میں نے تقریباً 5 سال قبل جب میں میٹرک میں تھا نونہال پڑھنا شروع کیا۔
وہاں پر حکیم محمد سعید کی باتیں پڑھ کا انکا مداح بن گیا۔
آج بھی میں جب بازار سے کوئی طبی چیز لینے جاؤں تو میں ہمدرد کو ترجیح دیتا ہوں کیونکہ میں جب ہمدرد والوں کی کوئی چیز خریدتا ہوں تو مجھے عجب سا سکون ملتا ہے
ہمدرد کے ماروں کا اتنا سا فسانہ ہے۔۔
پینے کو شرابِ غم، ہنسنے کو زمانہ ہے
 
شہید پاکستان حکیم محمد سعید از عدنان اشرف ایڈوکیٹ
17 اکتوبر شہید اور سعید پاکستان حکیم محمد سعید کا یومِ شہادت ہے۔
حکیم صاحب 1948 میں تمام تر خاندانی اور سیاسی مخالفتوں کے سب کچھ چھوڑ کر بے سروسامانی کے عالم میں پاکستان آئے۔ آرام باغ کے ایک چھوٹے سے کمرے میں ہمدرد فائونڈیشن کا کام شروع کیا، جس مکان کو اپنا مسکن بنایا تھا، مرتے دم تک اسی میں مقیم رہے۔ نصف صدی میں جو کچھ کمایا، خلقِ خدا پر خرچ کردیا۔ اپنے نام کوئی اثاثہ نہیں رکھا۔ نصف کروڑ کے قریب مریضوں کا طبی معائنہ کیا، کسی سے کوئی پیسہ نہیں لیا۔ 12 روپے سے ادارے کی بنیاد رکھی، بیوی کا زیور بیچ کر اس کی ترقی و ترویج کی اور اسے وقف برائے پاکستان کردیا۔ حکیم صاحب ایک درویش صفت انسان، سچّے مسلمان، حافظِ قرآن اور پکے پاکستانی تھے۔ دنیاوی شہرت سے لاتعلق اور بے نیاز کثیر الجہات اور جامع الکمالات شخصیت کے مالک تھے۔ طب اور تعلیم ان کے بنیادی ہدف تھے۔
انصاف کے شعبے سے متعلق بھی انھوں نے کلیہ قانون کے علاوہ کامرس اور اکنامکس کے شعبے رکھے ہیں۔ ہمدرد ایگری کلچر اور انڈسٹریل سٹی بھی قائم کی ہے۔ نصف صدی سے زیادہ پر محیط اپنی عملی اور جہدِ مسلسل پر مبنی زندگی میں دو سو سے زاید تصانیف تحریر کیں۔ ریسرچ پیپرز اور بین الاقوامی کانفرنسز میں شرکت کی۔ شام ہمدرد کے ذریعے پاکستان میں فکری انقلاب برپا کیا۔ ہمدرد رسائل و جراید کے ذریعے فکر و عمل کی دعوت دی۔ اردو زبان کی ترقی و ترویج اور اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے انتھک محنت کی۔
ہمدرد فائونڈیشن شاید پاکستان کا واحد ادارہ ہے جہاں ادارے کے سربراہ سے لے کر چپڑاسی تک تمام خط و کتابت، دفتری اور انتظامی امور اردو میں سرانجام دیتے ہیں۔ جہاں دوست، جواناں امروز، ہمدرد مجلسِ شوریٰ، بزمِ ہمدرد نونہال کے ذریعے ادنیٰ و اعلیٰ پاکستانیوں میں فکری انقلاب کی داغ بیل ڈالی۔ حکیم صاحب نے جن اداروں کی بنیاد ڈالی تھی وہ ان کے فکری ترجمانی کے فرائض بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے علم کے جو بھی پودے لگائے تھے وہ اب تناور درخت بن کر تعمیر و ترقی کی راہ میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔ حکیم سعید صحت و تعلیم کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے۔
کتابیں اور کتب خانے ان کی شناخت تھیں۔ مدینۃ الحکمت میں سب سے پہلے بیت الحکمت لائبریری تیار کرائی گئی جو پاکستان کی بڑی جدید اور سائنٹیفک لائبریری ہے۔ بدقسمتی سے برقی میڈیا ملک میں غیر ملکی تہذیب کا سیلاب لے آیا ہے۔ علم کے بجائے معلومات اور انگریزی زبان کے ذریعے معاشی ترقی کے مواقع تو ضرور میسر آگئے ہیں لیکن اس نے ہماری تہذیبی اور لسانی جڑوں کو دیمک زدہ کردیا ہے۔ مطالعے کی ضرورت اور شوق غیر ضروری سمجھے جانے لگے ہیں۔ مشرقی اقدار اور علوم دونوں سے ناتا ختم ہوتا جارہا ہے، جو فکر سعید کی نفی ہے۔ حکیم صاحب تو جہاز کے سفر سے لے کر ٹرانزٹ لائونج تک کتاب و قلم سے تعلق جوڑے رکھتے تھے۔ ہر وقت حصولِ علم، ترسیلِ علم اور غوروفکر میں مشغول رہا کرتے تھے۔
مدینۃ الحکمت کا خیال بھی ان کے دل میں اس وقت آیا تھا جب وہ حرم شریف میں بیٹھے اس کے اطراف پر غور کررہے تھے۔ پہاڑوں میں گِھرے بیت اﷲ اور جس جگہ آج مدینۃ الحکمت قائم ہے، اس میں حکیم صاحب کو جغرافیائی مماثلت نظر آئی، لہٰذا انھوں نے وہاں پر ہمدرد یونیورسٹی کے قیام کا ارادہ کرلیا۔ حکیم سعید نباضِ ملت اور مشرقی و اسلامی علوم پر ماہرانہ نظر رکھنے والے حافظِ قرآن، انسانیت دوست، شفیق مسیحا، محقق، دانشور، تاریخ دان، ماہرِ تعلیم، مصنف، مدبر، مدیر، مؤلف و مصنف اور اعلیٰ پائے کے منتظم تھے۔
ملک و ملت کا درد ان کے جگر میں سمایا ہوا تھا۔ اس مردِ حق نے یتیم بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے بھرپور کوششیں کیں اور یتیم و لاوارث بچّوں کے لیے ’’یہ بچّہ میرا ہے‘‘ کے نام سے ایک تحریک شروع کی اور ایسے لاوارث و یتیم بچوں کو صاحبِ حیثیت، صاحبِ کردار اور انسانیت کا جذبہ رکھنے والے افراد کی آغوش میں دے کر ان کا مستقبل محفوظ بنانے کی عملی کوششیں کیں اور باقاعدہ چھان بین اور قانونی معاہدات اور قدغن عاید کرنے کے بعد ان بچوں کو قانونی تحفظ کے بعد خواہش مند افراد کے سپرد کیا گیا۔ ان کے ادارے میں اہل طلبا کو اسکالر شپ دینے کے علاوہ یتیم اور بیوائوں کی امداد کا مربوط نظام بھی قائم ہے۔ حکیم صاحب اپنی گورنری کے دور میں بھی مریضوں کو اسی طرح دیکھتے رہے۔ آخری مریض کو دیکھے بغیر نہیں جاتے تھے۔
ہر خط کا جواب خود تحریر کرتے تھے۔ بچوں کے ساتھ اسٹول پر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ ان میں ہر دل عزیز تھے۔ جب انھیں گورنر بنایا گیا اور اس کی اطلاع دینے کے لیے ان کے گھر فون کیا گیا تو وہ سورہے تھے، حکام کو بتایا گیا کہ حکیم صاحب سورہے ہیں، صبح تہجد میں اٹھیں گے، اس سے قبل بات ممکن نہیں ہے۔ ان کے تعلیم سے لگائو کا یہ حال تھا کہ اپنی گورنری کے مختصر ترین دور میں 4 یونیورسٹیز کی منظوری دی۔ حکیم محمد سعید پاکستان میں کراچی اور دنیا میں پاکستان کی شناخت و فخر سمجھے جاتے تھے۔
ادنیٰ و اعلیٰ سے ایک رویہ تھا، انھیں ستارۂ امتیاز اور نشانِ امتیاز جیسے تمغوں سے بھی نوازا گیا لیکن ان تمغوں نے ان کی نہیں بلکہ حکیم صاحب کی شخصیت نے انھیں توقیر و افتخار بخشا۔ ایسی شخصیات ہی اپنے شعبوں کی حرمت قائم کرتی ہیں جو صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ پاکستان میں ان کا کوئی ہمسر دور دور تک دِکھائی نہیں دیتا لیکن اہلِ وطن ان کی خدمات کو صحیح طور پر سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ 17 اکتوبر کو شہید، سعید اور محسن و مسیحا حکیم محمد سعید کی 14 ویں برسی کا دن تھا جو انتہائی خاموشی یا فراموشی سے گزر گیا۔ اس دن تمام ٹی وی چینلز پر مذاکروں، مظاہروں، احتجاجوں میں سیاسی، سماجی، مذہبی شخصیات اور اکابرین 14 سالہ ملالہ کے تعلیمی عزم و ارادے پر تو خوب خراجِ عقیدت پیش کرتے رہے بلکہ زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہے۔
مذاکرے، بحثیں، نغمے اور عوامی ٹیلی فون کالز کے تانتے بندھے رہے۔ لیکن عظیم قومی مفکر، تعلیم دان اور محسن حکیم سعید سے متعلق کسی نے عقیدت و خلوص کے دو جملے بھی ادا نہیں کیے۔ ان کی تعلیمی و لسانی خدمات کے حوالے سے کوئی یاد تازہ نہیں کی گئی۔ ادارے نے البتہ حکیم سعید یادگاری خطبے کا انعقاد ضرور کیا جس میں عطا الحق قاسمی اور سینیٹر حسیب احمد نے شرکت کی اور مرحوم کو بھرپور خراج عقیدت پیش کیا۔ خدا جانے ہم محسن شناس کب ہوں گے؟ ایک ایسا شخص جو 6 گھنٹے سوتا، دو وقت کا کھانا کھاتا تھا اور فجر کے بعد سے انسانیت کی فلاح و مسیحائی میں لگ جاتا تھا کسی صلے، ستایش اور آسایش کی تمنّا نہ رکھتا تھا، ایسے شخص کا قتل انسانیت کا قتل ہے۔ پاکستانی قوم کی بدنصیبی ہے اگر وہ زندہ رہتے تو قوم کے لیے اور بہت کچھ کرجاتے۔
بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس

شہید پاکستان حکیم محمد سعید از عدنان اشرف ایڈوکیٹ
17 اکتوبر شہید اور سعید پاکستان حکیم محمد سعید کا یومِ شہادت ہے۔
حکیم صاحب 1948 میں تمام تر خاندانی اور سیاسی مخالفتوں کے سب کچھ چھوڑ کر بے سروسامانی کے عالم میں پاکستان آئے۔ آرام باغ کے ایک چھوٹے سے کمرے میں ہمدرد فائونڈیشن کا کام شروع کیا، جس مکان کو اپنا مسکن بنایا تھا، مرتے دم تک اسی میں مقیم رہے۔ نصف صدی میں جو کچھ کمایا، خلقِ خدا پر خرچ کردیا۔ اپنے نام کوئی اثاثہ نہیں رکھا۔ نصف کروڑ کے قریب مریضوں کا طبی معائنہ کیا، کسی سے کوئی پیسہ نہیں لیا۔ 12 روپے سے ادارے کی بنیاد رکھی، بیوی کا زیور بیچ کر اس کی ترقی و ترویج کی اور اسے وقف برائے پاکستان کردیا۔ حکیم صاحب ایک درویش صفت انسان، سچّے مسلمان، حافظِ قرآن اور پکے پاکستانی تھے۔ دنیاوی شہرت سے لاتعلق اور بے نیاز کثیر الجہات اور جامع الکمالات شخصیت کے مالک تھے۔ طب اور تعلیم ان کے بنیادی ہدف تھے۔
انصاف کے شعبے سے متعلق بھی انھوں نے کلیہ قانون کے علاوہ کامرس اور اکنامکس کے شعبے رکھے ہیں۔ ہمدرد ایگری کلچر اور انڈسٹریل سٹی بھی قائم کی ہے۔ نصف صدی سے زیادہ پر محیط اپنی عملی اور جہدِ مسلسل پر مبنی زندگی میں دو سو سے زاید تصانیف تحریر کیں۔ ریسرچ پیپرز اور بین الاقوامی کانفرنسز میں شرکت کی۔ شام ہمدرد کے ذریعے پاکستان میں فکری انقلاب برپا کیا۔ ہمدرد رسائل و جراید کے ذریعے فکر و عمل کی دعوت دی۔ اردو زبان کی ترقی و ترویج اور اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے انتھک محنت کی۔
ہمدرد فائونڈیشن شاید پاکستان کا واحد ادارہ ہے جہاں ادارے کے سربراہ سے لے کر چپڑاسی تک تمام خط و کتابت، دفتری اور انتظامی امور اردو میں سرانجام دیتے ہیں۔ جہاں دوست، جواناں امروز، ہمدرد مجلسِ شوریٰ، بزمِ ہمدرد نونہال کے ذریعے ادنیٰ و اعلیٰ پاکستانیوں میں فکری انقلاب کی داغ بیل ڈالی۔ حکیم صاحب نے جن اداروں کی بنیاد ڈالی تھی وہ ان کے فکری ترجمانی کے فرائض بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے علم کے جو بھی پودے لگائے تھے وہ اب تناور درخت بن کر تعمیر و ترقی کی راہ میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔ حکیم سعید صحت و تعلیم کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے۔
کتابیں اور کتب خانے ان کی شناخت تھیں۔ مدینۃ الحکمت میں سب سے پہلے بیت الحکمت لائبریری تیار کرائی گئی جو پاکستان کی بڑی جدید اور سائنٹیفک لائبریری ہے۔ بدقسمتی سے برقی میڈیا ملک میں غیر ملکی تہذیب کا سیلاب لے آیا ہے۔ علم کے بجائے معلومات اور انگریزی زبان کے ذریعے معاشی ترقی کے مواقع تو ضرور میسر آگئے ہیں لیکن اس نے ہماری تہذیبی اور لسانی جڑوں کو دیمک زدہ کردیا ہے۔ مطالعے کی ضرورت اور شوق غیر ضروری سمجھے جانے لگے ہیں۔ مشرقی اقدار اور علوم دونوں سے ناتا ختم ہوتا جارہا ہے، جو فکر سعید کی نفی ہے۔ حکیم صاحب تو جہاز کے سفر سے لے کر ٹرانزٹ لائونج تک کتاب و قلم سے تعلق جوڑے رکھتے تھے۔ ہر وقت حصولِ علم، ترسیلِ علم اور غوروفکر میں مشغول رہا کرتے تھے۔
مدینۃ الحکمت کا خیال بھی ان کے دل میں اس وقت آیا تھا جب وہ حرم شریف میں بیٹھے اس کے اطراف پر غور کررہے تھے۔ پہاڑوں میں گِھرے بیت اﷲ اور جس جگہ آج مدینۃ الحکمت قائم ہے، اس میں حکیم صاحب کو جغرافیائی مماثلت نظر آئی، لہٰذا انھوں نے وہاں پر ہمدرد یونیورسٹی کے قیام کا ارادہ کرلیا۔ حکیم سعید نباضِ ملت اور مشرقی و اسلامی علوم پر ماہرانہ نظر رکھنے والے حافظِ قرآن، انسانیت دوست، شفیق مسیحا، محقق، دانشور، تاریخ دان، ماہرِ تعلیم، مصنف، مدبر، مدیر، مؤلف و مصنف اور اعلیٰ پائے کے منتظم تھے۔
ملک و ملت کا درد ان کے جگر میں سمایا ہوا تھا۔ اس مردِ حق نے یتیم بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے بھرپور کوششیں کیں اور یتیم و لاوارث بچّوں کے لیے ’’یہ بچّہ میرا ہے‘‘ کے نام سے ایک تحریک شروع کی اور ایسے لاوارث و یتیم بچوں کو صاحبِ حیثیت، صاحبِ کردار اور انسانیت کا جذبہ رکھنے والے افراد کی آغوش میں دے کر ان کا مستقبل محفوظ بنانے کی عملی کوششیں کیں اور باقاعدہ چھان بین اور قانونی معاہدات اور قدغن عاید کرنے کے بعد ان بچوں کو قانونی تحفظ کے بعد خواہش مند افراد کے سپرد کیا گیا۔ ان کے ادارے میں اہل طلبا کو اسکالر شپ دینے کے علاوہ یتیم اور بیوائوں کی امداد کا مربوط نظام بھی قائم ہے۔ حکیم صاحب اپنی گورنری کے دور میں بھی مریضوں کو اسی طرح دیکھتے رہے۔ آخری مریض کو دیکھے بغیر نہیں جاتے تھے۔
ہر خط کا جواب خود تحریر کرتے تھے۔ بچوں کے ساتھ اسٹول پر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ ان میں ہر دل عزیز تھے۔ جب انھیں گورنر بنایا گیا اور اس کی اطلاع دینے کے لیے ان کے گھر فون کیا گیا تو وہ سورہے تھے، حکام کو بتایا گیا کہ حکیم صاحب سورہے ہیں، صبح تہجد میں اٹھیں گے، اس سے قبل بات ممکن نہیں ہے۔ ان کے تعلیم سے لگائو کا یہ حال تھا کہ اپنی گورنری کے مختصر ترین دور میں 4 یونیورسٹیز کی منظوری دی۔ حکیم محمد سعید پاکستان میں کراچی اور دنیا میں پاکستان کی شناخت و فخر سمجھے جاتے تھے۔
ادنیٰ و اعلیٰ سے ایک رویہ تھا، انھیں ستارۂ امتیاز اور نشانِ امتیاز جیسے تمغوں سے بھی نوازا گیا لیکن ان تمغوں نے ان کی نہیں بلکہ حکیم صاحب کی شخصیت نے انھیں توقیر و افتخار بخشا۔ ایسی شخصیات ہی اپنے شعبوں کی حرمت قائم کرتی ہیں جو صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ پاکستان میں ان کا کوئی ہمسر دور دور تک دِکھائی نہیں دیتا لیکن اہلِ وطن ان کی خدمات کو صحیح طور پر سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ 17 اکتوبر کو شہید، سعید اور محسن و مسیحا حکیم محمد سعید کی 14 ویں برسی کا دن تھا جو انتہائی خاموشی یا فراموشی سے گزر گیا۔ اس دن تمام ٹی وی چینلز پر مذاکروں، مظاہروں، احتجاجوں میں سیاسی، سماجی، مذہبی شخصیات اور اکابرین 14 سالہ ملالہ کے تعلیمی عزم و ارادے پر تو خوب خراجِ عقیدت پیش کرتے رہے بلکہ زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہے۔
مذاکرے، بحثیں، نغمے اور عوامی ٹیلی فون کالز کے تانتے بندھے رہے۔ لیکن عظیم قومی مفکر، تعلیم دان اور محسن حکیم سعید سے متعلق کسی نے عقیدت و خلوص کے دو جملے بھی ادا نہیں کیے۔ ان کی تعلیمی و لسانی خدمات کے حوالے سے کوئی یاد تازہ نہیں کی گئی۔ ادارے نے البتہ حکیم سعید یادگاری خطبے کا انعقاد ضرور کیا جس میں عطا الحق قاسمی اور سینیٹر حسیب احمد نے شرکت کی اور مرحوم کو بھرپور خراج عقیدت پیش کیا۔ خدا جانے ہم محسن شناس کب ہوں گے؟ ایک ایسا شخص جو 6 گھنٹے سوتا، دو وقت کا کھانا کھاتا تھا اور فجر کے بعد سے انسانیت کی فلاح و مسیحائی میں لگ جاتا تھا کسی صلے، ستایش اور آسایش کی تمنّا نہ رکھتا تھا، ایسے شخص کا قتل انسانیت کا قتل ہے۔ پاکستانی قوم کی بدنصیبی ہے اگر وہ زندہ رہتے تو قوم کے لیے اور بہت کچھ کرجاتے۔
بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس
 
Top