خشکی پر جہاز

مشرقی رومی سلطنت کا مرکز قسطنطنیہ اپنے محل وقوع کے لحاظ سے اتنا مستحکم تھا کہ اسے فتح کرنا ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ سلطان محمد عثمانی نے 1453ء میں اسے مسخر کیا اور فاتح کا پر فخر لقب اس کے نام کا جزو بن گیا۔ مسلمان اس سے پیشتر کم و بیش دس مرتبہ زبردست حملے کرچے تھے۔ وہ شہر کی دیواروں تک بھی پہنچتے رہے اور اپنی مرضی کے مطابق شرطیں بھی منواتے رہے ، لیکن شہر ان کے قبضے میں نہ آیا۔قسطنطنیہ کے جنوب میں بحیرہ مارمورا واقع ہے، پھر آبنائے باسفورس سے پانی کی ایک شاخ نکل کر چار میل اندر چلی گئی ہے جسے شاخ زریں کہتے ہیں۔ اس طرح قدرت نے اس کی تین طرفوں میں حفاظت کے ایسے انتظامات کردئیے تھے کہ انہیں توڑنا آسان نہ تھا۔ خشکی کی طرف سے حملہ ہوسکتا تھا، لیکن ادھر یکے بعد دیگرے تین فصیلیں کھڑی کردی گئی تھیں، زبردست بیڑے کے ساتھ حملہ ممکن تھا، مگر اہل قسطنطنیہ نے شاخ زریں کے دہانے پر مضبوط فولادی زنجیریں اس ترکیب سے باندھ دی تھیں کہ کوئی اجنبی جہاز ان سے گزر کر اندر نہ جاسکتا تھا۔
سلطان محمد فاتح پچاس ہزار سوار، بیس ہزار پیادے اور بھاری توپیں لے کر 6 اپریل 1453ء کو قسطنطنیہ کے سامنے پہنچ گیا اور شہر پر گولہ باری شروع کردی۔ فصیلوں کو توڑنے کے جتنے طریقے اس زمانے میں رائج تھے۔ وہ سب استعمال کیے، لیکن کامیابی کی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی۔ اس کے پاس بیڑا تھا جسے باسفورس کی سمت سے شاخ زریں میں پہنچانے کا کوئی بندوبست ہوسکتا اور شہر پر دو طرف سے حملہ ہوجاتا تو فتح کی امید تھی۔ خصوصا اس لیے کہ شاخ زریں کی طرف فصیل نہ زیادہ اونچی تھی اور نہ خندق مضبوط تھی، لیکن شاخ زریں کے دہانے سے گزرنے کی کوئی تدبیر نہ سوجھتی تھی۔سوچتے سوچتے ایک عجیب تجویز اس کے ذہن میں آئی، اس نے باسفورس سے شاخ زریں تک ایک خندق کھدوائی اور اس میں لکڑی کے صاف تختے بھچوا کر ان پر خوب چربی لگوادی تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ چکنے ہوجائیں پھر اپنے اسی جہاز باسفورس سے خشکی پر چڑھالیے اور چکنے تختوں پر سے دھکیلتے ہوئے انہیں شاخ زریں کے اندر پہنچادیا۔ ان جہازوں پر سپاہی بٹھادئیے گئے اور توپیں بھی نصب کردی گئیں۔ اچانک یہ بیڑا خشکی میں سے گزرتا ہوا شاخ زریں کے اندر پہنچ گیا۔ اور لوگوں کا مینہ برسنے لگا تو اہل شہر ہمت ہار بیٹھے۔ وہ بچائو کے لیے شاخ زریں کی طرف پلٹے تو خشکی کی جانب سے سلطانی سپاہ نے فصیلیں توڑ کر اندر داخل ہونے کا راستہ صاف کرلیا۔یہ واقعہ مختلف وجوہ سے بے حد اہم ہے۔قسطنطنیہ مسیحیت کی جگہ اسلام کا مایہ ناز مرکز بن گیا اور پانچ سو سال تک اسے خلافت کی تخت گاہ ہونے کا شرف حاصل رہا، ایشیا اور افریقا مدت دراز کے لیے یورپ کے خطرے سے محفوظ ہوگئے، مشرق قریب میں جنگی نقطہ نگاہ سے جتنے مقامات اہم تھے، وہ سب مسلمانوں کے قبضے میں آگئے، قسطنطنیہ اس سلسلے کا آخری مقام تھا۔ بحیرہ اسود، آبنائے، باسفورس، مارمورا، درہ دانیال، بحیرہ روم اور بحیرہ قلزم سب مسلمانوں کے زیر اقتدار آگئے۔
ربط
http://www.vshineworld.com/urdu/library/worldhistories/7/37/
 
Top