اقتباسات حیرت انگیز قرآن -پروفیسرگیری ملر

جاسمن

لائبریرین
سمندر کی تہوں میں اندھیرا ،جدید سائنس اور قرآن کی روشنی میں
کاتب: طارق اقبال بتاريخ: October 5, 2011 – 3:24 pmایک تبصرہ
جدیدسائنس کے مطابق گہرے سمندروں اور دریاؤں میں 200میٹریا اس سے زائد گہرائی پر تاریکی ہے جہاں روشنی تقریباً معدوم ہوجاتی ہے۔ جبکہ 1000میٹر کی گہرائی کے بعد گہرا اندھیرا ہے۔ (1)اس کے علاوہ جدید سائنس نے حال ہی میں دریافت کیا ہے کہ سمندر کے اندر سطحی موجوں کی طرح اندرونی موجیں بھی ہوتی ہیں جو اس جگہ پیدا ہوتی ہیں جہا ں کم کثافت والا پانی زیادہ کثافت والے پانی سے ملتاہے۔ اندرونی موجیں سمندروں اور دریاؤں کے گہرے پانی کو ڈھانپے ہوئے ہوتی ہیں یعنی گہرے پانی کے اوپر ہوتی ہیں کیونکہ گہرے پانی کی کثافت ،اس کی بالائی سطح پر موجود پانی کی کثافت سے زیادہ ہوتی ہے۔اندرونی موجیں سطحی موجوں کی طرح ہی پیدا اور ختم ہوتی رہتی ہیں۔ اندرونی موجوں کو انسانی آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ان کو صرف اسی صورت میںمعلوم کیا جا سکتا ہے اگر ہم کسی مقررہ جگہ کے اندر درجہ حرارت اورکھاری پن میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کامطالعہ کریں۔(2)
قرآ ن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ :
(اَوْ کَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَّغْشٰہُ مَوْج مِّنْ فَوْقِہ ط ظُلُمٰت م بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍ ط اِذَآ اَخْرَجَ یَدَہ لَمْ یَکَدْ یَرٰھَا ط وَمَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰہُ لَہ نُوْرًا فَمَا لَہ مِنْ نُوْرٍ)
” یا پھر اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندرمیں اندھیرا’کہ اُوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے ‘اس پر ایک اورموج’ اور اس کے اوپر بادل، تاریکی پر تاریکی مسلّط ہے ‘آدمی اپنا ہاتھ نکالے تواسے بھی نہ دیکھنے پائے۔ جسے اللہ نور نہ بخشے اس کے لیے پھر کوئی نورنہیں” (3)
پروفیسر درگاپرسادراؤ علم البحرکے بین الاقوامی ماہر ہیں۔کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ میں پروفیسر رہے ہیں۔ اس آیت کے متعلق انہوں نے کہا کہ ابھی حال ہی میں سائنس دان جدید آلات کی مدد سے یہ جاننے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ سمندر کی گہرائی میں بالکل اندھیراہے۔ انسان کسی چیز کی مدد کے بغیر 20سے 30میٹر تک پانی کے اندر غوطہ لگا سکتا ہے مگر گہرے سمندر میں 200میٹر سے زیادہ کی گہرائی میں وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس آیت کا اطلاق تمام سمندروں پر نہیں ہوتا کیونکہ ہر سمندر میں اندھیر ے کو اس طرح بیان نہیں کیا جاسکتاکہ ایک اندھیر ے کی تہہ کے اوپر دوسرے اندھیرے کی تہہ ہو۔ یہ آیت خاص طور پر صرف گہرے سمندروں کے متعلق ہے،جیسا کہ قرآن مجید میں بھی کہا گیا ہے کہ ”ایک بڑے گہرے سمندر میں اندھیرا”۔گہرے سمندر میں اندھیرے کی تہہ پیدا ہونے کی دو وجوہات ہیں:
1۔روشنی کی شعاع سات رنگوں پر مشتمل ہے جیسا کہ ہم قوس قزح کے وقت دیکھتے ہیں۔ یہ سات رنگی مجموعہ بنفشی ،نیلا،آسمانی ،سبز،زرد،نارنجی اور سرخ پرمشتمل ہے۔ جب روشنی کی شعاع پانی سے ٹکراتی ہے تو عمل انعطاف کے نتیجے میں یہ مُڑ جاتی ہے اور روشنی کے سرخ رنگ کو پانی 10سے 15میٹر کی گہرائی تک جذب کر لیتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی غوطہ خور پانی میں 25میٹر کی گہرائی پر زخمی ہو جائے تو اپنے خون کو نہیں دیکھ سکے گا کیونکہ اس گہرائی پر سرخ رنگ نہیں پہنچتا۔اسی طرح نارنجی رنگ کی شعاع 30سے 50میٹر تک کی گہرائی میں جذب ہو جاتی ہے۔ زرد رنگ 50سے 100 میٹر تک۔ سبز رنگ 100سے 200 میٹر تک۔آسمانی رنگ کم وبیش 200میٹر تک ،جبکہ نیلا اوربنفشی رنگ 200میٹر سے زیادہ گہرائی پر جذب ہو جاتے ہیں۔چنانچہ جس طرح رنگ کامیابی کے ساتھ ایک ایک کر کے غائب ہو جاتے ہیں اسی طرح تاریکی بھی تہہ بہ تہہ بڑھتی جاتی ہے۔ یعنی تاریکی روشنی کی تہوں میں جگہ پاتی ہے۔جبکہ 1000میٹر کی گہرائی کے بعد باکل اندھیرا ہے۔
2۔ سورج کی شعاعیں جب بادلوں سے ٹکراتی ہیں تو کچھ روشنی تو اس میں جذب ہوجاتی ہے اور باقی روشنی منتشر شعاعوں میں بدل جاتی ہے،جس کے سبب بادلوں کے نیچے اندھیر ے کی ایک تہہ بن جاتی ہے۔ یہ اندھیر ے کی پہلی تہہ ہے۔جب روشنی کی شعاعیں سطح سمندر سے ٹکراتی ہیں تو سطحی موجیں ان کے کچھ حصے کو منعکس کر دیتی ہیں اورکچھ حصہ سمندر کے اند ر نفوذ کرجاتاہے۔ چنانچہ یہ موجیں ہی ہیں جو روشنی کومنعکس کر تی ہیں جس کے نتیجے میں سمندر کے دو حصّے ہوجاتے ہیں،سمندر کا سطحی حصہ اور اندرونی گہراحصہ۔ سطحی حصہ روشنی اور گرمی کی وجہ سے جبکہ گہرا حصہ اندھیرے کی وجہ سے پہچاناجاتا ہے۔
علاوہ ازیں ایک اور فرق ان دونو ں حصوں میں موجوں کی وجہ سے بھی پیدا ہوتاہے۔اندرونی موجیں دریاؤں اور سمندروں کے گہرے پانی کو ڈھانپے ہوئے ہوتی ہیں اس لیے کہ گہرے پانی کی کثافت ،اس کے اوپرموجود پانی کی کثافت سے زیادہ ہوتی ہے ، اور اسی وجہ سے اندرونی موجوں کے نیچے اندھیرا ہوتاہے۔یہا ں تک کہ مچھلی بھی سمندر کی گہرائی میں دیکھنے کے قابل نہیں رہتی ،اور اپنے جسم سے حاصل ہونے والی روشنی ہی ان کے لیے واحد ذریعہ ہوتی ہے۔پروفیسر درگا راؤ کا حتمی طور پر کہنا ہے کہ 1400سال پہلے یہ ناممکن تھا کہ ایک عام آدمی اس حیرت انگیز عمل کو اتنی وضاحت سے بیان کرئے۔ لہٰذا یہ معلومات یقینا کسی مافوق الفطرت ماخذ سے ہی نکلی ہیں۔ (4)
………………………………………………………………………….
حواشی
(1)۔ بحوالہ Ocean ,Elder and Pernetta, Page 92,93
(2)۔بحوالہ Oceangraphy,Gross,Page, 205
(3)۔ النور ، 24:40
(4)۔ قرآن اینڈ ماڈرن سائنس از ڈاکٹر ذاکر نائیک ،صفحہ 30-32
www.islam-guide.com
 
Top