خالص اسلام کی دعوت

خالص اسلام کی دعوت
جب ہم لوگوں کو اسلام کی طرف بلائیں اور دعوت و تبلیغ کا کام انجام دیں تو اسلام کے بارے میں یہ حقیقت ہمارے ذہنوں میں اس قدر مضبوطی کے ساتھ جاگزیں ہو اور پیوست اور واضح ہونی چاہیے کہ اس کے اظہار و اعلان میں کبھی ھماری زبان نہ لڑکھڑائے اور کسی موقع پر یم شرم محسوس نہ کریں، اور لوگوں کو اس بارے میں کسی شک و اشتباہ میں نہ رہنے دیں، اور ان کو اس بات کا پوری طرح قائل کرکے چھوڑیں کہ وہ اگر دامن اسلام میں ائیں گے تو ان کی زندگیوں کی کایا پلٹ جائے گی۔ اُن کے اعمال و کردار اور اُن کے ضوابط بھی بدلیں گے اوراُن کے تصورات اور اندازِفکر بھی تبدیل ہوگا۔ اس تبدیلی کی بدولت اسلام اُنہیں وہ خیر کثیر عطا کرے گا جس کی وسعتیں انسانی قیاس میں نہیں سما سکتیں۔ وہ ان کے افکار و نظریات میں رفعت پیدا کرے گا، اُن کے حالات و معاملات کا معیار بلند کرے گا اور انہیں اُس مقام عزّت و مرتبۂ شرف سے قریب کردے گا جو سزاوارِانسانیت ہے۔ جس پست جاہلی زندگی سے وہ اب تک آلودہ رہے ہیں اُس کی کوئی الائش باقی نہ چھوڑے گا، اِلاّ یہ کہ جاہلی دور کی کوئی ایسی جزئیات پائی جائیں جو اتفاق سے نظامِ اسلامی کی بعض جزئیات سے ہمرنگ اور ہم اہنگ ہوں، لیکن وہ بھی اپنی اصلی حالت میں نہ رہیں گی بلکہ اسلام کی اس اصل عظیم سے مربوط ہو جائیں گی جو جاہلیت کی اس خبیث اور غیر بارآور اصل سے بنیادی طور پر مختلف ہے جس کے ساتھ وہ اج تک وابستہ تھے۔ اسلام یہ انقلاب عظیم برپا کرنے کے بعد انسانوں کو علم و تحقیق کے ان شعبوں سے محروم نہیں کرے گا جو مشاہدہ و استقرا پر مبنی ہیں بلکہ وہ ان شعبوں کو مزید ترقی دے گا۔ الغرض داعیان اسلام کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو اس وہم میں نہ رہنے دیں کہ اسلام بھی انسانوں کے وضع کردہ اجتماعی نظریات میں سے ایک نظریہ اور خود ساختہ نظاموں میں سے ایک نظام ہے جو مختلف ناموں اور مختلف جھنڈوں کے ساتھ رُوئے زمین پر پائے جاتے ہیں۔ بلکہ وہ خالص اور بے لاگ نظام ہے۔ وہ مستقل بالذات انفرادیت کا مالک ہے، جداگانہ تصّور زندگی رکھتا ہے اور جُداگانہ ظرزِ حیات لے کر آیا ہے۔ وہ انسانیّت کو جوکچھ دے چاہتا ہے وہ وضعی نظاموں کی خیالی جنتوں سے ہزار درجہ بہتر و سودمند ہے۔ وہ ایک اعلٰی و ارفع نظام ہے پاکیزہ و اُجلا نظریہِ حیات ہے، وہ جمال جہاں افروز ہے، وہ معتدل و متوازن ہے، اُس کے سوتے براہ راست خدائے برتروعظیم کے ازلی و ابدی چشموں سے پھُوٹے ہیں۔

جب ہم اس انداز پر اسلام کا شعور حاصل کرلیں گے تو یہ شعور ہمارے اندر یہ فطری صلاحیّت بھی پیدا کردے گا کہ ہم اسلام کی دعوت پیش کرتے وقت پُوری خوداعتمادی اور قوت کے ساتھ، بلکہ پوری ہمدردی اور دل سوزی کے ساتھ لوگوں سے مخاطب ہوں، اس شخص کی سی خوداعتمادی جسے یہ بھرپور یقین ہو کہ وہ جس دعوت کا حامل ہے وہ سراسر حق ہے اور اس کے برخلاف دوسرے لوگ جس راہ پر چل رہے ہیں وہ باطل کی راہ ہے، اس شخص کی سی ہمدردی جو انسانوں کو شقاوت اور بدنصیبی میں گھِرا ہوا پارہا ہو اور جانتا ہو کہ انہیں آغوش سعادت میں کیونکر لایا جاسکتا ہے۔ اس شخص کی سی دل سوزی جو لوگوں کو تاریکی میں ٹامک ٹوئیے مارتا ہوا دیکھ رہا ہو، اور جانتا ہو کہ انہیں وہ روشنی کہاں دستیاب ہو سکتی ہے جس کےبغیر وہ راہ حق نہیں پاسکتے۔ الغرض اسلام کا سچّا شعور حاصل ہونے کے بعد ہمیں یہ حاجت نہیں ہوگی کہ ہم چور دروازوں سے لوگوں کے ذہنوں میں اسلام کو اُتاریں اور ان کی نفسانی خواہشات اور باطل اور گمراہانہ نظریات کو تھپکی دیں۔ بلکہ ہم ڈھکی چھُپی رکھے بغیر صاف صاف اسلام کی دعوت ان کے سامنے رکھیں گے اور ان کی توجہ دلائیں گے کہ جاھلیت جس میں تم گھرے ہوے ہو یہ ناپاک اور نجس ہے۔ اللہ تعالٰی تمہیں اس نجاست اور گندگی سے پاک کرنا چاھتا ہے، یہ صورتِحال جس میں تم سانس لے رہے ہو سراسر خبث اور فساد ہے وار اللہ تھمارے لیے پاکیزہ و طیب نظام پسند کرتا ہے، یہ طرز زیست جسے تم نے اختیار کر رکھا ہے انتہائی پستی اور گراوٹ سے عبارت ہے اور اللہ تعالٰی تمہیں تمہارا مقام بلند عطا کرنا چاہتاہے۔

سيد قطب شھيد کي کتاب

معالم فی الطريق سے اقتباس
ء
 
Top