مسافر سرائے میں کھانا کھانے بیٹھتا یہ جا کر اس کے پیالے میں لیموں نچوڑ دیتا کہ دیکھیے حضور اس سے سالن کیسا مزہ دار ہو گیا ہے اس کے بعد یا تو وہی ان کو بلا لیتا یا یہ خود ہی کھانے لگتے ،لوگ مروت سے کچھ نہ کہتے اور یہ مفت سفت پیٹ بھر لیا کرتا تھا ،ایک مرتبہ کوئی مسافر دل جلا بھی آ ٹھہرا اس کے پیالے میں جو اس نے لیموں نچوڑا اور ساتھ کھانا شروع کیا تو اس نے زور سے ایک دھپ رسید کیا تو یہ لیموں نچوڑ کیا کہتا ہے کہ میرے ابّا جان بھی مجھے یوں ہی مار مار کر کھلایا کرتے تھے ،آپ نے وہ زمانہ یاد دلا دیا اور بے حیا پھر بھی کھانے سے نہ رکا ،مسافر بھی خاموش ہورہا کہ جب اس نے مجھے باپ بنا لیا تو اب کیا کہوں -واقعی یہ پیٹ بھی سب کچھ کرا دیتا ہے ،کھانے کے حریص کو نہ حیا رہے نہ شرم -


خطبات حکیم الامّت؛ جلد ٣٠ (خیر الاعمال) وعظ :تقلیل الطعام بصورة الصیام ،صفحہ ٨٥
 

یاسر شاہ

محفلین
توبہ

ہمارے اعمال تو ایسے ہیں کہ ہم کو ایک ٹکڑا روٹی کا اور ایک گھونٹ پانی کا بھی نہ ملنا چاہیے اور بعض حضرات ایسے ہیں کہ جب کوئی گناہ ہوتا ہے تو شیطان پر لعنت کرتے ہیں -یہ صحیح ہے کہ شیطان بہکاتا ہے -یاد رکھو کہ چوری جب ہوتی ہے گھر کے بھیدی کے بھید دینے سے ہوتی ہے ،اسی طرح گناہ جب ہوگا تو آپ کے اندرونی دشمن کی سازش سے ہوگا -وہ کون ہے ؟نفس -میں قسمیہ کہتا ہوں کہ نفس ہمارا صلاحیت پر آ جائے تو اگر ساری دنیا بھی شیاطین سے پر ہو جائے تو کچھ ضرر نہیں ،اصلی دشمن تو یہ ہر وقت ہم سے گناہ کراتا رہتا ہے ،اس لیے ہر وقت توبہ کرنا ضروری ہے -
حضور صلّی الله علیہ و آلہ وسلم سے زیادہ کون ہوگا جن کی شان ہے : "لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ"(تاکہ ﷲ تمہاری اگلی پچھلی تمام کوتاہیوں کو معاف کردے)اور جن کو خطاب ہے :"وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْم"(اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں) باوجود اس عظمت اور علو مرتبہ کے آپ فرماتے ہیں :وَاللّٰہِ! اِنِّیْ لَاَسْتَغْ۔فِرُ اللّٰہُ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ فِیْ الْیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً۔(مسند احمد: ۸۴۷۴) یعنی الله کی قسم ، بیشک میں ایک دن میں ستر سے زیادہ دفعہ الله تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں-اور ہم باوجود سر تاپا گناہوں میں غرق ہونے کے دن بھر میں ایک مرتبہ بھی توبہ نہیں کرتے اور اس کا ایک عجیب حیلہ یہ نکال رکھا ہے کہ توبہ اس لیے نہیں کرتے کہ پھر گناہ ہو جائے گا -صاحبو ! یہ شیطان کی شراب ہے کہ اس کو پلا کر اس نے ہم کو غفلت میں ڈال دیا اور اس کو ایک خصلت حمیدہ اور پختگی سمجھتے ہیں کہ گویا ان کے دل میں توبہ کی بڑی عظمت ہے کہ توبہ کر کے پھر گناہ کو پسند نہیں کرتے ہیں اس لیے کہ الله تعالیٰ فرمائیں گے کہ میاں توبہ ہی کہاں کی تھی سو یہ امر توبہ سے بڑا مانع ہے -اکثر لوگ اسی میں مبتلا ہیں -
چنانچہ کہتے ہیں کہ ہم دنیادار آدمی ہیں ،ہماری توبہ ہی کیا ہے اگر توبہ کر لی تو وہ ٹوٹ جائے گی ،جواب اس کا یہ ہے ٹوٹ جائے گی پھر توبہ کر لیجیو ،اگر کوئی کہے کہ پھر توبہ سے کیا فائدہ ؟-فائدہ یہ ہے کہ جن گناہوں سے توبہ کرتے جاؤ گے وہ تو صاف ہوتے جائیں گے ،جرائم کے اندر زیادتی تو نہ ہوگی ،دو شخصوں کی اگر پچاس پچاس برس کی عمر ہو اور دونوں نے برابر گناہ کیے ہوں مگر فرق یہ ہو کہ ایک تو برابر توبہ کرتا رہا اور دوسرے نے توبہ نہیں کی تو دونوں کے مواخذے میں فرقِ عظیم ہوگا -یہ فرق تو آخرت کے اعتبار سے ہے -اور ایک فائدہ عاجلہ بھی ہے وہ یہ کہ بار بار توبہ کرنے میں الله تعالیٰ نے یہ خاصیت رکھی ہے کہ چند روز میں بتدریج وہ گناہ چھوٹ جاتا ہے -پس یہ توبہ کی کی برکت ہے کہ اس سے تائب آخرِ کار متقی پرہیز گار ہو جاتا ہے -غرض اگر گناہ اور توبہ دونوں کے سلسلے برابر جاری رہیں تب بھی ان شاء الله تعالیٰ گناہ کا سلسلہ مٹ جائے گا اور توبہ کا سلسلہ بمقتضائے سبقت رحمتی علی غضبی (میری رحمت میرے غضب سے بڑھ گئی )غالب آجائے گا جیسے سلیٹ کی لکھائی ہے کہ پانی سے مٹ جاتی ہے ،اسی طرح گناہ بھی آبِ رحمت سے مٹ جائیں گے -

جلد ۲۹ اصلاح باطن -از خطبہ: خواص الخشیہ
 

سیما علی

لائبریرین
دو شخصوں کی اگر پچاس پچاس برس کی عمر ہو اور دونوں نے برابر گناہ کیے ہوں مگر فرق یہ ہو کہ ایک تو برابر توبہ کرتا رہا اور دوسرے نے توبہ نہیں کی تو دونوں کے مواخذے میں فرقِ عظیم ہوگا -یہ فرق تو آخرت کے اعتبار سے ہے -اور ایک فائدہ عاجلہ بھی ہے وہ یہ کہ بار بار توبہ کرنے میں الله تعالیٰ نے یہ خاصیت رکھی ہے کہ چند روز میں بتدریج وہ گناہ چھوٹ جاتا ہے -
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ
ترجمہ : بےشک اللہ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : بے شک اللہ اپنے مومن بندے کی توبہ سے اس شخص سے زیادہ خوش ہوتا ہے جو کسی ہلاکت خیز پتھریلی زمین پر پڑاؤ کرے اس کے ساتھ اس کی سُواری بھی ہو جس پر اس کے کھانے پینے کا سامان لَدا ہوا ہو پھر وہ سر رکھ کر سو جائے ، جب بیدار ہو تو اس کی سُواری جا چکی ہو تو وہ اسے تلاش کرے یہاں تک کہ گرمی اور شدتِ پیاس یا جس وجہ سے اللہ چاہے پریشا ن ہو کرکہے کہ میں اسی جگہ لوٹ جاتا ہوں جہاں سو رہا تھا پھر سو جاتا ہوں یہاں تک کہ مر جاؤں پھر وہ اپنی کلائی پر سر رکھ کر مرنے کے لئے سو جائے پھر جب بیدار ہو تو اس کے پاس اس کی سُواری موجود ہو اور اس پر اس کا توشہ بھی موجود ہو تو اللہ مومن بندے کی توبہ پر اس شخص کے اپنی سواری کے لوٹنے پر خوش ہونے سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے۔ (مشکاۃ المصابیح ، جز2 ، ص728 ، حدیث : 2358 بحوالہ مسلم ، ص1126 ، حدیث : 6955)
توبہ نہایت عظیم عبادت اور قربِ خداوندی کا اعلیٰ ذریعہ ہے اس لئے نفس و شیطان انسان سے اپنی دشمنی ثابت کرتے ہوئے اسے توبہ سے دور رکھتے ہیں اور بہت سے حیلے بہانوں اور وسوسوں سے اسے توبہ سے محروم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں لوگ توبہ میں تاخیر کرتے رہتے ہیں۔ اللہ پاک ہمیں توبہ میں تاخیر سے دور کردے ..آمین
اس عظیم عبادت کا مسلسل عادی بنادے ۔۔۔اور ہم اپنے دانستہ و نادابستہ گناہوں پر توبہ کرتے رہیں اور ہر دم بارگاہ الہی میں معافی کے طبگار رہیں۔۔۔
 

یاسر شاہ

محفلین
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ
ترجمہ : بےشک اللہ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : بے شک اللہ اپنے مومن بندے کی توبہ سے اس شخص سے زیادہ خوش ہوتا ہے جو کسی ہلاکت خیز پتھریلی زمین پر پڑاؤ کرے اس کے ساتھ اس کی سُواری بھی ہو جس پر اس کے کھانے پینے کا سامان لَدا ہوا ہو پھر وہ سر رکھ کر سو جائے ، جب بیدار ہو تو اس کی سُواری جا چکی ہو تو وہ اسے تلاش کرے یہاں تک کہ گرمی اور شدتِ پیاس یا جس وجہ سے اللہ چاہے پریشا ن ہو کرکہے کہ میں اسی جگہ لوٹ جاتا ہوں جہاں سو رہا تھا پھر سو جاتا ہوں یہاں تک کہ مر جاؤں پھر وہ اپنی کلائی پر سر رکھ کر مرنے کے لئے سو جائے پھر جب بیدار ہو تو اس کے پاس اس کی سُواری موجود ہو اور اس پر اس کا توشہ بھی موجود ہو تو اللہ مومن بندے کی توبہ پر اس شخص کے اپنی سواری کے لوٹنے پر خوش ہونے سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے۔ (مشکاۃ المصابیح ، جز2 ، ص728 ، حدیث : 2358 بحوالہ مسلم ، ص1126 ، حدیث : 6955)
توبہ نہایت عظیم عبادت اور قربِ خداوندی کا اعلیٰ ذریعہ ہے اس لئے نفس و شیطان انسان سے اپنی دشمنی ثابت کرتے ہوئے اسے توبہ سے دور رکھتے ہیں اور بہت سے حیلے بہانوں اور وسوسوں سے اسے توبہ سے محروم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں لوگ توبہ میں تاخیر کرتے رہتے ہیں۔ اللہ پاک ہمیں توبہ میں تاخیر سے دور کردے ..آمین
اس عظیم عبادت کا مسلسل عادی بنادے ۔۔۔اور ہم اپنے دانستہ و نادابستہ گناہوں پر توبہ کرتے رہیں اور ہر دم بارگاہ الہی میں معافی کے طبگار رہیں۔۔۔
جزاک اللہ خیر خالہ!
 

یاسر شاہ

محفلین
مزاجوں کا اختلاف

ہر شخص کا مزاج جدا ہے ،ہم کو تو کھانے کپڑے وغیرہ کی تکلیف ہی سے رنج ہوتا ہے اور کسی بات سے نہیں ہوتا اور حضور صلّی الله علیہ وسلم کی یہ حالت تھی کہ آپ کو بجز رضائے محبوب کے اور کسی چیز کی پروا نہ تھی -اسی لیے آپ کو صرف ناراضیِ حق کے وہم سے رنج ہوتا تھا جس کا علاج یہی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے احسانات یاد دلا کر تسلی فرماتے ہیں کہ ہم ناراض نہیں ہیں ،ہم تو آپ پر ہمیشہ عنایات کرتے رہتے ہیں -بھلا جس کا ایسا مزاج ہو اس کے رنج کو کون سمجھ سکتا ہے اور کسی کی عقل میں یہ بات کیسے آ سکتی ہے کہ احسانات یاد دلانے سے بھی رنج دور ہوا کرتا ہے -

مزاج کے مختلف ہونے پر مجھے ایک حکایت یاد آئی -ایک بادشاہ نے امتحانِ مذاق کے لیے چار سمت کی چار عورتیں اپنے نکاح میں جمع کی تھیں -حسن میں تو سب بے نظیر تھیں کیونکہ بادشاہ کے لیے انتخاب کی گئی تھیں مگر فہم سب کا مختلف -ایک دن بادشاہ نے ان کی عقل وفہم کا امتحاں کرنا چاہا کہ دیکھوں عقل و فہم میں بھی سب برابر ہیں یا کم و بیش ہیں تو اس نے ختمِ شب پر سب سے دریافت کیا کہ اب کیا وقت ہے ،سب نے بالاتفاق کہا کہ اب صبح ہو گئی ہے -بادشاہ نے ہر ایک سے دلیل پوچھی کہ تم کو محل کے اندر بیٹھے بیٹھے صبح کا ہونا کیسے معلوم ہوا تو ہر ایک نے مختلف دلائل بیان کیے -ایک نے کہا کہ شمع کی روشنی دھیمی پڑ گئی ہے اور واقعی صبح کے وقت چراغ کی روشنی ویسی تیز نہیں رہا کرتی جیسی رات کو تیز ہوا کرتی ہے -دوسری نے کہا کہ میری نتھ کے موتی ٹھنڈے ہو گئے ،اس سے میں سمجھی کہ صبح ہو گئی کیونکہ صبح کی ہوا میں رات کی ہوا سے فرق ہوا کرتا ہے -صبح کی ہوا میں خنکی زیادہ ہوتی ہے تو اس عورت نے بہت ہی لطیف دلیل بیان کی -تیسری نے کہا پان کا مزہ بدل گیا ہے اس نے بھی بہت لطیف بات کہی -چوتھی نے صبح ہونے کی دلیل بیان کی مجھے پاخانہ آ رہا ہے -کیونکہ اکثر صبح ہوتے ہی پاخانہ آیا کرتا ہے -اس جواب سے بادشاہ کو معلوم ہوا کہ اس کی طبیعت نہایت گندی اور بھدی ہے -صاحبو ! یہی حال ہمارا ہے کہ ہماری تو روٹیوں میں فرق آ جاوے تب ہی یہ گمان ہوتا ہے کہ ہائے ہم قہر میں مبتلا ہوگئے اور روٹیاں ملتی رہیں گو مقہور ہی ہوں -پروا بھی نہیں ہوتی -

سو حضور صلّی الله علیہ وسلم کے مزاج کو اپنے مزاج پر قیاس نہ کرو -کاملین کا تو رضائے محبوب کی فکر میں یہ حال ہوتا ہے :

با سایہ ترا نمی پسندم
عشق است و ہزار بد گمانی

ان کو تو عشق و معرفت کی وجہ سے قدم قدم پر اس وہم سے رنج پہنچتا ہے کہ کہیں حق تعالیٰ ناراض نہ ہو گئے ہوں بس اس کے سوا اور کوئی چیز ان کے لیے رنج دہ نہیں -ان کا مذاق یہ ہوتا ہے :


با تو دوزخ جنّت است اے جاں فزا
بے تو جنّت دوزخ است اے دلربا

(ترجمہ:اے محبوب تیرے ساتھ دوزخ بھی جنت ہے اور بغیر تیرے جنت بھی دوزخ ہے )

اور یہ شاعرانہ مبالغہ نہیں بلکہ صحیح مضمون ہے -دیکھیے حدیث میں آیا ہے کہ انبیاء علیھم السلام اور بہت سے مسلمان دوزخ میں سے گنہگاروں کو نکالنے جائیں گے تو گو وہ اس وقت دوزخ میں ہوں گے مگر چونکہ معیتِ حق ساتھ ہوگی اس لیے ان کے حق میں وہ دوزخ بھی جنت ہی ہوگی -

با تو دوزخ جنّت است اے جاں فزا

اور ابلیس کو جب مردود کیا گیا ،جنّت اسی وقت اس کے حق میں دوزخ ہوگئی تھی گو مردودیت کے بعد کچھ دیر وہ جنت میں رہا بھی تھا مگر معیتِ حق سلب ہو جانے کے بعد اس کا کچھ دیر جنّت میں رہنا دوزخ میں رہنے کے مشابہ تھا -یہی ہے :

بے تو جنّت دوزخ است اے دلربا

خطبات حکیم الامّت جلد ٣٠ خیر الاعمال -صفحہ ٣٢٥
 

یاسر شاہ

محفلین
حضورﷺ کی شانِ محبوبیت

ایک حدیث کے بعض الفاظ سے بعض علماء نے یہ سمجھا ہے کہ قبر میں بھی حضور صلی الله علیہ وسلم کی زیارت ہو گی ،وہ الفاظ نکیرین (منکر نکیر )کے سوال میں یہ ہیں "من ھٰذا الرجل؟ "(یہ شخص کون ہے ؟) اس سے اس طرح سمجھا ہے کہ "ھٰذا" کی اصل اشارہ حسیہ ہے تو مشار الیہ محسوس ہونا چاہیے بس اسی بھروسے پر دن گزار رہے ہیں ان شاء الله مر ہی کر آپ کو دیکھ لیں گے -

اس پر مولانا محمد یعقوب صاحب کی ایک لطیف بات یاد آئی -مولانا نے فرمایا حق تو یہ تھا کہ ہم حضور صلی الله علیہ وسلم کے سامنے مرتے ،قدموں میں جاں نثار کرتے اور آپ ہمارے جنازہ کی نماز پڑھتے مگر بعض حکمتوں کی وجہ سے یہ نہیں ہوا تو اب یہ تو ہوگا کہ بجائے جنازہ پر تشریف لانے کے حضورﷺ قبر میں ہی تشریف لائیں گے -پھر یہ شعر پڑھا -

کششے کہ عشق دارد نگزاردت بدیساں
بجنازہ گر نیائی بمزار خواہی آمد

عشق کی کشش آپ کو آنے کے بغیر نہ چھوڑے گی ،اگر جنازہ پر نہ آئے تو مزار پر آئیں گے -


یہ کسی کی بڑی اچھی غزل ہے ،اس میں ایک اور شعر بھی ہے جو حضور صلی الله علیہ وسلم کے شایان شان ہے :

ہمہ آہوان صحرا سرِ خود نہادہ بر کف
بامید آنکہ روزے بشکار خواہی آمد

تمام جنگل کے ہرنوں نے اپنا سر ہتھیلی پر رکھ لیا اس امید میں کسی دن تو شکار کو آئے گا -

حدیث میں آتا ہے کہ حجتہ الوداع میں حضورﷺ نے سو اونٹ قربان کیے تھے جن میں سے تریسٹھ اونٹ اپنے دست مبارک سے نحر فرمائے تھے اور یہاں سے معلوم ہوا کہ حضورﷺ فقیر و مفلس نہ تھے جیسا کہ بعض جاہل واعظ بیان کیا کرتے ہیں -آپﷺ سخی تھے کہ سخاوت کی وجہ سے گھر میں کچھ رکھتے نہ تھے -مفلس نہ تھے ورنہ کہیں غریب و مفلس بھی سو اونٹ کی قربانی کیا کرتے ہیں -آپ ﷺکا فقر اضطراری نہ تھا، اختیاری تھا -اسخیا کو مفلس و غریب کون کہہ سکتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حضورﷺ کے ہاتھ میں قوت کس درجہ تھی کہ تریسٹھ اونٹوں کی قربانی تنہا اپنے ہاتھ سے فرمائی -ہم سے تو ایک چڑیا بھی نہ کٹے -
کانپور میں ایک اونٹ کو تیرہ چودہ آدمیوں نے مل کر قربان کیا تھا پھر بھی دقت سے قابو میں آیا اور حضورﷺ نے لٹا کر ذبح نہ کیا تھا بلکہ ایک پیر کو تسمہ بندھوا کر کھڑا کر کے سب کو نحر کیا تھا -تو حدیث میں آتا ہے -"کلھن یزدلفن الیہ " کہ ذبح کے وقت ہر اونٹ آہستہ آہستہ قدم اٹھا کر اپنی گردن کو آپ کے برچھے کی طرف بڑھاتا تھا کہ پہلے مجھے نحر فرمائیے -سبحان الله کیا شانِ محبوبیت تھی کہ جانور عاشق تھے اور آپ کے ہاتھ سے سب سے اول ذبح ہونا چاہتے تھے -بس اس وقت ان کی یہ حالت تھی -

ہمہ آہوان صحرا سر خود نہادہ بر کف
بامید آنکہ روزے بشکار خواہی آمد

تمام جنگل کے ہرنوں نے اپنا سر ہتھیلی پر رکھ لیا اس امید میں کسی دن تو شکار کو آئے گا -

اور یہ حالت تھی :

سر بوقتِ ذبح اپنا اس کے زیر پائے ہے
کیا نصیب الله اکبر لوٹنے کی جائے ہے


خطبات حکیم الامت جلد :٥-خطبہ : نور النور صفحہ ١٨٥
 

سیما علی

لائبریرین
سو حضور صلّی الله علیہ وسلم کے مزاج کو اپنے مزاج پر قیاس نہ کرو -
بے شک ایسا ہی ہے ۔۔۔کجا کہ نعوذ باللہ یہ کہنا وہ ہمارے جیسے تھے ۔۔۔۔اللہ پاک ہدایت عطا فرمائیں ۔۔آمین ۔۔۔۔ہمارا مزاج تو آپ ﷺ کے غلاموں کی خاک پا سے بھی بتر ہے ۔۔۔۔
 
Top