جاسم محمد
محفلین
حکومت براڈ شیٹ کمیشن رپورٹ منظر عام پر لے آئی
ویب ڈیسک جمعرات 1 اپريل 2021
بیوروکریسی نے ریکارڈ چھپانے اور گمانے کی ہر ممکن کوشش کی، رپورٹ۔ فوٹو:فائل
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے براڈشیٹ کمیشن رپورٹ پبلک کردی ہے اور رپورٹ سامنے آگئی ہے۔
ایکسپریس نیوزکے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں براڈشیٹ کمیشن رپورٹ پبلک کرنے کی منظوری دی گئی تھی، جس کے بعد وفاقی حکومت نے براڈشیٹ کمیشن رپورٹ پبلک کردی ہے اور رپورٹ سامنے آگئی ہے، جس نے بیوروکریسی کے عدم تعاون کی قلعی کھول دی۔
براڈشیٹ کمیشن رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نیب کے سوا تمام متعلقہ حکومتی اداروں نے کمیشن سے تعاون نہیں کیا، براڈشیٹ کا ریکارڈ تقریباً ہرجگہ بشمول پاکستان لندن مشن کے مِسنگ تھا، کمیشن کے سربراہ نے طارق فواد اور کاوے موسوی کا بیان ریکارڈ کرنا بھی مناسب نہ سمجھا، براڈشیٹ کا ایسٹ ریکوری معاہدہ حکومتی اداروں کی بین الاقوامی قانون کو نہ سمجھنے کا منہ بولتا ثبوت ہے، حکومتی اداروں کے عدم تعاون پر موہنداس گاندھی کو فخر محسوس ہوا ہوگا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیوروکریسی نے ریکارڈ چھپانے اور گم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، ریکارڈ کو کئی محکموں حتی کہ دوسرے براعظم تک غائب کیا گیا، کاووے موسوی سزا یافتہ شخص ہے، اور اس نے بعض شخصیات پر الزامات لگائے، اس کے الزامات کی تحقیقات کمیشن کے ٹی او آرز میں شامل نہیں، حکومت چاہے تو کاووے موسوی کے الزامات کی تحقیقات کروا سکتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سوئس کیسز کا 12 ڈپلومیٹک بیگز میں ریکارڈ نیب کے پاس موجود ہے، نیب جائزہ لے کہ ریکارڈ اس کے کام آ سکتا ہے یا نہیں۔
براڈشیٹ کمیشن نے رولز آف بزنس میں ترمیم کی سفارش کرتے ہوئے رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ حکومتی سسٹم کی وجہ سے ملک کی بدنامی اور مالی نقصان بھی ہوا، سیاسی دبائو عام طور پر حکام سے غلط فیصلے کرانے کا باعث بنتا ہے۔
رپورٹ میں جسٹس (ر) عظمت سعید کا نوٹ بھی شامل ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مارگلہ کے دامن میں رپورٹ لکھتے وقت گیدڑوں کی موجودگی بھی ہوتی تھی، گیدڑ بھبھبکیاں مجھے کام کرنے سے نہیں روک سکتیں۔
ویب ڈیسک جمعرات 1 اپريل 2021

بیوروکریسی نے ریکارڈ چھپانے اور گمانے کی ہر ممکن کوشش کی، رپورٹ۔ فوٹو:فائل
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے براڈشیٹ کمیشن رپورٹ پبلک کردی ہے اور رپورٹ سامنے آگئی ہے۔
ایکسپریس نیوزکے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں براڈشیٹ کمیشن رپورٹ پبلک کرنے کی منظوری دی گئی تھی، جس کے بعد وفاقی حکومت نے براڈشیٹ کمیشن رپورٹ پبلک کردی ہے اور رپورٹ سامنے آگئی ہے، جس نے بیوروکریسی کے عدم تعاون کی قلعی کھول دی۔
براڈشیٹ کمیشن رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نیب کے سوا تمام متعلقہ حکومتی اداروں نے کمیشن سے تعاون نہیں کیا، براڈشیٹ کا ریکارڈ تقریباً ہرجگہ بشمول پاکستان لندن مشن کے مِسنگ تھا، کمیشن کے سربراہ نے طارق فواد اور کاوے موسوی کا بیان ریکارڈ کرنا بھی مناسب نہ سمجھا، براڈشیٹ کا ایسٹ ریکوری معاہدہ حکومتی اداروں کی بین الاقوامی قانون کو نہ سمجھنے کا منہ بولتا ثبوت ہے، حکومتی اداروں کے عدم تعاون پر موہنداس گاندھی کو فخر محسوس ہوا ہوگا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیوروکریسی نے ریکارڈ چھپانے اور گم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، ریکارڈ کو کئی محکموں حتی کہ دوسرے براعظم تک غائب کیا گیا، کاووے موسوی سزا یافتہ شخص ہے، اور اس نے بعض شخصیات پر الزامات لگائے، اس کے الزامات کی تحقیقات کمیشن کے ٹی او آرز میں شامل نہیں، حکومت چاہے تو کاووے موسوی کے الزامات کی تحقیقات کروا سکتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سوئس کیسز کا 12 ڈپلومیٹک بیگز میں ریکارڈ نیب کے پاس موجود ہے، نیب جائزہ لے کہ ریکارڈ اس کے کام آ سکتا ہے یا نہیں۔
براڈشیٹ کمیشن نے رولز آف بزنس میں ترمیم کی سفارش کرتے ہوئے رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ حکومتی سسٹم کی وجہ سے ملک کی بدنامی اور مالی نقصان بھی ہوا، سیاسی دبائو عام طور پر حکام سے غلط فیصلے کرانے کا باعث بنتا ہے۔
رپورٹ میں جسٹس (ر) عظمت سعید کا نوٹ بھی شامل ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مارگلہ کے دامن میں رپورٹ لکھتے وقت گیدڑوں کی موجودگی بھی ہوتی تھی، گیدڑ بھبھبکیاں مجھے کام کرنے سے نہیں روک سکتیں۔