خالی دنیا میں گذر کیا کرتے
بن ترے عمر بسر کیا کرتے
تُو نے منزل ہی بدل دی اپنی
ہم ترے ساتھ سفر کیا کرتے
ایک ہی خوابِ جنوں کافی تھا
دیکھ کر بارِ دگر کیا کرتے
اپنی ہی اُلجھنوں میں اُلجھے تھے
ہم تری زلف کو سَر کیا کرتے
جبکہ رستے میں بکھرنا ہی تھا
باندھ کر رختِ سفر کیا کرتے
جسم کا بوجھ لیئے لوٹے تھے
شہر والوں کو خبر کیا کرتے
جو کیا تُو نے خدا جانتا ہے
ہم ترے ساتھ مگر کیا کرتے
خود زمیں اوڑھ لی ہم نے آخر
اور بے سمت سفر کیا کرتے
(عدیل زیدی )