خطباتِ اقبال ، علمی اور مذہبی مشاہدات ،تحریر ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی

خطبہ اوّل کا موضوع ''علم اور مذہبی مشاہدات'' ہے۔ اس میں اقبال نے تین اہم موضوعات یعنی کائنات ، حیات اور حقیقت مطلقہ کے ساتھ بحث کی ہے۔ ان سوالات کا اقبال نے اسلامی نقطہ نظر سے جواب دینے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ سب سے پہلے وہ اس وسیع وعریض کائنات کی تشکیل پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہیں ۔

''یہ عالم جس میں ہم رہتے ہیں اس کی نوعیت کیا ہے اور ترکیب کیا؟ کیا اس کی ساخت میں کوئی دوامی عنصر موجود ہے ؟ ہمیں اس سے کیا تعلق ہے اور ہمارا اس میں کیا مقام ہے ؟ بہ اعتبار اس مقام کے ہمارا طرزِ عمل کیا ہونا چاہئے۔

اقبال کے خیال کے مطابق حقیقت مطلقہ کے بارے میں مذہب ، فلسفہ اور اعلیٰ درجے کی شاعری نے کچھ خاص قسم کے نظریات دیئے ہیں ۔اس سلسلے میں وہ مذہبی وجدان کو ان دونوں نظریات پر فوقیت دیتے ہوئے کہتے ہیں :

''بایں ہمہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مذہب کی حیثیت محض احساس کی نہیں اس میں تعقل کا ایک عصر بھی موجود ہے ''۔

اقبال کے اس خیال کی تائید ہمیں قرآن مجید سے بھی ملتی ہے۔ قرآن مجید جہاں آیات الٰہی اور مشاہداتِ کائنات کا ذکرکرکے انسان کو بیدار کرتاہے وہیں عقل وفکر سے کام لینے کی دعوت دیتاہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے ( ترجمہ )

اور ہم نے نہیں پیدا کیا آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے فضول۔ہم نے ان کو حق کے ساتھ پیدا کیا۔لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔ (٤٤۔٨٣)

جو لوگ اپنے رب کوکھڑے ، بیٹھے ، اٹھتے اور لیٹے اپنے رب کو یاد کرتے رہتے ہیں اور اس کی نشانیوں پر غوروفکر کرتے رہتے ہیں ۔ (٠٣،٩١،٧٩١)۔

اقبال قرآن کو زندہ وجاوید معجزہ تسلیم کرتے ہوئے اس کولاثانی کلام قراردیتے ہیں او رکہتے ہیں کہ ''یہ محض استعارہ نہیں کہ خیال اور لفظ ایک ہی وقت میں رحم احساس سے پیدا ہوتے ہیں ۔مختصراً یہ کہ قرا?ن لفظاً و معناً کلام الٰہی ہے۔''

اقبال مذہب کو فلسفہ پر فوقیت دیتے ہیں ۔اقبال کے خیال میں مجرد وعقل سے ہم حقیقت مطلقہ تک نہیں پہنچ سکتے بلکہ اقبال کہتے ہیں کہ :

''مذہب کا جوہر ایمان اور ایمان کی مثال یہ ہے بے منت عقل جسے اسلام کے ایک بہت بڑے صوفی شاعرنے 'رہزن' کہاہے ''۔

مگر اس کے باوجود اقبال عقل کو بالکل نظر انداز نہیں کرتے بلکہ ان کے خیال میں عقلی بنیادوں کا سلسلہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکت ہی سے شروع ہوئی ہے۔

ابن خلدون عقل کے متعلق اپنے ''مقدمہ'' میں رقم طراز ہیں کہ :

''عقل ایک صحیح ترازو ہے۔ اس کے فیصلے یقینی ہیں لیکن اس ترازو میں امور توحید اور وہ تمام حقائق جو ماورائ العقل ہیں تول نہیں سکتے۔ عمل کا ایک دائرہ ہے جس سے باہر وہ قدم نہیں نکال سکتی ''۔

انسان عقل ہی سے حق وصداقت حاصل نہیں کر سکتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وحی وتنزیل کی ہدایت لازمی ہے۔ اس لئے اقبال کہتے ہیں :

''تجربہ کہتاہے کہ جس حق وصداقت کاانکشاف محض عقل کی وساطت سے ہو۔ اس سے ایمان ویقین میں وہ حرارت پیدا نہیں ہوتی ہے جو وحی کی بدولت ہوتی ہے ''۔

اقبال کے نزدیک کسی بھی مذہب کے لئے سائنس سے بھی بڑھ چڑھ کر ثبوت وبراہین فراہم کرنا نہایت ضرورت ہیں تاکہ اس مذہب کی تشکیل معقول بنیادوں پر ہوسکے۔ مذہب صرف تاثر (Felling) کا نام نہیں بلکہ اس کی اساس ایمان پر منحصر ہے۔ صوفیائ اور متکلمین کا وجود اس بات کیلئے شاہد کہے کہ تصور (Idea) مذہب کا ایک ناگزیر جز ہے۔ اقبال اسی لئے مغربی مفکر وائٹ ہیڈ کے اس خیال سے متفق ہیں جس میں وائٹ ہیڈ کہتے ہیں :

''جب کبھی بھی مذہب کو فروغ ملتاہے سمجھئے وہی زمانہ معقولیت کا بھی ہوتاہے ''۔

واہٹ ہیڈ کے نزدیک مذہب عام صداقتوں کا ایک ایسا مربوط نظام فراہم کرتاہے جس میں انسا ن کی سیرت وکردار سازی کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے بشرطیکہ ان صداقتوں پر خلوص نیت کا رفرما ہو۔ اقبال ا?گے چل کر اسی مغربی مفکر کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''مذہب کا ہر عہد عقلیت کا عہد تھا ''۔

اسی لئے یہ ضروری ہے کہ یہ مذہبی صداقتیں اس نوعیت کی ہوں کہ جو عقلی مخالفتوں سے ختم نہ ہوجائیں بلکہ یہ صداقتیں غیر متزلزل رہنی چاہئیں ۔ ہر مذہب کو کسی نہ کسی حالت میں ''کلام'' کی ضرورت ہوتی ہے مگر اس سے فلسفہ کی مذہب پر فوقیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔مذہب ایک ایسے ''کل'' کوظاہرکرتاہے جو ایک ساتھ ''فکر'' ، ''تاثر'' اور ''عمل'' سب پر حاوی رہتاہے۔ لہٰذا یہ حقیقت پر مبنی ہے کہ فلسفہ جس کا تعلق فکر سے ہے اور مذہب جس کا تعلق وجدان سے ہے ، ایک دوسرے کی ضد نہیں بلکہ ان کا ماخذ اور منبع ایک ہی ہے اگر عقل حقیقت کا صرف جزوی احاطہ کرتی ہے تو وجدان حقیقت کا احاطہ بحیثیت ''کل'' کے کرتاہے۔

اقبال کے نزدیک فکر اور وجدان کو ایک دوسرے کے مقابل یا متضاد سمجھنے کی کوئی وجہ ہو ہی نہیں سکتی۔ حقیقت میں یہ دونوں ایک ہی سرچشمہ سے وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔ اس بارے میں اقبال برگستان(Bergson) سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں :

''دراصل وجدان جیسا کہ برگسان نے نہایت ٹھیک کہاہے فکر ہی کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے ''۔

فکر او روجدان کے متعلق سید وحید الدین کہتے ہیں :

'' اگر ایک کی نظر حقیت کی زمانی جہت پر ہے تو دوسرے کی نظر اس کی دوامی جہت پر۔ ضرورت ہے کہ یہ دونوں بظاہر متضاد علمی قوتیں ایک دوسرے سے اپنی تکمیل کرسکیں ۔''

اقبال ہمیشہ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہتے ا?ئے ہیں کہ اسلامی فکر پر یونانی فلسفہ کا منفی اثر پڑا جس کی وجہ سے الٰہیات اسلامیہ کی مختلف تحریکیں اتنی بااثر اور پْرزور ثابت نہ ہوئیں جتنی کہ اس سے پہلے ہوسکتی تھیں ۔ وہ اس حقیقت کو بھی کھلے دل سے مانتے ہیں کہ اسلامی تاریخ وتہذیب میں یونانی فلسفہ ایک بڑی ثقافتی قوت کی حامل ہے اور اسلامی فکر کو یونانی فکر وفلسفہ سے مزید وسعت ہوئی لیکن سب سے بڑی خوابی اس سے ہوئی کہ قرا?نی فہم وفراست یونانی تصورات کے تابع ہو کر رہ گئی۔ اس طرح قرا?ن کا اصل مقصد اوجھل رہا۔ چنانچہ اقبال اس بارے میں کہتے ہیں :

''فلسفہ یونان کی حیثیت تاریخ اسلام میں ایک زبردست ثقافتی قوت کی ہے لیکن جب ہم علم کلام کے ان مختلف مذاہب پر نظر ڈالتے ہیں جن کا ظہور فلسفہ? یونان کے زیر اثر ہوا اور ان کا مقابلہ قرا?ن پاک سے کرتے ہیں تو یہ اہم حقیقت ہمارے سامنے ا?جاتی ہے کہ یونانی فلسفہ نے مفکرین اسلام کے مطمحِ نظر میں اگرچہ بہت کچھ وسعت پیدا کردی تھی مگر بحیثیت مجموعی قرا?ن مجید ان کی بصیرت محدود ہو کر رہ گئی۔''

اقبال کے نزدیک سقراط کی فکر کا مرکز انسان اور انسان کی دنیارہی جب کہ قرآن کی نظر سارے عالم پر محیط ہے۔نباتات ، سیاروں یا حیوانات وغیرہ کا عالم سب اس کی نظر کے سامنے ہیں ۔رات اور دن کی پیہم تبدیلی ، تاروں بھرا آسمان یکساں طور قرا?ن کے پیش نظر ہیں ۔یہاں تک کہ شہد کی مکھی کے علم کو بھی وحی کے رشتہ سے جوڑ نکالا گیا ہے۔

افلاطون بھی اپنے استاد سقراط کے نقش قدم پر چلا۔ وہ بھی حواس کے علم کو خاطر میں نہ لایا مگر قرا?ن حواس کو بڑی اہمیت دیتاہے۔ اسی لئے قرا?ن یونانی فکر سے تضاد رکھتاہے۔ دوسوبرس کے بعد یونانی فکر سے اسلامی فکر کی بغاوت کا آغاز ہوا جب غزانلی نے تشکیک یعنی عقل کی بے بسی پر مذہب کی بنیاد رکھی۔ ابن رشید نے یونانی فلسفہ کی مدافعت کرنا چاہی مگر اشاعرہ کا راستہ زیادہ صائب تھا، حالانکہ ان کا مقصد بھی مذہبی روایات کا یونانی تصورات کے ذریعہ مدافعت کے سوا کچھ نہ تھا۔ معتزلہ نے اس بین حقیقت کو نظر انداز کردیا کہ مذہب صرف ایک نظری عقیدہ ہی نہیں بلکہ حیاتی واقعہ ہے اور عقل سے ماورائ دوسری راہیں بھی حقیقت تک ہماری رہنمائی کرسکتی ہیں ۔

اقبال کے نزدیک اس اجہتادی کوشش میں مغربی مفکر کانٹ اور غزالی کے درمیان مماثلت پائی جاتی ہے۔ جرمنی میں پہلے عقلیت (Rationalism)مذہب کے معاون کی حیثیت سے نمودار ہوئی لیکن بہت جلد انہیں اس اپروچ سے تبدیلی ا?گئی اور انہوں نے کہاکہ مذہبی عقائد قابل تصدیق ہیں ۔ کانٹ نے اپنی کتاب ''تنقید عقل محض'' میں صرف انسانی عقل کی حدود کو واضح کیا۔ اقبال کہتے ہیں ''مغربی مفکر کانٹ ہی کی ذات وہ سب سے بڑا عطیہ ہے جو اللہ نے جرمنی کو عنایت کیا۔ تقریباً یہی نتیجہ غزالی کے فلسفیانہ تشکک سے دنیائے اسلام کے لئے مرتب ہوا ''۔

غزالی اور کانٹ کے درمیان اس امتیاز کونظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا کہ کانٹ اپنے اصولوں کے مطابق اللہ کے علم کو خارج از بحث ٹھہراتا ہے اور غزالی فکر کے اس اسلوب (Style) سے جس کا تعلق تحلیلی (Analytic) سے ہے مایوس ہوکر اپنا راستہ صوفیانہ تجربات میں تلاش کرتے ہیں ۔ اس طرح انہوں نے مذہب کو سائنس اور فلسفہ کے تسلط (Dominance) سے ا?زاد کرانے کی ایک کوشش کی ہے۔ اس طرح سے فکر اور وجدان کے درمیان کوئی رشتہ قائم ہونا ہی مشکل ہوگیا۔ اقبال کے خیال میں غزالی کی یہی بڑی غلطی تھی اگرفکر محدود ہے تو اس کی وجہ تسلسلی زمان (Serial Time)سے اپنا رشتہ ہے۔فکر بنیادی طور پر جامد وساکن نہیں ہوتی بلکہ جس طرح بیج اپنی اصل میں درخت کی وحدت کا حامل ہوتاہے اسی طرح فکر ایک ''کل'' کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ''کل'' قرا?نی اصطلاح میں لوحِ محفوظ ہے جو علم کے تمام امکانات کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔

اقبال کے خیال میں اب تو یکسر صورت بدل گئی ہے۔ پچھلے پانچ سو برسوں میں اسلامی فکر میں جمودآگیا ہے۔ اس کے برعکس مغربی فکر برابر ا?گے بڑھتی رہی حالانکہ یہ ابتدائ میں اسلامی فکر ہی کی خوشہ چیں رہی ہے۔ اسلامی فکر میں سائنس اورفلسفہ کے جوبنیادی سوالات موضوع بحث رہے تھے اب ان پر یورپ پورے ذوق وشوق سے سوچ بچار کررہاہے اور دوسری طرف الٰہیات اسلامیہ جہاں تھی وہیں رہی۔اب تو نظریہ اضافیت نے سائنسی تصورات کی کایا ہی پلٹ دی ہے۔ اس لئے اس میں کوئی حیرانگی کی بات نہیں اگر اسلامی الٰہیات کی تشکیل نو کی جائے۔

اقبال کے نزدیک قرآن کا مقصد ہی یہ ہے کہ آدمی میں کائنات اور اللہ کے درمیان روابط کا شعور اْجاگر ہو۔اگر عیسائیت کا مدعا ومقصد یہی ہے کہ روحانیت کا اثبات کیا جائے تو اسلام اس حیثیت سے عیسائیت کا ہم نوا ہے۔ اقبال اس بارے میں کہتے ہیں :

''اسلام کو اس بصیرت سے پورا پورا اتفاق ہے مگر وہ اس میں صرف اتنا اضافہ کرتاہے کہ اس طرح جس عالم کاانکشاف ہوتاہے اس کی تجلی عالم مادیات سے بیگانہ نہیں ''۔

حقیقت میں اسلام روحانیت کا اثبات کرنے کے ساتھ ساتھ مادّی دنیا کے مقابل منفی روّیہ اختیار نہیں کرتا بلکہ وہ مادّی قوتوں پر تسلط کی راہ ہموار کرتاہے۔

اقبال قرا?ن کے حوالے سے عالم کی حقیقت لہو ولعب وغیرہ نہیں بتاتے بلکہ زمین وا?سمانوں میں عقل وتدبر سے کام لینے والوں کے لئے بے شمار نشانیاں ہیں ۔اسی لئے عقل تدبر رکھنے والے لوگ ہمیشہ ان نشانیوں کو دیکھ کر بے ساختہ پکار اٹھتے ہیں : اے ہمارے رب ا?پ نے اس کائنات کو خواہ مخواہ پیدا نہیں کیاہے۔

اقبال اپنی فکر کے مطابق اس آیت کی توضیح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ دنیا میں وسوعت اور بڑھنے کی صلاحیت موجود ہے۔ بلکہ ہم کائنات میں اہم تبدیلیاں بھی دیکھتے ہیں اورلیل ونہار کی حرکت کے ساتھ ہم زمانہ کا خاموش اْتار چڑھائو بھی دیکھتے ہیں ۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی نشانیاں ہیں ۔ زمانہ کے اسی خصوصیت کے ساتھ اقبال نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث بھی بیان کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ''زمانے کو بْرا بھلا نہ کہو کہ زمانہ خودخدا ہے ''۔
 
Top